تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-10-2021

ذرا پاگل خانے تک

پاگل خانے میں ایک شخص زیر علاج تھا۔ کوئی چھ ماہ کے بعد اس کی صحت کا اندازہ لگانے کیلئے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بیٹھا جو اس سے سوالات کرتا رہا، جن کے اس نے بالکل صحیح جواب دیے۔ پھر انہوں نے اس سے پوچھا کہ یہاں سے نکل کر تم کیا کرو گے تو اس نے جواب دیا کہ میں سارے پاگلوں سے الوداعی ملاقات کروں گا، اور ان سے کہا سنا معاف کرائوں گا اور جانے سے پہلے ان ساری کھڑکیوں کے شیشے توڑ دوں گا، جس پر اس کا انٹرویو ختم ہو گیا۔ کوئی چھ ماہ کے بعد پھر بورڈ بیٹھا جن کے سوالات کے وہ ٹھیک ٹھاک جواب دیتا رہا۔ آخر پر انہوں نے پوچھا کہ پاگل خانے سے نکل کر تم کیا کرو گے تو اس نے جواب دیا کہ میں سب سے پہلے اپنے بھائیوں سے حساب کتاب کروں گا جنہوں نے میری دکانوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پھر میں چار سوٹ سلوائوں گا اور ایک زیر جامہ خریدوں گا۔ انہوں نے پوچھا کہ صرف ایک زیر جامہ کس لیے؟ تو اس نے کہا کہ میں اس کا الاسٹک نکالوں گا‘ اس کی غلیل بنائوں گا اور آ کر ان ساری کھڑکیوں کے شیشے توڑ دوں گا۔
ایک صحافی کسی کام سے پاگل خانے آیا۔ اس نے دیکھا کہ لان میں بہت سے پاگل 'پھٹ پھٹ پھٹاہ پھٹاہ‘ کرتے ہوئے اور موٹرسائیکل چلانے کا ایکشن بناتے ہوئے ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگ رہے تھے جبکہ ایک شخص لان کے کنارے چپ چاپ کھڑا تھا جس سے صحافی نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ آدھی چھٹی کا وقفہ ہے‘ یہ موج مستی کررہے ہیں۔ صحافی وہاں سے فارغ ہو کر واپس جانے لگا تو وہ شخص وہیں کھڑا تھا‘ اس نے صحافی سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی سواری نہیں ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ اتنی گرمی اور دھوپ میں تم پیدل جائو گے؟ جس پر صحافی نے کہا کہ کوئی بات نہیں، میرا دفتر زیادہ دور نہیں ہے۔ اس پر وہ شخص بولا: نہیں! میں تمہیں ایسے نہیں جانے دوں گا، آئو میرے پیچھے بیٹھو، پھٹ پھٹ پھٹاہ پھٹ ...
ایک سرکاری افسر پاگل خانے کے دورے پر تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک پاگل اپنے کمرے میں آہ و بکا کر رہا ہے اور بار بار دیوار سے سر ٹکرا رہا ہے۔ افسر نے اس کی و جہ پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ اسے ایک لڑکی سے محبت تھی جس سے اس کی شادی نہیں ہو سکی تھی تو یہ اس کے غم میں ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے اور سارا دن یہی کچھ کرتا رہتا ہے۔ وہ آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ ایک اور پاگل بری طرح چیخ چلا اور رو رہا تھا۔ افسر نے اس کی وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ اُس لڑکی سے اس کی شادی ہو گئی تھی!
ایک شخص گاڑی پر کہیں جا رہا تھا کہ پاگل خانے کے سامنے اس کی گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہو گیا۔ وہ نیچے اترا، ٹائر اتارااور سٹپنی چڑھائی۔ جب وہ نٹ کسنے لگا تو اس نے دیکھا کہ نٹ بولٹ وہاں سے غائب ہیں جو غالباً پاس کھیلتے ہوئے کوئی بچہ اٹھا کر لے گیا تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اب کیا کرے، اتنے میں پاگل خانے کی دیوار پر بیٹھے ایک پاگل نے کہا کہ باقی ٹائروں سے ایک ایک نٹ بولٹ نکالو اور وہ لگا کر آرام آرام سے گاڑی چلاتے ہوئے ورکشاپ لے جائو۔ اُس نے حیران ہو کر اوپر دیکھا اور بولا: کیا تم پاگل ہو؟ وہ پاگل بولا: میں پاگل ہوں، بیوقوف نہیں۔
برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل ایک بار شہر کے پاگل خانے کے دورے پر تھے کہ اس دوران انہوں نے ایک پاگل سے پوچھا: کیا نام ہے آپ کا؟ جس پر وہ پاگل بولا: پہلے آپ بتائیے کہ آپ کون ہیں؟ میں برطانیہ کا وزیراعظم ہوں، چرچل نے جواب دیا۔ میں جب یہاں آیا تھا تو میں نے بھی لوگوں کو یہی بتاتا تھا! پاگل نے جواب دیا۔
ایک پاگل دیوار میں کیل ٹھونک رہا تھا لیکن کیل اس نے الٹا پکڑ رکھا تھا اور وہ دیوار میں ٹھک نہیں رہا تھا جس پر دوسرے پاگل نے کہا: بیوقوف! یہ اس دیوار کا کیل ہی نہیں ہے، اور یہ کہہ کر وہ کیل سامنے والی دیوار پر لے گیا اور وہاں سیدھا کیل رکھ کر بولا: یہ اس دیوار کا کیل تھا، آئو اور اسے ٹھونک لو!
سرِ شام
یہ عارفہ ثمین طارق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے: محبت کے نام، اور ان لوگوں کے نام جو میرے لیے محبت کا وجود ہیں۔ طارق کے نام جو میرا مان ہے۔ تیمور، رمشا اور فارعہ کے نام جو میری جان ہیں اور حاشر کے نام جو میری کُل کائنات ہے۔ پسِ سرورق شاعرہ کی تصویر اور کتاب کی تحسین کے حوالے سے ڈاکٹر تحسین فراقی کے چار شعر ہیں۔
اندرونِ سرورق ڈاکٹر ضیاء الحسن اور ڈاکٹر نجیبہ عارف کی رائے درج ہے۔ دیباچہ انور مسعود کے قلم سے ہے اور پیش لفظ شاعرہ کا قلمی ۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن کے مطابق ''روایت، تجربے اور الگ نسائی اظہار سے انہوں نے اپنے لیے ایک نیا اسلوب وضع کیا ہے۔ اگرچہ ان کا پہلا مجموعۂ کلام دیر سے اشاعت پذیر ہو رہا ہے لیکن اس کی اشاعت سے ان کے تخلیقی وجود سے کئی بند دروازے کھلنے کے امکانات نمایاں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی قدر تِ شعر کو ضائع نہیں ہونے دیں گی اور آنے والے دنوں میں اردو شاعری کی دنیا میں ایک نئے اور مختلف شاعر کا اضافہ ہوگا‘‘۔ نمونۂ کلام
میں موج تھی وہ ساحل، مشکل تھا سنبھلنا بھی
ملنا بھی مقدر تھا، اور مل کے بچھڑنا بھی
ہے یاد مجھے ان کا بے گانہ بنے رہنا
اور میرے ہی رستوں سے ہر بار گزرنا بھی
باتونی ہم سفر
ویسے آپ کہاں تک جا رہے ہیں؟
جہنم تک!
ان دنوں سبھی کو جہنم کا سفر در پیش ہے
یعنی تمام راستوں کی منزل ایک ہے
اور طلب و رسد کی سماجیات کبھی نہیں بدلتی
لہٰذا سفر کا کرایہ بڑھا دیا گیا ہے
کہیں دو گنا، کہیں تین گنا
کہیں اور بھی زیادہ
یہ منحصر ہے راستوں کی طوالت، سہولیات کی فراہمی
اور صارفین کے رجحان و قوتِ خرید پر
مہنگائی کا گراف تقریباً عمودی نکل پڑا ہے
موسم سارے ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو گئے ہیں
برف اور آگ دونوں کی کھپت بڑھ گئی ہے
اور دونوں تقریباً بے تاثیر ہو گئے ہیں
نفوس سارے بے حال ہیں
پہلے وبا کے دن ہوا کرتے تھے،اب وبا کے سال ہیں
چلئے، اُٹھئے
ساری چھ سمتوں کے دروازے کھل گئے ہیں
جہنم آیا چاہتی ہے
آج کا مطلع
لفظ پتوں کی طرح اڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved