تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     13-10-2021

حکم اللہ کا‘ قانون قرآن کا اور رستہ رسول ﷺ کا

سیرت النبی ﷺ اور ریاست مدینہ کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کیلئے وزیراعظم نے اپنی سربراہی میں اتھارٹی قائم کردی ہے۔ یہ اتھارٹی اسوہ حسنہ اور خلفائے راشدین کے طرزِ حکمرانی کے سنہری اصولوں کو اجاگر کرنے سے لے کر تعلیمی نصاب اور سوشل میڈیا پر نازیبا اور قابل اعتراض مواد کی نشاندہی اور مانیٹرنگ بھی کرے گی۔ملک بھر میں ربیع الاول کی نسبت سے عشرہ رحمت للعالمین بھی منایا جارہا ہے۔ رحمت للعالمین اتھارٹی کے قیام کا سن کر مجھے حکمران جماعت کے اس منشور کی بے اختیار یاد آئی جو برادر محترم حسن نثار نے تخلیق کیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم نے یہ اتھارٹی بھی اسی منشور کو یاد کرکے قائم کی ہو۔ مندرجہ زیل نکات تحریک انصاف کے اس منشور میں سر فہرست تھے :
حکم اللہ کا‘ قانون قرآن کا اور رستہ رسول ﷺ کا۔انصاف عام۔احتساب سرعام اور اقتدار میں عوام۔
مگر26سالہ طویل سیاسی جدوجہد میں مصلحتیں اور مجبوریاں نظریات اوراصولوں کو اس طرح کھاتی چلی گئیں کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد جو تحریک انصاف برسراقتدار آکر تقریب حلف برداری میں نظر آئی اس میں اکثریت کا تحریک انصاف اور اس کی سیاسی جدوجہد میں کوئی کردار نہ تھا اور اسی طرح جنہوں نے تحریک انصاف کے پودے کو بھر بھر مشکیں ڈال کر پروان چڑھاکر اقتدار کی مسند تک پہنچایا ان کااقتدار میں کوئی کردار اور نام و نشان بھی نظر نہیں آیا۔گویا منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔
بات ہورہی تھی رحمت للعالمین اتھارٹی کے اغراض و مقاصد کی ‘اس بارے میں تو بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ سیرت النبی ﷺ پرمزید تحقیق کے لیے اتھارٹی بنانا اپنی جگہ ایک مستحسن اقدام ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے گمشدہ منشور کو بھی کہیں سے ڈھونڈ لاتے اور اس منشور کانصف بھی سچ کردکھاتے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ اتھارٹی کے مقاصد بہت پہلے حاصل کر لئے جاتے۔اور یہ بھی مد نظر رہے کہ ہمارے ہاں اتھارٹیز تو بنا دی جاتی ہیں مگر ان کے نصب العین کی جانب توجہ نہیں دی جاتی حالانکہ اصل مقصد تو کام ہے۔ اگر اتھارٹی کے قیام کے باوجود مقاصد کو عملی صورت نہ دی جاسکے تو اتھارٹی بنانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ معمہ بھی حل طلب ہے کہ وزیراعظم کی سربراہی میں قائم اس اتھارٹی میں ریاست مدینہ کے طرز حکمرانی پر تحقیق کے لیے کن ماہرین کو مقرر کیا جائے گا۔جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروںکہ ریاست مدینہ مومنین پر مشمل تھی جبکہ موجودہ حکومت میں معاونین کی بھرمار ہے۔دین کی کون سی تعلیمات پوشیدہ اور کون سا راز کھلنا باقی ہے؟مکمل ضابطۂ حیات قرآن پاک کی صورت میں نسل در نسل ہمارے پاس ہے۔گویا رہنمائی کے سارے اصول ‘ ضابطے‘ قوانین ہمارے پاس موجود ہیں۔سیرت النبیﷺ کا روشن نمونہ بھی ہمارے سامنے ہے‘ کھلی کتاب اور روز روشن کی طرح واضح ہے۔مگر قرآن پاک اور سیرت طیبہ سے اگر ہم رہنمائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو اس کی وجہ ہمارے اخلاص اور عمل کی کمی ہے؛چنانچہ ہمیں اخلاص اور عمل پر توجہ دینے اورعملدرآمد کے لیے کوئی اتھارٹی بنانا پڑے تو ضرور بنا لینی چاہئے۔
