ملک کے اہم ترین انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کو تبدیل کر کے نئے چیف کا اعلان ہوا تو اسے معمول کی کارروائی سمجھا گیا لیکن پھر مقتدر حلقوں تک رسائی رکھنے والوں نے سرگوشیوں میں اختلافات کی بات شروع کی اور نئے ڈی جی کے تقرر کا نوٹیفکیشن روکے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ یہ سرگوشیاں سوشل میڈیا پر افواہوں کے روپ میں اُبھریں۔ سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم ہوتا رہا اور حکومت کے چند اہم وزیر مبینہ طور پر ''فائرفائٹنگ‘‘ کی کوشش کرتے رہے۔ ایک معمولی مسئلے پر ابھرنے والا اختلاف بالآخر ایک ہفتے میں اتنا بڑھا کہ حکومتی ترجمان کو اعتراف کرنا ہی پڑا۔
6 اکتوبر کو تقرر و تبادلوں کا اعلان ہوا، 4 دن افواہیں چلتی رہیں، 10 اکتوبر کو وزیر اعظم نے عشرہ رحمت للعالمینﷺ کی مرکزی تقریب سے خطاب کیا اور ان کا ایک جملہ اس دن کی بڑی خبر سمجھا گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں خالدؓ بن ولید سے بڑا شاید ہی کوئی جنرل آیا ہو‘ وہ کبھی جنگ نہیں ہارے تھے‘ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے بھی کہا کہ آپ چھوڑ دیں وہ کسی اور کو کمان دے دیتے ہیں۔ ان کے اس جملے کا سیاق و سباق کیا تھا؟ اس پر کسی نے غور کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ سوشل میڈیا پر چلتی افواہوں کے تناظر میں اس کے معانی اخذ کیے جانے لگے۔ اندازے لگائے جانے لگے۔
2 دن کی خاموشی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کو کیمروں کے سامنے آ کر ان افواہوں پر بات کرنا پڑی۔ انہوں نے میڈیا کو تفصیل سے بتایا کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی طویل نشست ہوئی، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے قریبی تعلقات ہیں، کبھی بھی وزیر اعظم آفس ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے فوج یا سپہ سالار کی عزت میں کمی ہو اور نہ فوج ایسا قدم اٹھائے گی جس سے وزیر اعظم یا سول سیٹ اپ کی عزت میں کمی آئے۔ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کیلئے قانونی طریقہ کار اپنایا جائے گا، نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے لیے تمام آئینی اور قانونی تقاضے پورے کئے جائیں گے۔
فواد چودھری کے اس بیان کے بعد مختلف شخصیات کی طرف سے مزید کئی وضاحت نما بیانات آئے، پھر وزیر اعظم ہاؤس سے بھی قریبی رابطے میں رہنے والے صحافیوں کو ذرائع کے نام پر ٹکرز فیڈ کئے گئے کہ وزیر اعظم نے کابینہ ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میرا اختیار ہے، افغانستان کے حالات کا تقاضا ہے کہ مزید 6 ماہ اس عہدے پر کوئی تبدیلی نہ کی جائے‘ فوج کی عزت ہے تو وزیر اعظم ہاؤس کی بھی عزت ہے، میں منتخب وزیر اعظم ہوں مجھے کسی نے مسلط نہیں کیا، قانون کے مطابق 3 ناموں کی سمری بھیجیں اس پر فیصلہ کروں گا، یہ تاثر غلط ہے کہ میں کٹھ پتلی وزیر اعظم ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ان فیڈ کئے گئے ٹکرز میں وزیر اعظم کا پسندیدہ جملہ بھی جوڑا گیا کہ اگر میں نہیں گھبرا رہا تو آپ بھی نہ گھبرائیں۔ یہ تاکید کابینہ ارکان کے لیے تھی۔ اس کے پیچھے کیا سوچ تھی‘شاید کوئی نہیں جانتا۔
وزیر اعظم ہاؤس سے فیڈ ہونے والے ٹکرز اگرچہ صورت حال کو ڈی فیوز کرنے کی غرض سے تیار کئے گئے لیکن ان ٹکرز سے حکومت کا بھلا ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ یہ مشورہ دینے والوں نے محاذ آرائی کی کیفیت بنا دی ہے۔ جہاں تک وزیر اطلاعات کی پریس بریفنگ کا تعلق ہے تو انہوں نے بھی بالکل وہی مؤقف رکھا جو پی ایم بیٹ رپورٹرز کے ذریعے سامنے آیا، فرق صرف یہ ہے کہ وزیر اطلاعات کا رویہ اور الفاظ کا چناؤ محتاط تھا۔ انہوں نے نپے تلے الفاظ میں بات کی۔
تبدیلی حکومت کا دراصل ایک المیہ ہے، جس کا اب اسے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس حکومت نے روز اول سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اعلیٰ عسکری قیادت اور حکومت کے تعلقات گرم جوش اور موقف ہر معاملے پر یکساں ہے، اس کے لیے ایک پیج کا لفظ بار بار استعمال کیا گیا۔ موجودہ صورت حال میں ایک پیج کی رٹ لگانے والے قوم کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ایک عہدے پر معمول کے تبادلے سے کیا آسمان ٹوٹ پڑا؟ جس انداز سے اس معاملے کو ہینڈل کیا جا رہا ہے وہ نیک شگون نہیں، معمولی مسئلے کا پہاڑ بنانا حکومتوں پر بھاری پڑتا ہے۔
ایک پیج کا تاثر دینے والے 3 سال تک کامیابی سے اپنا ایجنڈا چلاتے رہے۔ ان کی ہر نا اہلی اور بری گورننس کا ملبہ بھی ایک پیج پر گرتا رہا۔ ایک پیج کی وجہ سے اپوزیشن بھی قابو میں رہی۔ ایک پیج نے ہر کمزوری کو چھپائے رکھا۔ اب ایک پیج نہ ہونے کا راز کھلا ہے توگھبراہٹ طاری ہو رہی ہے۔ اسی گھبراہٹ میں تحریک انصاف کے حامی سول بالا دستی کا نکتہ زیر بحث لائے، یہ نکتہ اٹھانے والے بھی حکومت کے خیر خواہ نہیں، اس ہلا شیری کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس کا جواب ہماری سیاسی تاریخ میں پوشیدہ ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ یہ اختلاف کسی بھی طرح سول بالا دستی کا سوال نہیں ہے۔ کسی بھی عہدے پر اپنی پسند کی شخصیت کو برقرار رکھنے کی ضد کو سول بالا دستی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ایسا تاثر دینے والے جان بوجھ کر یا ان جانے میں ادارہ جاتی تصادم کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ''ایک پیج‘‘ کی رٹ لگانے والوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے اہم فیصلوں میں قومی ادارے کے دخول کا تاثر خود پختہ کیا، عساکر کی طرف سے اس تاثر کو یکسر رد کرنے کی با ضابطہ اور واضح کوشش نہیں کی گئی اور یہ تاثر زور پکڑتا چلا گیا۔اب اگر کسی نے سول بالا دستی کا غیر ضروری شور مچانے کی کوشش کی تو شاید خاموشی برقرار نہ رہے اور دوسری طرف کا مؤقف بھی سامنے آ جائے اور سول بالا دستی کا شور مچانے والے شاید کہیں کے نہ رہیں۔ محتاط رہنا ہی بہتر ہے۔
سول بالا دستی دراصل ایک نظریہ اور اصول ہے جو جمہوریت کے تصور کے ساتھ دنیا میں پختہ ہوا۔ سب سے پہلے تو ہمیں ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ پر توجہ دینا ہو گی۔ حقیقی جمہوریت ہی سول بالا دستی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ جب حکومت بنانے اور چلانے کے لیے سہارے کی ضرورت ہو تو ''ایک پیج‘‘ کے نعرے لگائے جائیں اور جب معاملہ پسند اور نا پسند کا آ جائے تو اس کے لیے سول بالا دستی کو بیساکھی بنا لیا جائے۔حقیقی جمہوریت کے سارے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔
اس اختلاف کی بنا پر کسی بھی اہم کھلاڑی کا کردار فوری پر طور خطرے میں نظر نہیں آتا لیکن ''ایک پیج‘‘ کا تاثر ختم ہونے کے بعد اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی اقدامات کے مخالف سماجی عناصر کو حوصلہ ضرور ملے گا۔ حکومتی اتحاد کے اندر مارے باندھے لوگ بھی نئی صورتحال کے مطابق فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے کیونکہ مسلسل بیڈ گورننس کے باوجود 3 سال پورے کرنے والوں نے ایک اہم سپورٹ کھو دی ہے۔ اب حکومت مخالف تحریک کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے، اور دھرنا سیاست کرنے والوں کو نئے دھرنوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ احتیاط کا دامن نہ تھاما گیا تو حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ معاملات کا اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔ ان حالات میں اگر تحریک انصاف کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا تو اس کا بیانیہ بھی ''سیاسی شہید‘‘ کا ہی ہو گا؟