دس سال پہلے لاہور میٹرو بسوں کے آپریشن اور مینٹی ننس کیلئے 368 روپے فی کلو میٹر کے حساب سے معاہدہ کیا گیا تھا۔ تین سال پہلے پنجاب میں تحریک انصاف کی بزدار حکومت آئی‘ جس کے متعلق ہر جگہ یہ تاثر پھیلایا گیا کہ شہباز شریف کے مقابلے میں اس کی کارکردگی کچھ بھی نہیں اور عوام اس سے تنگ ہیں‘ اسی بزدار حکومت نے دکھاوے سے دوربھاگتے ہوئے خاموشی سے یہ کمال کر دکھایا کہ اب میٹرو بسوں کا فی کلو میٹر معاہدہ 304 روپے میں کیا ہے۔ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں...
اندازہ کیجئے کہ 2012-13ء میں پنجاب کے ''بہترین‘‘ منتظم 64 بسوں کے آپریشن اور مرمت سمیت تمام اخراجات کا جو معاہدہ کرتے ہیں اس میں اور معاہدے کی مدت مکمل ہونے پر سردار عثمان بزدارکی حکومت جو معاہدہ کرتی ہے اس میں‘ 64 روپے کا فرق ہے۔ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے تحت میٹرو بس سروس چلانے کا منصوبہ اب غیر ملکی کمپنی سے لے کر مقامی کمپنی کو دے دیا گیا ہے۔ نئے معاہدے کے تحت حکومت کو میٹرو بس پر دی جانے والی سبسڈی میں دو ارب سے زیادہ کی بچت ہو گی جبکہ نئی بسیں ماحول دوست ہونے کے علاوہ پرانی بسوں کی نسبت زیادہ جدید اور آرام دہ ہوں گی۔ آٹھ‘ نو سال قبل کے حساب سے آج گاڑیوں کے پرزے، پٹرول، ڈیزل اورانجن آئل کی قیمتوں کے علاوہ ملازمین کے مشاہرے سمیت ہر چیز دو گنا تک مہنگی ہو چکی ہے‘ اس کے باوجود معاہدے کی لاگت بڑھنے کے بجائے کم ہوتی ہے۔ پنجاب حکومت کے اس معاہدے کے بعد گزشتہ معاہدے کی شفافیت کا بھرم عیاں ہو چکا ہے، اب کیسے مان لیا جائے کہ ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی گئی؟
خیر پختونخوا میں پرویز خٹک کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران جب تحریک انصاف کی جانب سے لاہور میٹرو بس منصوبے کی طرز پرپشاور میں BRT منصوبہ شروع کیا گیا تو چند ماہ بعد ہی نواز لیگ کے لیڈران سمیت ان کی پنجاب حکومت نے ایک ہی بات کی تکرار شروع کر دی کہ ان کا لاہورمیٹرو بس کا منصوبہ اتنی رقم میں مکمل ہوا ہے یا اس پروجیکٹ پراتنے روپے خرچ ہوئے جبکہ پشاور بی آر ٹی کو تحریک انصاف کی حکومت‘ جو ''صاف چلی شفاف چلی‘‘ کا نعرہ لگاتی ہے‘ لاہور میٹرسے کئی گنا زیا دہ بجٹ پرمکمل کر رہی ہے۔ نواز لیگ کا پورا کیمپ اُس وقت سے آج تک‘ یہی الزام دہرا رہا ہے کہ انہوں نے اتنی کم مدت میں ستائیس کلو میٹر طویل لاہورمیٹرو بس منصوبہ مکمل کر دیا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کی حکومت ان سے زیادہ اخراجات کر رہی ہے اور یہ منصوبہ جتنی مدت میں مکمل ہوا‘ اس میں لاہور جیسے کئی منصوبے بن جاتے۔ تحریک انصاف پر پشاورکی اس بی آر ٹی کے حوالے سے نواز لیگ جو تنقید یا حملے 6برسوں سے بھی زائد عرصے سے مسلسل کئے جا رہی تھی۔ اس کا سلسلہ پی پی پی سمیت مولانا فضل الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بھی جاری رہا اوریہی نہیں‘ جب پی ڈی ایم یا اپوزیشن کی کسی جماعت کا کے پی یا پشاور میں کوئی اجلاس یا جلسہ ہوتا یا کوئی چھوٹی سی ریلی بھی نکلتی تو اس میں بھی بی آر ٹی کا معاملہ ضرور اٹھایا جاتا بلکہ پی ٹی آئی مخالف دیگر فورمز کی جانب سے بھی بی آر ٹی پر حکومتی نااہلی کے الزامات کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے لیکن وہ باتیں اور وہ کہانیاں جو گزشتہ تیس‘ پینتیس برسوں سے کبھی پیپلز پارٹی کی جانب سے شائع کیے گئے ''پلنڈر آف پاکستان‘‘ میں کہی گئی تھیں یا اب نوجوان وزیر مرادسعیدکی جانب سے اٹھا ئی جا ہی ہیں‘ ان پر کوئی بات نہیں کر رہا۔
گزشتہ ایک دو ماہ سے ہائی وے اتھارٹیز کے وفاقی وزیر مرادسعید اور تحریک انصاف کے چند دوسرے ترجمانوں کی جانب سے بار بار ٹی وی چینلز اور پریس کانفرنسز سمیت سوشل میڈیا پر گزشتہ دورِ حکومت میں سڑکوں، پلوں اور دیگر بہت سی تعمیرات پر اٹھنے والے اخراجات کا موجودہ دور میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی لاگت سے موازنہ کیا جا رہا ہے، ان اعداد و شمار کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اس ملک میں سوائے کمیشن مافیا اور عوامی دولت کی لوٹ مار کے اورکوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ مراد سعید نے میڈیا کے سامنے عمران حکومت اور گزشتہ شریف برادران حکومت کے تخمینوں اور اخراجات کے جو چارٹ پیش کیے ہیں‘ وہ حیران کن ہی نہیں بلکہ ناقابلِ یقین بھی محسوس ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف دعویٰ کرتی ہے کہ 6 ہزار 118 کلو میٹر طویل سڑکیں‘ جن میں ڈیرہ اسماعیل خان اور سوات موٹر وے فیز2 جیسے منصوبے بھی شامل ہیں، کا موازنہ اگر موٹر وے سمیت شریف فیملی کی حکومت میں تعمیر کی گئی سڑکوں اور ملتان‘ سکھر موٹر ویزسے کیا جائے‘ جس کو تعمیر ہوئے دس سال کا عرصہ بیت چکا ہے‘ تب بھی تحریک انصاف کے مکمل کیے گئے پروجیکٹس کا بجٹ شریف برادران کی بنائی گئی سڑکوں سے کم ہے ۔ پانچ یا دس سال قبل کے پروجیکٹس میں استعمال ہونے والے میٹریلز کی حالیہ قیمتوں کے فرق کے ہمراہ لاگت کا موازنہ پیش کرتے ہوئے مرادسعید کی جانب سے جو دعوے کیے جا رہے ہیں‘ وہ درست محسوس ہوتے ہیں ۔ ان کے بقول سڑکوں اور موٹر ویز کی لاگت کی اگر کوئی تصدیق کرنا چاہے تو ہائی وے اتھارٹی کی ویب سائٹ پر یہ سارے اعداد و شمار موجود ہیں۔ اس موازنے میں جو فرق سامنے آتا ہے وہ ایک مقروض ملک کے شہری کو تڑپا کر رکھ دیتا ہے۔
گزشتہ نواز شریف دور میں موٹر وے کی سڑکوں کا ایک فرلانگ اگر ایک کروڑ میں بنا تھا تو آج ''بے تحاشا‘‘مہنگائی اور ہر پروجیکٹ کیلئے درکار سامان کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے با وجود کسی پہاڑی یا میدان کو کاٹے بغیر بننے والی اس فرلانگ سڑک کا تخمینہ 70 لاکھ ہے ۔ سب سے زیادہ حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب اس چارٹ کو دیکھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ کہیں پر پی ٹی آئی کے ترقیاتی کاموں پراٹھنے والی لاگت شہباز شریف حکومت سے پانچ گنا کم ہے تو کہیں دو سے تین درجے کم۔ قومی و سوشل میڈیا پر جو سرکاری ریکارڈ پیش کیا جا رہاہے‘ اس کو دیکھنے کے بعد ایک خلش سی دل میں اٹھتی اور ایک خواہش سر ابھارتی ہے کہ کاش کوئی ایسا بنچ یا ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جو سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی سمیت ملک کے ہر حصے میں تعمیر میں کیے جانے والے ایک ارب روپے سے زائد لاگت کے ہر منصوبے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے ہمارے قرضوں میں جکڑے ملک کی بوٹیاں نوچنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ اب خواہ اس کی زد میں بی آر ٹی آئے یا مالم جبہ منصوبہ۔ خواہ وہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کا کیا دھرا ہو یا آٹھ سال قبل کی پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کی مرکزی سمیت صوبائی حکومتوں کا کچا چٹھا۔
ہسپتالوں میں دوائی اور بڑے ڈاکٹروں کی فیس نہ دینے پر تڑپ تڑپ کر مرنے والوں ، تفتیش کیلئے پولیس سٹیشنوں اور انصاف کے کچہریوں میں دھکے کھانے والوں، تعلیم اور لباس کیلئے ترسنے والوں، مہنگائی کے اژدھے کے جبڑے میں جکڑے ہوئے مجبور اور لاچار کرایہ داروں، ایک ایک روٹی اور تن کے لباس کیلئے ترسنے والی مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں اور دودھ پیتے بچوں کی حالت زار دیکھ دیکھ کر تڑپنے والے والدین کو جب دیکھتا ہوں تو شدت سے یہ خواہش ابھرتی ہے کہ کاش کوئی ہو جو ان مظلوم عوام کے چہروں کی رونقیں چھیننے والے مکروہ صورت مجرمان کے چہرے بے نقاب کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔میرے وطن اور اہلِ وطن کو اس حال تک پہنچانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ کاش کچھ ایسا ہو جائے کہ قومی خزانے کو لوٹ کر بنائے جانے والے ان کے محل‘ پلازے اور جائیدادیں ان کے وارثان کو دینے کے بجائے عوامی اور فلاحی منصوبوں کے حوالے کر دیے جائیں ۔