عوام سے لے کر اشرافیہ تک سبھی کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو سبھی مانتے ہیں‘ مگر اللہ کے احکام کی پاسداری نہیں کرتے۔مفاد عامہ کے منصوبوں سے ذاتی کاروبار کو ضربیں دینے والے ہوں یا سرکاری وسائل کو بے دریغ لوٹنے والے۔سرکاری خزانے پر کنبہ پروری اور لمبا ہاتھ صاف کرنے والوں سے لے معیشت کا پیندا چاٹ جا نے والوں تک۔ ملکی اداروں کو دائو پہ لگانے والوںسے لے کرغیرتِ قومی کا جنازہ نکالنے والوں تک۔حصول اقتدار سے لے کر طول اقتدارکے لیے اخلاقی و سماجی اقدار کی دھجیاں اڑانے سے لے کر دھاندلی اور جھرلو جیسے ہتھکنڈوں تک۔ کس کس کا رونا روئیں۔عوام سے بدعہدی ہو یا حلف اور آئین سے انحراف سبھی کچھ اتنی ڈھٹائی سے کرتے چلے آرہے ہیں۔رب کی نافرمانیوں سے لے کر عوام سے بے وفائیوں تک کچھ بھی کر جائیں‘ان کے ہاتھ نہیں کانپتے۔لیکن جونہی مکافات عمل کی پکڑ میں آتے ہیں تو عدالت میں پیشی پر آتے ہوئے پائوں بھی لڑکھڑاتے ہیں اور ہاتھوں پر رعشہ بھی طاری ہوجاتا ہے اور اسیری کے دوران تو ایسی دہائیاں دی جاتی ہیں‘ایسی ایسی بیماریاں ان پر حملہ آور ہوجاتی ہیں کہ کچھ نہ پوچھئے۔طبی بنیادوں پر ریلیف اور ضمانت کے لیے کیسے کیسے بہانے گھڑے جاتے ہیں کیسی کیسی توجیہات اور عذر تراشے جاتے ہیں۔ایسا سماں باندھا جاتا ہے کہ اگر چند روز اور اندر رہ گئے تو یہ ماحول جاں لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔پھر سیاسی مصلحتیں اور مجبوریاں اپنا کام ایسے دکھاتی ہیں کہ جزا اور سزا کے تصور کا ہی کام تمام ہوجاتا ہے۔رہائی ملتے ہی بھلے چنگے اور ہٹے کٹے ہوجاتے ہیں۔نہ کسی بیماری کے آثار نظر آتے ہیں اور نہ ہی کوئی مسئلہ۔
اسی طرح عوام بھی اپنی سیاسی اشرافیہ کے نقش قدم پر چلے جارہے ہیں۔اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان کوئی مقابلہ جاری ہے کہ کون کتنا لمبا ہاتھ مارتا ہے۔ یہ بھی اللہ کو مانتے ہیں لیکن اللہ کے احکام کو نہیں مانتے۔ قانون شکنی سے ہاتھ نہیں کانپتے‘ پولیس کے چھتروں کے خوف سے ٹانگیں ضرور کانپتی ہیں‘ خود ساختہ مہنگائی سے لے کر ذخیرہ اندوزی تک‘ ملاوٹ سے لے کرناپ تول میں ڈنڈی مارنے تک‘ سارے کرتوت دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے جاری ہیں۔گزشتہ برس کورونا سے بچاؤ کے لیے رات کو چھتوں پر چڑھ کر اذانیں بھی دیتے رہے اور خلقِ خدا کو چونا بھی لگاتے رہے‘ جو قوم کورونا جیسی جاںلیوا صورتحال کو کمائی کا ذریعہ بنانے سے باز نہ آئے تو اس کے بارے کیا کہا جاسکتا ہے۔غفلتوں کے مارے ‘ جہالتوں میں گوڈے گوڈے غرق‘ یہ سبھی کسے دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں؟ خود کو یا اپنے اُس رب کو جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے‘ نیتوں اور دلوں کا حال بھی اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
دور نہ جائیے۔صرف کورونا کی صورتحال کے ابتدائی چند ماہ پر ہی ایک نظر ڈال لیں توعوام کے دلوں میں خوفِ خدا اور اخلاقیات کا بخوبی اندازاہ لگایا جاسکتا ہے۔ ادھر کورونا نے زور پکڑنا شروع کیا اُدھر ماسک اور سینی ٹائزر مارکیٹ سے چھومنتر ہوگئے‘ ٹکے ٹوکری رُلنے والایہ ماسک منہ مانگے داموں بھی ناپید ہی رہا‘ جعلی سینی ٹائزرز سے لے کر ماسک کی بلیک مارکیٹنگ تک لمبا مال بنانے والے کسی دوسرے سیارے سے تھوڑی آئے تھے‘ اسی ملک کے باسی اور مملکتِ خداداد کے ذمہ دار شہری ہیں‘ جبکہ خود ساختہ مہنگائی اور منافع خوری کا عالم یہ تھا کہ ریڑھی والے سے لے کر آڑھتی تک‘ دکاندار سے لے کر کارخانہ دار تک‘ سبھی کورونا ٹیکس کی وصولی پر سختی سے کار بند تھے۔ایسے میں سیاسی اور انتظامی اشرافیہ بھی اس لوٹ مار کی بہتی گنگا میں خوب ڈبکیاں لگاتی رہی۔ کوروناکے متاثرین میں امدادی رقوم سے لے کر راشن کی تقسیم تک۔فیلڈ ہسپتالوں کے قیام سے لے کے علاج معالجہ کے نام پر بھاری اخراجات تک۔کس مد میں کس نے کتنا لگایا ‘کتنا کھایا‘کتنا لوٹا‘کتنا لٹایا‘کتنا کمایا‘کتنا بانٹاسب کو سبھی کا پتہ ہے۔ایسا اندھیر مچایا گیا کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔پھر بھی دل ہے پاکستانی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved