تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     13-10-2021

نئی دنیا کی تخلیق مشرق کرے گا؟

دوحہ میں امریکی نمائندوں کے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کا محور نیولبرل ازم کے اُن اساسی تصورات سے مملو ہے جنہیں مغربی طاقتیں ہمیشہ کمزور ممالک میں مداخلت کے آلہ کار کے طور پہ استعمال کرتی رہی ہیں؛ یعنی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی، جمہوری آزادیوں کی ضمانت اور اقلیتوں کے تحفظ کے علاوہ منشیات اور دہشت گردی کا انسداد۔ انہی ایشوز کو جواز بنا کر چھوٹی مملکتوں کو یرغمال بنایا گیا اور شخصی آمریتوںکو بلیک میل کرکے مغربی غلبے کی حامل منڈیوں کی طرف لایا جاتا رہا۔ پچھلے چالیس سالوں میں یہی طرزِ عمل عالمی طاقتوں کے ہمدردانہ استحصال کی کلاسیکی صورتیں ہیں لیکن اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی عراق اور اب افغانستان میں امریکی فوجوں کی شکست اس احساس کی تصدیق کرتی ہے کہ نیولبرل ازم کا سحر ٹوٹ چکا ہے۔ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی اورافغانستان میں القاعدہ کی مبینہ دہشت گردی کو جواز بنا کر دنیا کی دو قدیم ترین تہذیبوں کو اجاڑا گیا مگر اس پیش دستی کی کوکھ سے کوئی خیر وبھلائی نمودار نہیں ہوئی بلکہ انہی جارحیتوں کے نتیجہ میں دنیا بھر میں استعماری تشدد کو فروغ ملا اور بڑے پیمانہ پر انسانوں کی نقل مکانی نے امریکا سمیت یورپی ممالک کو ناقابلِ برداشت مشکلات سے دوچار کر دیا۔ ان منفی طریقوں کی ناکامی کی بدولت امریکا کو خاموشی کے ساتھ عراق کی سرزمین چھوڑنا پڑی اور افغانستان میں بیس سالوں پہ محیط بے مقصد جنگ کے بعد بالآخر انہی طالبان سے دوحہ امن معاہدے کی رعایت لی گئی‘ بیس سال قبل جنہیں عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دے کر نہایت سفاکی کے ساتھ تاراج کیا گیا تھا۔ یہ پورے مغرب کے نظریاتی بیانیے کی ناکامی اور فلسفۂ اخلاق کی بدترین شکست تھی لیکن حیرت ہے کہ دوحہ میں بیٹھے امریکی اہلکاراب بھی انہی فرسودہ مطالبات کی جُگالی میں مصروف ہیں‘ پچھلے ساٹھ سالوں میں جسے انسانیت کے استحصال کیلئے بروئے کار لایا گیا۔ اسی پس منظر میں شاید امارتِ اسلامی نے داعش کے قلع قمع کیلئے امریکی تعاون کی پیشکش کو مسترد کرکے نیولبرل ازم کے اُن فریب کارانہ نعروں کے طلسماتی پھندوں میں الجھنے سے گریز کیا جن کی آڑ میں مشرقی اقوام کے تمدن کو برباد کیا اور وسائل کو لوٹا گیا۔آج کی مغربی اشرافیہ نیولبرل عہد یا نیو لبرل سوسائٹی کے معاشی تصورکو سیاسی رجحانات کیلئے مفید تجزیاتی آلہ کار نہیں سمجھتی بلکہ عوامی حاکمیت اور مذہبی رواداری کا فلسفیانہ اور مذہبی دفاع بھی انہیں بے مقصد مساعی دکھائی دیتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
گویا سائنس و ٹیکنالوجی کی قوت سے لیس اور مصنوعی تاجرانہ اخلاقیات کی حامل مغرب کی سحرانگیز دنیا اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے۔ پہلے بھی ایسی نشانیاں موجود تھیں کہ نیولبرل ازم بالآخر ٹوٹ جائے گا کیونکہ اِسی تصور کا سہارا لے کر مغرب کے نسل پرست سرمایہ داروں نے ہندوستان سے برازیل تک پھیلے ملکوں کے وسائل پہ غاصبانہ قبضہ کیا اور سماجی تشدد، خانہ جنگیوں اورسیاسی شورشوں کو استعماری سرمایہ فراہم کیا۔ ولیم ڈیوس نے شاید نیولبرل ازم کی سب سے مختصر تعریف کی، جو اسے معاشرتی عمل کے طور پر مرتب کرتی ہے یعنی ''معاشیات کی ذریعے سیاست کا خاتمہ‘‘، یہ بہت سے اُن لوگوں کے دل میں اتری جو سیاسی میدان سے مارکیٹ میں منتقل ہوئے، ایک فرد ایک ووٹ، یا پھر ایک ڈالر یا پاؤنڈ یا یورو یا یوآن ایک ووٹ یا شاید ایک ملین ڈالر ایک ووٹ۔
اگرچہ 20 ویں صدی کے پہلے نصف میں خواتین اور محنت کش طبقات کو قومی حکومتیں منتخب کرنے کا حق ملا لیکن عملاً انہی حکومتوں کو ''ریموٹ کنٹرول‘‘ کے ذریعے دوسری جگہوں سے چلانے والے لوگوں کو بھی دیکھا گیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ زیادہ لوگ وسائل اور فیصلہ سازی کے عمل کے قریب نہ آ سکیں۔ تاہم نیو لبرل ازم ہمیں ایک تاریخی اور جغرافیائی عمل میں پیہم رواں دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ صدیوں سے سرمایہ داری کی غالب شکل استعماریت تھی، جن لوگوں کے پاس پیسہ تھا وہ سمجھ گئے تھے کہ اس سے زیادہ کمانے کا اچھا طریقہ کیا ہے۔ ڈبل انٹری بک کیپنگ، جو قرونِ وسطیٰ کے دور میں شمالی اٹلی میں ایجاد ہوئی‘ نجی کاروباری اداروں کو سرمایے، کریڈٹ، قرضوں اور سرمایہ کاری کی نگرانی کی اجازت دیتی ہے، اس کا ابتدائی محرک کرسٹوفر کولمبس تھا جس نے اپنے بدنام زمانہ 1492 کے سفر پر شاہی اکاؤنٹنٹ کو ہمراہ لیا تھا اور پھرجلد ہی یورپی باشندے دنیا بھر میں نوآبادیاتی تشدد کے ذریعے سرمایہ جمع کرنے کے ماہر بن گئے۔ اس لئے ریڈ انڈین امریکیوں اور آسٹریلوی ابارجینز کی نسل کشی کی گئی، ایسٹ انڈیا کمپنی کی جنوب مشرقی ایشیا پر وحشیانہ یلغار، افریقہ اور افیون کیلئے خونریز جنگیں اس کی بدترین مثالیں ہیں۔ عالمی منڈیوں کے کنٹرول نے صنعتی انقلاب پیدا کرنے میں مدد دی جس نے استحصالی عمل کو مزید تیز کردیا۔ امریکا کے نیوکنزرویٹو طبقات اب مارکیٹ اکانومی، جمہوری آزادیوں اوربنیادی انسانی حقوق کے علمبردار نیولبرل ازم کے تصورات سے جان چھڑانے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں اور انہیں چین کا وہ ماڈل زیادہ پُرکشش محسوس ہوتا ہے جس کی بنیاد جماعتی استبدایت پہ رکھی گئی ہے۔ بلاشبہ مغرب کی مہذب اقوام نے دنیا کو سیاسی تشدد اور بے مقصد جنگوں میں الجھا کے معاشی، سماجی اور سیاسی طور پہ قلاش رکھا، اس کے برعکس چین نے روڈ اینڈ بیلٹ اقدام کے تحت کمزور ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھاری سرمایاکاری کرکے نہ صرف خود معاشی مفاد حاصل کیا بلکہ ان ممالک کو بھی اقتصادی طور پہ اپنے پائوں پہ کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔ چین کی یہی مثبت پیش رفت دنیا بھر میں امن و خوشحالی کی نوید بن کے ابھری ہے اور یورپ سمیت مغرب کی کئی مملکتیں اس جدید معاشی تصور سے استفادے کی جانب مائل دکھائی دیتی ہیں جس نے دنیا کو زیادہ مربوط کر دیا ہے۔طالبان اور چین کے مابین دونوں ممالک کی چھوٹی سرحد (واخان)‘ جو تاجکستان اور افغانستان کے درمیان انگلی کی مانند حائل ہے اور جو 19 ویں صدی میں بھی روسی اور برطانوی سلطنتوں کے درمیان کشمکش کی میراث رکھتی تھی‘ کی راہداری سے متعلق بات چیت چل رہی ہے۔ واخان کی یہی پٹی چینی دارالحکومت بیجنگ کو سنٹرل ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اورمشرقی یورپ کی تجارتی منڈیوں سے منسلک کرنے کا وسیلہ بننے والی ہے۔ اگر نیو لبرل ازم امریکی سرمائے کی طاقت کا حامل تھا تو پھر اس بات کا ہر موقع موجود ہے کہ آگے آنے والا وقت بیجنگ کی بالادستی میں اضافے کے علاوہ سرمایہ کاری کا روڈ اینڈ بیلٹ اینی شیٹو جیسا منفرد معاشی نظام، مشرق اور مغرب دونوں پر حاوی ہو جائے گا۔
اگرچہ ہمیشہ کی طرح اب بھی افغانستان میں سفری راستوں کو قتل گاہ سمجھا جا رہا ہے لیکن افغانستان میں امریکی شکست ایک اور نشانی ہے کہ نیو لبرل ازم کی نفسیاتی رکاوٹیں ختم ہوچکی ہیں کیونکہ اسی پسپائی کے باعث دنیا کو امریکی قیادت والی منڈی میں سمونے کی سکیم عملاً فنا کے گھاٹ اتر گئی ہے۔ ٹی وی سکرینوں اورسوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے پھیلایا جانے والا رومانوی پروپیگنڈا اور تراشیدہ تصور‘ جو کمزور طبقات کو اپنے ماحول سے خوفزدہ کرکے سنہرے جال میں پھنسانے کا ذریعہ بنتا تھا، بے اثر ہو گیا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے یہی ابلاغی وسائل اب مقہور اقوام کو باہمی انحصار کی اہمیت سے آشنا کر رہے ہیں۔ بلاشبہ حقیقت کو زیادہ دیر تک دائو پیچ سے مقید نہیں رکھا جا سکتا، جنہیں طالبان کے ہاتھوں ذبح ہونے اوربنیادی آزادیوں کے چھن جانے کے اندیشہ ہائے دور دراز سے ڈرایا جاتا تھا وہی لوگ اب اپنی بقا کو مغربی سوداگروں کے پاس گروی رکھنے پہ تیار نہیں ہو رہے۔ امریکی فورسز کے انخلا کے بعد وہی فریب خوردہ لوگ اب افغانستان، شام اور عراق میں خود کو زیادہ محفوظ تصور کر رہے ہیں جنہیں عالمی طاقتوں نے فرقہ وارانہ، گروہی اور نسلی تعصابات کے سحر میں الجھا کے باہم دست و گریباں کر رکھا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved