گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں سات جانباز سپاہیوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت ایسا زخم نہیں کہ جسے بھلا دیا جائے۔ اب امن کا گیت چھوڑ کر دشمن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہی ہو گا۔ آئے روز بلوچستان اور وزیرستان سے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے لاشے اٹھانے سے قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر قوم اور سکیورٹی فورسز کا مورال بلند رکھنا ہے تو پھر دفاعِ وطن کی خاطر شہید ہونے والوں کی تدفین سے پہلے ہی دشمن کو اس سے دوگنا جواب دینے کی رِیت اپنانا ہو گی۔ بہت ہو چکا! اب ہمیں کسی مصلحت کی ضرورت نہیں، امن کی بھاشا اور آشا کی آڑ میں دیا جانے والا زہر ہمیں قبول نہیں، آئے روز ہمارے محافظوں کا بہایا جانے والا خون ہم سے انتقام کا سوال کرتا ہے ۔
جب بھی دشمن کے مذموم ہتھکنڈے آشکار کرتے ہوئے اسے منہ توڑ جواب دینے کی بات کی جاتی ہے‘ موم بتی گروپ کچھ سیاسی کرداروں کے ہمراہ ناک بھوں چڑھاتے ہوئے میدان میں اتر آتا ہے۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر نئے کور کمانڈر پشاو ر سے متعلق ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے جسے براہِ راست ایک سیاسی جماعت کی جانب سے لیڈ کیا جا رہا ہے۔ تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے، یہ ماضی کے ان واقعات کو بھی سامنے لا کھڑا کرتی ہے جو ذہن سے محو ہو چکے ہوتے ہیں۔ منفی مہم چلانے والوں کو کبھی اُن شہدا کے گھروں میں بھیجیں‘ انہیں جوان سہاگنوں اور یتیم ہو جانے والے بچوں سے ملوائیں، انہیں بوڑھے ماں باپ کی آنکھوں میں مدھم ہوتے امیدوں کے چراغ اوربہنوں کی اجڑی ہوئی گودیں دکھائیں‘ان کوملک و قوم کے وجود پر لگنے والے وہ زخم دکھائیں جو دھرتی کے ان سپوتوں کی شہادت کے باعث مسلسل رس رہے ہیں۔یہ سب دکھانے کے بعد ان سے پوچھیں کہ بتائو آلو گوشت کون کھاتا ہے؟ بھارت اور پاکستان کی سرحدوں کو ایک لکیر کہنے والوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا تمہیں دکھ نہیں ہوتا؟ آئے روز شہید ہونے والے پاکستان کے مجاہدوں کے جوان لاشے دیکھ کر تمہارا خون نہیں کھولتا؟ تمہیں اپنے وطن کے دفاع کی خاطر جان قربان کرنے والوں کا بہتا ہوا لہو ان کی شہادت کا بدلہ لینے پر نہیں اکساتا؟کیا ستم ظریفی ہے کہ انہیں کشمیر میں جاری آپریشن اور کرفیو نہیں نظر آتا، انہیں آسام میں مسلمانوں کی لاشوں پر رقص کرنے والے انتہا پسند بھارتی نہیں نظر آتے، انہیں بھارت بھر میں مسلمانوں کی شہریت پر اٹھائے جانے والے اعتراضات ان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں مگر آزاد کشمیر میں کھڑے ہو کر یہ سکیورٹی فورسز کے خلاف بیان بازی سے نہیں چوکتے۔ انہیں واجپائی اور اس کے پیروکاروں کا غم ستاتا اور سیا چن آپریشن پر خفت ہوتی ہے مگر مناواں پولیس اکیڈیمی اور ایف آئی اے دفتر، مہران بیس کراچی اور کراچی شپ یارڈ سمیت کامرہ ایئر بیس پر ہونے والے حملے یاد نہیں آتے۔ وطن عزیز کے وجود پر لگنے والے زخموں کا ان کو دکھ کیوں نہیں ہوتا؟ کبھی انہوں نے کھل کر ان حملوں کی مذمت کیوں نہیں کی؟ یہ تو آج تک کلبھوشن کا نام بھی اپنے لبوں پر نہیں لا سکے۔ کیا انہیں نہیں علم کہ ان سارے واقعات کے پیچھے کون ہے؟ کبھی تو کہہ دیجئے کہ مودی اور بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے یہ حملے کرائے۔ کیا انہیں بس یہی بیان دینا آتا ہے کہ ممبئی حملوں کیلئے دہشت گرد یہاں سے گئے تھے؟
طالبان رہنما انس حقانی نے افغانستان کے صوبے غزنی میں سلطان محمود غزنوی کی قبر پر حاضری دیتے ہوئے وہاں فاتحہ خوانی کی تو یک دم بھارت کی دم پر ایسا پیر آیا کہ اس کا سارا میڈیا بلبلا اٹھا۔ ان کا رونا پیٹنا تو بنتا تھا لیکن اس حاضری پر ہمارے یہاں کیوں ناگواری محسوس کی گئی؟ ہمارے یہاں پر لوگ کیوں اس پر تلملانا شروع ہو گئے؟طالبان رہنما نے سومنات پر بار بار حملہ کرنے والے سلطان محمود غزنوی کی قبر پر فاتحہ خوانی کی تصاویر ابھی شیئر کی تھیں کہ بھارت کے ہندوتوا میڈیا نے کئی برس قبل واجپائی کی غزنی میں کی جانے والی وہ تقریر بار بار نشر کرنا شروع کر دی جس میں وہ اپنے ہم وطنوں کو بہت دکھ کے ساتھ بتا رہے تھے کہ میں غزنی میں موجود ہوں اور مجھے صدیوں پرانا دکھ آج بھی نہیں بھولا۔ غزنی کو یاد کر کے بھارتیوں کو احساس ہوتا ہے کہ ہماری روحوں کو دکھ اور تکلیف دینے والے کون ہیں؟ کیا واجپائی کی طرح ہم اپنے زخمیوں، اپنے شہدا کو دیکھ کر یہ احساس نہیں اجاگر کر سکتے کہ ہماری روحوں کو دکھ اور کرب پہنچانے والے کون ہیں؟
پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کی مذمت کرتے ہوئے لاہور کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں کھڑے ہو کر بین الاقوامی میڈیا کے سامنے اس وقت کے ہمارے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا تھا کہ مشرف نے کارگل کے ذریعے اُس واجپائی کی کمر میں خنجر گھونپا تھا جو خود چل کر لاہور آیا تھا۔موصوف کا کہنا تھا کہ سرحد کیا ہے، صرف ایک لکیر ہے، وہی آلو گوشت جو ہم کھاتے ہیں، بھارتی بھی وہی کھاتے ہیں، ہم دونوں کی تہذیب و ثقافت ایک ہی جیسی ہے۔ شاید وہ جوشِ خطابت میں بیان دیتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ بقول قائداعظم‘ پاکستان اسی وقت معرضِ وجود میں آ گیا تھا جب برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ دو قومی نظریہ ایک ٹھوس حقیقت ہے یہ ایسے چند بیانات کی دھول میں چھپ نہیں سکتا۔
آپریشن راہِ حق، ضربِ عضب کے بعد ردّ الفساد پاک فوج کے جری اور بہادر جانبازوں کی شہا دتوں کی انمٹ اور نا قابلِ فراموش داستانیں رقم کرتے ہوئے ایک ایک کر کے آخری وطن دشمن کو جہنم واصل کرنے کیلئے اپنی منزل کی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آرمی چیف بار بار اس عزم کا اعادہ کر رہے ہیں کہ آخری دہشت گرد کے آخری ٹھکانے کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔ عوام کی بھر پور حمایت عسکری اداروں کی پشت پر موجود ہے۔ یہاں بھی اگر ماضی قریب کا جائزہ لیا جائے تو یاد پڑتا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب سے قبل مذاکرات کا ایک ایسا کھیل کھیلا گیا تھا جس سے سوائے بربادی اور تباہی کے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا بلکہ چھ ماہ تک مذاکرات کے ڈراموں کی آڑ میں آپریشن کو التوا کا شکار کیا جاتا رہا۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بعد میں یہ خود ہی شور مچانے لگے کہ وزیرستان آپریشن کا آغاز کرنے میں تاخیر کی گئی۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے اپنے مضمون میں تحریک طالبان پاکستان کے ان لوگوں کو‘ جو ہتھیار پھینک کر پاکستان سے وفا داری کا حلف اٹھائیں گے‘ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عام معافی دینے کے اعلان پر جن تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ انتہائی توجہ کے متقاضی ہیں اور امید ہے کہ ٹی ٹی پی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے مذکورہ تمام نکات کو سامنے رکھا جائے گا۔ تین اکتوبر کو میں نے ''مذاکرات اور امن کے امکانات‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے سے متعلق جن خدشات اور واقعات کا حوالہ دیا تھا‘ جنرل (ر) طارق نے انہی کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے کچھ مشاہدات بیا ن کئے ہیں۔وہ بھی جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی تو محض ایک کٹھ پتلی ہے جس کا گاڈ فادر بھارت اور اس کی ایجنسی را ہے۔ کیا تحریک طالبان اپنے گاڈ فادرزکے مقابلے پر کھڑی ہو گی؟ ماضی میں ٹی ٹی پی اورا س کے مختلف گروپوں کے ریاست سے کیے گئے معاہدوں اور ان کے انجام کے کچھ حوالے بھی انہوں نے دیے ہیں ۔ایسا ہی ایک کردار کمانڈر گل بہادر تھا جس نے اجیت دوول کے ساتھ مل کر قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں خاصی تباہی مچا رکھی تھی۔ بالآخر یہ اس وقت اپنے انجام کو پہنچا جب دتہ خیل اور خیبر ایجنسی میں آپریشن کرتے ہوئے پاکستان ایئر فورس نے 48 دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے علا وہ ان کے کمانڈر کے گھر پر بمباری کرتے ہوئے اسے بھی ملیا میٹ کر دیا کیونکہ گل بہادر نے 2006ء میں سول حکومت کے ساتھ کیے جانے والے امن معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی تھی۔