تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     14-10-2021

طلبہ کے مستقبل کا سوال

میڈیکل میں داخلے کی پالیسیوں میں یکایک تبدیلی نے رواں برس میڈیکل کالجوں میں داخلے کے خواہشمند ہزاروں طلبہ و طالبات کا مستقبل دائو پر لگا دیا ہے۔ مبینہ طور پر کئی سٹوڈنٹس کو پہلے ہی فیل کر دیاگیا اورجب تک میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان کے داخلے کا چانس بن سکتاتھا‘ اس وقت تک کسی نے بھی اس غفلت کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر جیسے ہی میڈیکل کالجوں کے داخلوں کی تاریخ گزر گئی، ٹیسٹ میں ہونے والی ''غفلت‘‘ کو درست کرتے ہوئے طلبہ کو صحیح نتیجے بھیجے گئے جن کا انہیں کوئی فائدہ نہ تھا۔ طلبہ اور ان کے والدین کے احتجاج کو کوئی ذمہ دار خاطر میں نہیں لایا، نہ ہی ماضی میں اپنے حقوق اور مطالبات منوانے کے لیے طویل احتجاج اوردھرنا دینے والی حکمران جماعت نے طلبہ و طالبات کے احتجاج کا نوٹس لیا جس کے باعث ہزاروں ذہین طلبہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلوں سے محروم ہو گئے۔ ہزاروں مایوس طلبہ نے نئی پالیسیوں اور ٹیسٹ میں مبینہ بے ضابطگیوں کی وجہ سے اپنا مستقبل تاریک نظر آنے اور ڈاکٹر بننے کی خواہش دم توڑنے پر اپنا تعلیمی سال بچانے کے لیے مجبوراً دیگر یونیورسٹیوں میں نان میڈیکل مضامین میں داخلہ لے لیا کیونکہ ملک بھر کی جامعات میں داخلے کی تاریخیں لگ بھگ ایک ساتھ ہی ختم ہو رہی تھیں۔ طلبہ کے پاس میڈیکل کے بجائے کسی دوسرے مضمون میں داخلہ لینے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھا لہٰذا ایسے طلبہ و طالبات‘ جنہوں نے بارہ سال سے زائد عرصہ تک ڈاکٹر بننے کی خواہش دل میں دبا کر خوب محنت کی اور اپنا دن رات ایک کرکے پہلے میٹرک کے امتحانات میں 90 فیصد اور زائد نمبر حاصل کیے اور پھر ایف ایس سی (پری میڈیکل) میں بھی بھرپور توجہ اور محنت سے 90 فیصد اور زائد نمبر لیے‘ انہیں انٹری ٹیسٹ میں مبینہ بے ضابطگیوں اور یکطرفہ پالیسیوں کی وجہ سے میڈیکل کی فیلڈ سے دور کر دیا گیا اور یوں ان طلبہ کی اہلیت، محنت اور مطلوبہ نتائج کے باوجود ان کی ڈاکٹر بننے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔
کورونا وائرس نے ہمارے تعلیمی نظام کو بہت متاثر کیا ہے۔ میں نے چند روز قبل اپنے ایک کالم میں بتایا تھا کہ رواں برس سب سے زیادہ ہائی کلاسز اور انٹرمیڈیٹ کے بچے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے امتحانات کے لیے بنائی جانے والی پالیسی میں کئی سقم تھے، اس کے تحت اگر کسی متوسط سٹوڈنٹ کا ایک پرچہ بہت اچھا ہوا تو اس کے مجموعی نمبروں کے تناسب میں پندرہ سے بیس فیصد اضافہ ہو گیا اور اگر کسی ذہین بچے کا کسی بھی وجہ سے محض ایک پیپر ٹھیک نہیں ہوا تو اس کی اوسط دس سے پندرہ فیصد کم ہو گئی، لیکن اس سے بھی بڑا ستم ڈاکٹر بننے کی ٰخواہش دل میں لیے دن رات ایک کرکے خوب محنت کرنے والے ان ذہین طلبہ وطالبات پر ڈھایا گیا جنہوں نے میڈیکل کالجز میں داخلوں کے لئے انٹری ٹیسٹ دیا تھا۔ ان ٹیسٹوں میں ہر جگہ سے بے قاعدگیوں کی درجنوں بلکہ سینکڑوں شکایات موصول ہوئیں جس کی وجہ سے طلبہ میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ٹیسٹ غیر پیشہ ور افراد کے زیرِ نگرانی لیے گئے۔ امتحانات کے لیے شادی ہالز اور نجی اکیڈمیوں میں سنٹر بنائے گئے جہاں طلبہ کو کسی قسم کی سہولت مہیا نہیں کی گئی تھی، امتحانات کی تیاری کے لیے وقت بھی کم دیا گیا تھا۔ کہیں سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہونے کی شکایات ملیں تو کہیں لوڈشیڈنگ کے باعث وقت طلبہ کا ضائع ہوا۔ پھر صوبوں کے حساب سے الگ الگ نصاب کے مطابق پیپر بنانے کے بجائے سب کو ایک ہی پیپر دیا گیا جس کے باعث نصاب سے ہٹ کر سوالات آنے کی شکایات کافی تعداد میں موصول ہوئیں جبکہ سب سے بڑی شکایت جو سامنے آئی وہ یہ کہ ایک سوال کے ممکنہ جوابات میں ایک ہی جیسے دو‘ دو آپشنز دیے گئے تھے۔ اب اگر کوئی بچہ آپشن ون کو درست سمجھ کر ٹِک کرتاہے اور وہی آپشن نمبر تین پر بھی دیاگیا ہے تو بظاہر دونوں جوابات ٹھیک ہیں لیکن کمپیوٹر میں تو صرف ایک ہی آپشن 'فیڈ‘ کیا گیا ہے‘ اس لیے اب طالب علم کو کیا معلوم کہ کمپیوٹر پہلے نمبر والے جواب کو درست تسلیم کرے گا یا تیسرے نمبر والے جواب کو؟ اس طرح سو فی صد درست جوابات دینے والے طلبہ بھی اس ٹیسٹ میں فیل ہوتے رہے جو بہت بڑی ناانصافی ہے۔ اس غلط پالیسی کے خلاف طلبہ، والدین اور ڈاکٹروں کی مختلف تنظیموں نے سخت احتجاج کیا۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے طلبہ کی تعلیم پہلے ہی بہت متاثر ہو چکی ہے، ایسے میں امتحانات کی سابقہ پالیسی کو یکسر تبدیل کرکے نئے قواعدکے ساتھ من مانیاں کر کے طلبہ کو ریلیف دینے کے بجائے ان کے لیے مسائل پیدا کرنے کے بجائے افہام و تفہیم سے اس معاملے کو نمٹانا جائے۔ اس نظام پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ تمام امتحانات میں طلبہ کو ایک ہی پیپر دیاگیا جبکہ رائج طریقہ کار کے مطابق ہر طالبعلم کا پیپر مختلف ہونا چاہئے جبکہ طلبہ سے پیپر پر نظرثانی کرنے کی بنیادی سہولت بھی چھین لی گئی ہے۔ طلبہ کو فوری طور پر رزلٹ بھی نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے اس نظام پر عدم اعتماد میں اضافہ ہوا۔
ایک طالبہ نے بتایا کہ اس نے ٹیسٹ کے لیے بڑی محنت کی تھی، تیاری کے لیے ایک اکیڈمی بھی جوائن کی تھی جس کی بھاری فیسیں برداشت کیں، دن رات پڑھائی میں گزارے لیکن جس دن اس کا ٹیسٹ ہونا تھا‘ اس سے ایک روز قبل ہی اسے رزلٹ بھیج دیا گیا جس میں اسے فیل قرار دیا گیا تھا۔ بغیر کسی ٹیسٹ کے طالبہ کو فیل قرار دینا، اسے سنگین غلطی کہا جائے یا ناانصافی تصور کیا جائے؟ شدید الفاظ میں اس کی مذمت کی جائے یا کوئی قانونی راستہ اپنایا جائے، حقیقت یہ ہے کہ اس بچی کا مستقبل تاریک کر دیا گیا ہے، اس کی ڈاکٹر بننے کی خواہش کا قتل کیا جا چکا ہے اور اب اگر اس بچی کے والدین اس مبینہ بدعنوانی یا سنگین غلطی کے خلاف عدالت کا رخ کرتے ہیں تو بھی اس کا فیصلہ آنے تک بچی کا کم ازکم ایک قیمتی تعلیمی سال ضائع ہو چکا ہو گا۔ اب یا تو وہ بھی ہزاروں دوسرے طلبہ کی طرح ڈاکٹر بننے کی خواہش ترک کر دے اور کسی دوسرے مضمون میں داخلہ لے لے یا پھر اگلے سال دوبارہ ٹیسٹ کا انتظار کرے، لیکن پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے سال کیا حالات ہوں گے۔
راولپنڈی کی ایک اور ذہین طالبہ جس کے میٹرک فیڈرل بورڈ کے امتحان میں 95 فیصد نمبر آئے تھے، ایف ایس سی (پری میڈیکل) میں اس نے 92 فیصد نمبر حاصل کیے، اس کے بعد اس نے ٹیسٹ کے لیے بھی دن رات محنت کی۔ ٹیسٹ کے بعد بھی وہ بہت خوش تھی کہ اس کا پیپر بہت اچھا ہوا تھا، اسے پوری امید تھی کہ 210 میں سے اس کے کم از کم 180 نمبر آئیں گے اور اسے کسی اچھے میڈیکل کالج میں بہ آسانی داخلہ مل جائے گا لیکن جب رزلٹ آیا تو اسے 127 نمبروں کے ساتھ فیل قرار دیا گیا تھا، اس طالبہ نے نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز میں داخلہ ٹیسٹ کے لیے بھی ہزاروں روپے فیس جمع کرا رکھی تھی لیکن وہ ٹیسٹ اس لیے نہ دے سکی کہ اُس کیلئے اِس ٹیسٹ میں 65 فیصد نمبر لینا شرط تھی۔ ہزاروں دیگر طلبہ و طالبات کی طرح اس نے بھی مایوس ہوکر اپنا ارادہ بدیل لیا اور شعبہ فارمیسی (ڈاکٹر آف فارمیسی) میں داخلہ لے لیا لیکن اس کہانی میں حیران کن موڑ تب آیا جب یونیورسٹی میں داخلے کا عمل مکمل ہونے جانے اور داخلہ ٹیسٹ کی تاریخ گزر جانے کے کئی روز بعد اسے دوبارہ ٹیسٹ کا رزلٹ موصول ہوا جس میں اسے پاس قرار دیا گیا تھا۔ اب ٹیسٹ میں پاس ہونے کا بھی اسے کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ وقت گزر چکا تھا۔ اب حکومت یا کونسل اس بچی کو کیا جواب دیں گے؟ پہلے غلط نتیجہ بھیج کر اس طالبہ سمیت ہزاروں ذہین طلبہ کا مستقبل کیوں تاریک کیا گیا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اربابِ بست و کشاد اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دیں اور جن طلبہ کا نقصان ہو چکا ہے، ان کے ازالے کیلئے کوئی مناسب اہتمام کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved