تحریر : ڈاکٹر اختر شمار تاریخ اشاعت     23-07-2013

پنجاب کی آواز

شوکت علی سٹیج پر آکر بھرائی ہوئی آوا ز میں میاں محمد بخش کا شعر، تحت اللفظ میںپڑھ رہے تھے: ؎ خَس خس جِناں قدر نہ میرا ،صاحب نوں وڈیائیاں میں گلیاں دا رُوڑا کُوڑا،محل چڑھا یا سائیاں شعر پڑھتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسوجھلملا رہے تھے ۔شوکت علی ’’پرائیڈ آف پنجاب‘‘ کا ایوارڈ پانے پر سراپا عجز و نیاز تھے۔سٹیج پر اُن کے ہمراہ اپنے اپنے شعبے کی ممتاز شخصیات براجمان تھیں، صرف یہی نہیں بلکہ سامعین کی نشستوںپر بھی ایسا ہی تھا۔نامور فنکار ، شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور اپنے شوکت علی اور پنجاب کی آواز کی پذیرائی کے لیے جمع تھے ۔رمضان المبارک کے با برکت مہینے میں صوفیانہ موسیقی کے ذریعے دلوں پر راج کر نے والے، شوکت علی کے اعزاز میں یہ یاد گار تقریب پلاک نے برپا کی ۔پنجاب انسٹی ٹیوٹ کی تقریبات میں پرویز رشید پہلے بھی آتے رہے ہیں مگر وزارتِ اطلا عات و نشریات کا قلم دان سنبھالنے کے بعد وہ پہلی بار یہاں تشریف لائے تھے۔ شاید یہ کرامتِ وزارت بھی ہے کہ وزیر اطلاعات جہاں ہوتے ہیں، وہیںمیڈیا کا میلہ بھی سج جاتاہے۔ہمیں خوشی ہو رہی تھی کہ ہمارے پسندیدہ اور ہر دل عزیز فنکار شوکت علی کے لیے جہاں اُن کے ہمدمِ دیرینہ پرویز رشید ،انتہائی مصروفیات سے وقت نکال کر تشریف لائے ہوئے تھے وہیں شعبہ ادب و ثقافت اور صحافت کی مشہور شخصیات کی ایک کہکشاں بھی موجود تھی۔شوکت علی مرنجاں مرنج فنکار ہیں ۔جب نامور لوگ ان کے لیے کلمہ تحسین ادا کر نے میں مصروف تھے تو شوکت علی آنکھیں بند کیے ہاتھ جوڑے عجز انکسار کا مرقع دکھائی دے رہے تھے۔ یقینا وہ اپنی تعریف و توصیف پر رب العزت کا شکر ادا کررہے ہوں گے۔شوکت علی ہلکا سا بھی گنگنائیں تو ’’ سوزو درد ‘‘ ان کی آنکھوں سے چھلکنے لگتا ہے ۔صوفیانہ کلام تو بہت سے فنکاروں نے گایا مگر میاں محمد بخشؒ کی سیف الملوک ، ان سے بہتر ابھی تک نہیں گائی گئی۔ میاں محمد بخشؒ کے کلام کا اثر براہِ راست دل پر ہوتا ہے۔خود میاں صاحب اِس حوالے سے فرماتے ہیں : ؎ جس دل اندر ہووے بھائی ہک رتی چنگاری ایہہ قصہ پڑھ بھانبڑ بنسی ،نال ربے دی یاری یعنی اگر کسی دل میں ایک رتی چنگاری (ایمان) بھی موجود ہے تو یہ کلام پڑھ کر وہ چنگاری الائو کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔میاں محمد بخش ؒکے کلام کی گائیکی کے حوالے سے ہر شخص نے تائید کی کہ سیف الملوک سب سے اچھا شوکت علی نے گایا ۔انہوں نے صوفیا ء کے کلام کے علاوہ فلمی گیت ،غزلیں ،ملّی ترانے اور لوک گیت بھی گائے ہیں اور ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے۔آج پنجاب کی دھرتی نے بھی انہیں پنجاب کی آواز کے طور پر شناخت کر لیا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اس تقریب میں پنجاب حکومت کی نمائندگی ، وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کر رہے تھے ۔شوکت علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں انہیں وائس آف پنجاب کا ایوارڈ دیا گیا،صدارتی ایوارڈ بھی مل چکا مگر میری دیرینہ آرزو تھی کہ مجھے اپنی پنجاب دھرتی بھی ’’تھپکی ‘‘ سے نوازے اور آج میں بہت خوش ہوں کہ یہ ایوارڈ اپنے ہمدم ِدیرینہ پرویز رشید سے وصول کر رہا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ : ’’ سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بھی کئی شوکت علی ایسے ہی داد و تحسین کے مستحق اور منتظر ہیں ۔حکومت ہر صوبے میں ایسے ایوارڈ جاری کرے ۔‘‘ پرویز رشید کی اِس تقریب میں شرکت سے اندازہ ہوا کہ وہ یاروں کے یار ہیں ۔وزیر ہو کر بھی ان میں وزیروں والی کوئی ’’پھُوں پھاں ‘‘ نہیں ۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ : ’’ شوکت علی سے ان کی دوستی ، پنتالیس برسوں پر محیط ہے۔کالج کے دنوں میںوہ شوکت علی کو موٹر سائیکل پر گھر چھوڑنے کرشن نگر بھی جاتے رہے ہیں۔اُ ن دنوں شوکت جنگی ترانے زیادہ گایا کرتے تھے جبکہ مجھے جنگ سے کبھی محبت نہیں رہی ۔پھر میری فرمائش پر ہی انہوں نے سیف الملوک گانا شروع کیا۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا اُن دنوں شوکت علی کی پہچان اور شہرت سے ’’جلن ‘‘ بھی محسوس ہوتی تھی۔ہمیں کوئی پہچانتا نہ تھاتو ہم سوچتے کہ کاش ہمیں بھی ایسی محبت نصیب ہو۔شوکت علی نے تمنا کی کہ یہ ایوارڈ وہ میرے ہاتھوں سے وصول پائیں توخود مجھے اس مقام پر آنے میں پنتالیس برس لگ گئے ۔پرویز رشید نے گواہی دی کہ شوکت اچھا فنکار ہی نہیں ،دوست اور شہری بھی بہت اچھا ہے۔یہ ایوارڈ کی ’’ پرائیڈ ‘‘ ہے کہ وہ شوکت علی کو دیا جا رہا ہے‘‘۔اِس بات پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔تقریب میں نامور شخصیات نے شوکت علی کو پھولوں بھری مبارک باد پیش کی ،بعض نے مختصراََ اظہار خیال بھی کیا ۔منو بھائی کا خیال تھا کہ لوک فنکار ہونا خود اعزاز کی بات ہے ۔لوک فنکار کو لوگوں کی محبت کے لیے فوت نہیں ہونا پڑتا ۔عطاء الحق قاسمی نے کہا صرف باتوں سے پنجابی کو فروغ نہیں دیا جا سکتا ،عملی کام کرنا پڑتا ہے ،شوکت علی ایک بڑا فنکار اور پنجاب کی آواز ہے۔امتیاز عالم نے حسب ِروایت کلچر کو اپنی گفتگو کا حصہ بنایا اور کہا کہ : ثقافتی یلغار کا شور کرنے والے اپنے پنجابی رچ کلچر پر توجہ دیں ۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ۔ہمارا حال یہ ہے کہ موسیقی کے گھرانے بھوکوں مر رہے ہیں ،ہمارے ہاں فنکاروں کی وہ قدرو منزلت نہیں جیسی ہونی چاہیے ۔ہمارے ہاں پنجابی کے سات سو پرچے بھی نہیں نکلتے جبکہ ہمسائے میں لاکھوں شائع ہوتے ہیں ۔شوکت علی نے ضیا الحق کے مارشلائی دور میں ماہیے گا کر کلچر کی بھوک مٹائی ۔ڈاکٹر یونس جاوید نے کہا 65 کی جنگ شروع ہوئی تو کانوں میں جو پہلی آواز پڑی وہ شوکت علی کی تھی جو کہہ رہا تھا : ؎ ساتھیو،مجاہدو ! جاگ اٹھا ہے سارا وطن خالد عباس ڈارنے کہا : ’’ یہ جو اِس تقریب میں گفتگوہو رہی ہے ،فنکاروں ،شاعروں اور ادیبوں کے لیے ایسی باتیں عموماََ بعد از مرگ یا عرس پر ہوا کرتی ہیں۔دلی مسرت ہوئی کہ شوکت علی اپنی موجودگی میں سب دوستوں کی محبتیں سمیٹ رہے ہیں۔اتنے لوگ کسی فنکار کے لیے پہلے اکٹھے نہیں دیکھے گئے‘‘ خاور نعیم ہاشمی نے کہا : ’’ شوکت علی میرے والد نعیم ہاشمی کی دریافت ہیں‘‘۔ اداکار حبیب نے ’’کہا شوکت علی پنجاب کا دوسرا نام ہے۔ انہیں ستارہ امتیاز بھی ملنا چاہئے۔ بہت سے احباب نے شوکت علی کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ پلاک کے خالد محمودقاضی اور ڈاکٹر صغراصدف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے رمضان کے مہینے میں ایسے شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ شوکت علی نہیں جانتے کہ درویشوں اور صوفیاء کے تکیوں پر انہیں کس محبت سے سنا اور یاد کیا جاتا ہے ۔ اللہ انہیں مزید کامرانیوں اور برکتوں سے نوازے۔ آمین۔ نہ جانے مجھے آسکروائلڈ کیوں یاد آرہا ہے ،جس نے لکھا ہے : ’’ دوست کی ناکامی پر مغموم ہونا اتنا دشوار نہیں، جتنا اس کی کامیابی پرمسرور ہونا ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved