دنیا بھر کے درختوں سے قلم بنا دیے جائیں، سمندروں اور دریاؤں کے پانیوں کو روشنائی میں تبدیل کر دیا جائے اور بنی نوعِ انسان کے ساتھ جنّات بھی مل جائیں اور سب مل کر مصطفی کریمﷺ کے حسن و جمال کی عظمتوں اور تابانیوں کو احاطۂ تحریر میں لاناچاہیں، تو قلم فنا ہو جائیں، روشنائیاں ختم ہو جائیں اور خود لکھنے والے بھی لکھتے لکھتے راہیِ ملکِ عدم ہو جائیں مگر یہ ممکن نہیں کہ مصطفی کریمﷺ کے جمالِ بے مثال اور آپﷺ کی سیرت و صورت کے کمالِ حُسن کا حق ادا ہو سکے۔ نہ کسی قلم میں اتنی سکت ہے کہ آپﷺ کے حسن و جمال کا احاطہ کر سکے اور نہ کسی زبان میں یہ فصاحت وبلاغت کہ آپﷺ کے جمال کو بیان کرنے کا حق ادا کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمﷺ کے ظاہر و باطن کو وہ عظمتیں اور وسعتیں عطا کی ہیں کہ کسی بشر کے لیے ان کی حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔ جس طرح آپﷺ کا حسنِ سیرت سراپا معجزہ ہے، اسی طرح آپﷺ کا پیکرِ ذات اور حسن و جمال بھی ایک معجزہ ہے۔ حسن کی تمام ادائیں آپﷺ کی ذات میں جمع ہیں اور جہاں کہیں بھی حسن و کمال پایا جاتا ہے، وہ ذاتِ پاک مصطفوی کا فیضان ہے، جان محمد قدسی نے کہا ہے:
گل از رخت آموختہ نازک بدنی را
بلبل زتو آموختہ شیریں سخنی را
ہر کس کہ لبِ لعل ترا دیدہ بہ دل گفت
حقا کہ چہ خوش کندہ عقیقِ یمنی را
ترجمہ: ''خوبصورت اور خوشبودار پھولوں نے نزاکت آپﷺ کے رُخِ انور سے سیکھی اور بلبلوں کے نغموں کی مٹھاس آپﷺ کی گفتار کا صدقہ ہے، جس نے بھی آپﷺ کے سرخ ہونٹوں کو دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھا: خالق نے عقیقِ یمنی کو کتنی خوبصورتی سے تراشا ہے‘‘۔
مصطفی کریمﷺ کے حسنِ پاک کا مشاہدہ کرنے والے خوش نصیب صحابہ کرامؓ کبھی اس حسن کو آفتاب سے تشبیہ دیتے اورکبھی ماہتاب سے، جب کوئی بھی چیز آپﷺ کے حسن وجمال کے مشابہ نہ ملی تو حضرت حسانؓ بے اختیار پکار اٹھے:
وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآئُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآئُ
ترجمہ:''یا رسول اللہﷺ! آپ سے زیادہ حسین کبھی کسی آنکھ نے دیکھا نہیں اور آپ سے زیادہ جمیل کبھی کسی ماں نے جنا نہیں، خالق نے آپ کو ہر عیب سے پاک کر کے پیدا کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ خالق نے آپ کو ویسا ہی بنایا ہے، جیسا آپ نے چاہا‘‘۔
بڑے بڑے عُشَّاق نے اس میدان میں اپنی قادر الکلامی اور فصاحت وبلاغت کے جوہر دکھائے ہیں، مگر خامہ فرسائی کے بعد بالآخر سب کو اپنے عَجز کا اعتراف کرنا پڑا، شمس الدین شیرازی نے تاجدارِ کائنات کے حسن و جمال کو بیان کرنے میں زبان وبیان کی بے مائیگی کا اظہار ان اشعار میں کیا:
یَاصَاحِبَ الْجَمَالِ وَیَا سَیِّدَ الْبَشَر
مِنْ وَّجْھِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَر
لَایُمْکِنُ الثَّنَآئُ کَمَا کَانَ حَقُّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی، قصہ مختصر
ترجمہ: ''اے صاحبِ جمال اور اے عالَمِ بشریت کے سردار، آپﷺ کے روشن کرنے والے رُخِ انور سے چاند کو روشنی عطا کی گئی ہے، آپ کی تعریف وتوصیف کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے، مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے: اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد مخلوق میں سب سے اعلیٰ واَولیٰ آپ ہی کی ذات ہے‘‘۔
مولانا عبدالرحمن جامی نے کہا:
حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
ترجمہ:''یوسف علیہ السلام کا حُسن، عیسیٰ علیہ السلام کی مسیحائی اور موسیٰ علیہ السلام کا یِد بیضا، الغرض جو خوبیاں اور کمالات تمام انبیائے کرام علیہم السلام میں متفرق طور پر تھیں، یا رسول اللہﷺ! آپ کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام خوبیوں کو بطریقِ کمال جمع فرما دیا‘‘۔
اپنی سخن وری اور اندازِ بیان پر نازاں مرزا غالبؔ اس میدان میں آئے تو اُنہوں نے اپنے عجز کا یوں اعتراف کیا:
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
ترجمہ:''غالب خود سے مخاطِب ہو کر کہتا ہے: رسول اللہﷺ کی تعریف و توصیف میں نے اللہ پر چھوڑ دی، کیونکہ وہی ایک ذاتِ پاک ہے جو محمد رسول اللہﷺ کے مرتبے کو سب سے بہتر جانتی ہے‘‘، یعنی کسی کی شان کو بکمال و تمام وہی بیان کر سکتا ہے، جو اُس سے پوری طرح آگاہ ہو۔
غزالیِ زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی فرمایا کرتے تھے: جب یہ بات مسلّم ہے کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں تو آپ کے حسنِ صورت، حسنِ سیرت، علمی و عملی اور ہمہ جہتی کمالات میں کسی بھی قسم کے نقص کا تصور وہ کر سکتا ہے، جس کا گمان ہو کہ (معاذ اللہ!) یا تو عطا کرنے والے میں کوئی کمی ہے یا لینے والے میں قبولیت کی استعداد میں کوئی کمی رہ گئی ہو، لیکن جب عطا کرنے والی ذات یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نعمتوں کی کوئی انتہا نہ ہو اور لینے والے یعنی رسول اللہﷺ کی استعداد بھی درجۂ کمال کی ہو تو نَقص کا شائبہ کیسے ہو سکتا ہے؟ چنانچہ امام احمد رضا قادری نے فرمایا:
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نَقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
اہلِ علم فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ آپ کے حسن و جمال پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ محدثین اور سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں آپﷺ کے باطنی خصائل و خصائص کے ساتھ ساتھ آپ کے ظاہری حسن و جمال کو بھی موضوعِ سخن بنایا ہے، جمالِ مصطفوی کی تابانیوں اور ضو فشانیوں سے منور ہونے والے خوش نصیب صحابہ کرامؓ اپنے محبوب کے رُخِ انور کے حسن وجمال کا والہانہ انداز میں تذکرہ کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے چند احادیث پیشِ خدمت ہیں:
(1) ''حضرت براءؓ بن عازب بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ حسن و جمال میں سب سے بڑھ کر تھے اور اپنے اخلاق و کردار میں بھی سب پر فائق تھے‘‘ (صحیح بخاری: 3549)، (2) ''حضرت براءؓ بن عازب سے پوچھا گیا کہ رسول اللہﷺ کا چہرۂ انور شمشیر کی مانند تھا، فرمایا: نہیں! بلکہ چاند کی طرح حسین و جمیل تھا‘‘ (صحیح بخاری: 3552)۔ شمشیر کی تشبیہ میں گولائی مفقود ہے، اس لیے اُنہوں نے چاند سے تشبیہ دی کہ چاند میں چمک دمک بھی ہے اور گولائی بھی۔ (3) ''حضرت جابرؓ بن سَمُرَہ سے یہی سوال ہوا تو فرمایا: نہیں! بلکہ آپ کا رُخِ انور سورج اور چاند کی طرح روشن، چمکدار اور گولائی لیے ہوئے تھا‘‘ (صحیح مسلم: 2344)، (4) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے نبیﷺ سے بڑھ کر حسین و جمیل کسی اور کو نہیں پایا، یوں معلوم ہوتا کہ آپﷺ کے رُخِ انور میں سورج رواں دواں ہو‘‘ (سنن ترمذی: 3648)۔ (5) ''حضرت جابرؓ بن سمرہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ چاندنی رات میں مجھے نبی کریمﷺ کی زیارت کا موقع ملا، آپﷺ نے ایک سرخ پوشاک زیب تن کر رکھی تھی، میں کبھی آپﷺ کے رُخِ انور پر نظر ڈالتا اور کبھی چاند کی طرف دیکھتا، کافی دیر یہی سلسلہ جاری رہا اور بار بار تجزیے کے بعد بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ آپﷺ چودھویں کے چاند سے زیادہ دلربا اور حسین و جمیل ہیں‘‘ (سنن ترمذی: 2811)۔ علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ''چاند کا نور سورج کے نور سے مستعار ہے، اس لیے اس میں کمی زیادتی ہوتی رہتی ہے، حتیٰ کہ کبھی تو بالکل بے نور ہو جاتا ہے، جبکہ حضورِ انورﷺ کے رُخِ مبارک کا نور دن رات میں کسی وقت جدا نہیں ہوتا، کیونکہ چاند کے برعکس یہ آپﷺ کا ذاتی وصف ہے‘‘۔ (جمع الوسائل، ج:1، ص: 56)۔ امام احمد رضا قادری فرماتے ہیں:
برقِ انگشتِ نبی چمکی تھی اُس پر ایک بار
آج تک ہے، سینۂ مَہ میں نشانِ سوختہ
ترجمہ: ''شق القمر کے معجزے کے موقع پر ایک بار رسول اللہﷺ کی انگشتِ مبارک چاند کی جانب اٹھی تھی، آج تک چاند کے سینے میں اس کا نشان موجود ہے‘‘۔ امام احمد رضا قادری نے اپنے اس شعر میں نبی کریمﷺ کے رُخِ زیبا کے بجائے آپ کی انگشتِ مبارک کی رعنائی کو بھی چاند پر فوقیت دی ہے کہ جب چاند آپ کی انگشت کی تجلیات سامنے مغلوب ہو گیا تو چہرے کے حسن کا مقابلہ کیا کر سکتا ہے۔ ایک اور موقع پر آپ نے کہا:
رخِ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی
رہ گیا بوسہ دہ نقشِ کف پا ہو کر
ترجمہ: ''چاند نے جب آپﷺ کے رُخِ انور کی تجلی دیکھی تو گویا پائوں کے تلوے کی طرح پیکرِ عَجز بن کر اُسے بوسا دیا‘‘۔
(6) ''حضرت کعبؓ بن مالک بیان کرتے ہیں: جب نبیﷺ کسی بات پر خوش ہوتے تو آپ کے چہرہ انور سے نور کی شعاعیں پھوٹتی دکھائی دیتی تھیں، یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپﷺ کا چہرہ چاند کا ٹکڑا ہو‘‘ (صحیح بخاری: 3556)، (7) ''حضرت ابوعبیدہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت ربیعؓ بنت مُعوَّذ سے عرض کی: مجھے نبی کریمﷺ کا حلیۂ مبارکہ بتائیں، اُنہوں نے فرمایا: ''میرے بیٹے! اگر تو ان کی زیارت کرتا تو یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا: گویا طلوع ہوتے آفتاب کی زیارت کر رہا ہوں‘‘ (سنن دارمی: 61)، (8) ''حضرت امام حسنؓ نے اپنے ماموں حضرت ہندؓ بن ابی ہالہ سے عرض کی: مجھے نبیﷺ کا حلیہ مبارکہ بتائیں، فرمایا: نبیﷺ لوگوں کی نگاہوں میں بہت عظیم الشان دکھائی دیتے تھے اور آپﷺ کا چہرہ انور چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا‘‘ (شمائل ترمذی، ج: 1، ص: 22)، ( 9) ''حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں: نبی کریمﷺ سب سے بڑھ کر حسین اور خوش منظر تھے، جو بھی آپﷺ کے چہرہ انور کو دیکھتا تو آپﷺ کی توصیف و ثنا کرتا اور آپ کے چہرے کو چودھویں کے چاند کے ساتھ تشبیہ دیتا تھا اور آپﷺ کے رخِ انور پر پسینے کے قطرے یوں محسوس ہوتے تھے جیسے موتی ہوں‘‘ (دلائل النبوۃ للبیہقی، ج:1، ص: 300) ، (10) ''ابو اسحٰق ہمدانی کہتے ہیں: حج کے موقع پر میری ایک صحابیہ سے ملاقات ہوئی، میں نے کہا: مجھے نبی کریمﷺ کے بارے میں بتائیں، اُنہوں نے کہا: آپﷺ چودھویں کے چاند کی طرح حسین و جمیل تھے، میری نگاہوں نے ایسا حسین انسان نہ تو آپ سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ آپ کے بعد‘‘ (دلائل النبوۃ للبیہقی، ج:1، ص: 199)۔ (جاری)