تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-10-2021

’’سپاہِ دانش‘‘ کی تیاری

کرنے کے کام بہت سے ہیں مگر ہم کریں تو تب کہ جب اُن کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا کریں۔ ایک دنیا ہے کہ علم و فن کی دنیا میں جولانیٔ طبع کا مظاہرہ کرنے پر کمر بستہ رہتی ہے اور ہم ہیں کہ اب تک ایسا کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کر پائے۔ فکر و نظر سے بے اعتنائی صریح خسارہ ہے مگر افسوس کہ اس خسارے کا احساس بھی مٹ چلا ہے۔
مغرب نے مادّہ پرستی کو فروغ دیا۔ مغرب کا عام آدمی فطری علوم و فنون میں ممکن بنائی جانے والی فقید المثال پیشرفت اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چمک دمک ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔ دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ گردان لیا گیا ہے اِس لیے جب تک سانسوں کا ربط برقرار ہے تب تک اِس دنیا سے زیادہ سے زیادہ تمتّع ممکن بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہر پل سے بھرپور حَظ اٹھاؤ، ایسا لطف کشید کرو کہ نفس پوری طرح مطمئن ہو رہے۔ اور روح؟ روح کے وجود کو تو مغربی معاشرے عمومی سطح پر تسلیم ہی کہاں کرتے ہیں۔ سارا زور مادّی حیات پر ہے۔ آج اہلِ مغرب کو جو کچھ نظر آ رہا ہے‘ ان کے نزدیک بس وہی حقیقت ہے۔ تفکر کی اِسی نہج نے مادّہ پرستی اور دہریت کو متواتر پروان چڑھایا ہے۔
کل ایک مدت کے بعد بھائی حسیب سے ملاقات ہوئی تو مغرب کے الحاد پر گفتگو ہوئی۔ بھائی حسیب دینی علوم میں معقول حد تک دسترس کے حامل ہیں اور جدید علم الکلام سے بھی بے بہرہ نہیں۔ الحاد اُن کا خاص موضوع ہے اور اِس حوالے سے پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ الحاد نے اب خوب پَر پھیلا لیے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مغرب کے مادّہ پرست الحاد کو صرف انکارِ مذہب تک محدود رکھتے تھے۔ اب وہ انکارِ رب سے کئی قدم آگے جاکر مذاہب کے وجود ہی کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ آج کے مغربی ملحدوں کا استدلال ہے کہ کسی برتر ہستی کے وجود سے انکار کافی نہیں بلکہ یہ ناگزیر بھی ہے کہ ادیان و مذاہب ہی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ یہ جارحانہ رویہ محض کہنے کی حد تک نہیں۔ وہ اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اب وہ مذاہب و ادیان کا وجود مزید برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اس حوالے سے کام بھی کیا جارہا ہے۔
مغربی کلچر میں الحاد کم و بیش تین صدیوں سے بھی زائد مدت سے ایک زندہ و توانا قدر کے طور پر رہا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے بھی اس حوالے سے بلیغ طبع آزمائی کی ہے۔ تب کا الحاد یہ تھا کہ کسی خالق کا انکار کردیا جائے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ پہلے تو ذہنوں میں شکوک پیدا کیے جاتے ہیں، پھر دین سے برگشتہ کیا جاتا ہے اور پھر متاثرہ ذہنوں کو ادیان کے خلاف سینہ سپر ہونے پر اُکسایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی نئی نسل کا قابلِ ذکر حصہ دین اور شرعی احکام کو محض رسمی کارروائی کے طور پر قبول کرتا ہے۔ مسلم گھرانے میں پیدا ہونے والا مسلم ہوتا ہے، بس اِسی کو نجاتِ اُخروی کے لیے کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ لوگ اللہ کے وجود پر تو یقین کے حامل ہیں مگر دین کا حقیقی فہم و شعور نہیں رکھتے۔ آخرت اور حساب کتاب دین کا انتہائی بنیادی معاملہ ہے۔ کسی بھی مسلم کی پوری زندگی اور افکار و اعمال کا مدار یوم الدین یعنی آخرت میں ہونے والے حساب کتاب پر ہے۔ آج صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں عمومی سطح پر آخرت کا تصور گہناتا جا رہا ہے۔ ہم روزانہ نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں مگر اُس کے مندرجات غور نہیں کرتے، اُنہیں حرزِ جاں بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ عمل کی منزل اِس مرحلے سے گرنے کے بعد آتی ہے۔
کسی بھی غالب یا توانا رجحان کا مقابلہ محض تنقید و تنقیص یا گلہ و شکوہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ علم سے لڑنے کے علم ہی کو تلوار اور ڈھال بنایا جاسکتا ہے اور بنایا جانا چاہیے۔ مغرب کے نامور ملحد اپنی زندگی اپنے ''کاز‘‘ یعنی اہلِ ایمان و ایقان کو خالق کے وجود اور اُس کی صفات و قوت سے برگشتہ کرنے میں کھپا دیتے ہیں۔ درست کہ اُنہیں حکومتی سرپرستی کے تحت آسودگی بھی میسر ہے مگر یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ وہ اپنے کاز سے جُڑے ہوئے ہیں اور باقی دنیا کو دین و ایمان سے برگشتہ کرنے پر یوں کمربستہ ہیں کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ وہ چونکہ اپنے کام پر غیر معمولی توجہ دیتے ہیں اِس لیے ذہن خوب چلتا ہے۔
بھائی حسیب کے نزدیک دُکھ دینے والی ہی نہیں بلکہ دُکھ میں پیہم اضافہ کرنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں یعنی مسلم دنیا میں الحاد سے بھرپور مقابلے کے بارے میں اب تک ڈھنگ سے سوچا بھی نہیں گیا۔ علم کا سامنا علم سے اور دلیل کا مقابلہ دلیل ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ مسلم دنیا میں چند ایک دانشور ہیں جو ملحدوں سے مناظرے بھی کرتے ہیں اور کسی حد تک خود کو منواتے بھی ہیں مگر یہ معاملہ انفرادی کوششوں سے نمٹنے والا نہیں۔ مغرب کے سرکردہ ملحدوں اور مغربی حکومتوں کے ہاتھوں مسلم دنیا میں پھیلائے جانے والے الحاد پرست رجحانات کی بیخ کنی کے لیے ''سپاہِ دانش‘‘ کا تیار کیا جانا ناگزیر ہے۔ جی ہاں! سپاہِ دانش یعنی اہلِ علم کا ایسا گروہ جو مغرب کے مادّہ پرستوں اور ملحدوں سے اُن کے علمی منہج ہی پر جاکر مقابلہ کرے، اُنہیں دین کے وجود ہی نہیں بلکہ اس کی وقعت اور ناگزیریت کا بھی قائل کرے۔ یہ کام ایسا ہے جیسے سامنے پہاڑ کھڑا ہو اور اُسے چیر کر جانا ہو۔
اگر ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو قدم قدم پر یہ دیکھ کر دُکھ محسوس ہوگا کہ قوم کا قابلِ ذکر بالعموم اور نئی نسل بالخصوص دین و ایمان کو محض رسمی کارروائی کے طور پر اپنائے ہوئے ہے۔ دین کے حقیقی فہم کے نتیجے میں جو کچھ ہماری زندگی میں دکھائی دینا چاہیے‘ وہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دین کے حقیقی فہم کی منزل سے ہم ابھی بہت دور ہیں۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے ہی سے اصلاحِ احوال کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ جنہیں دین کے بارے میں پختہ رائے کا حامل ہوکر نئی نسل کی موزوں رہنمائی کرنی چاہیے وہ یعنی اساتذہ بھی زندگی کو متوازن و مستحکم رکھنے میں دین کے کردار کی اہمیت سے نہ صرف یہ کہ کماحقہٗ واقف نہیں بلکہ بہت حد تک متشکک ہیں۔ اساتذہ نئی نسل کو زندگی بھر کے لیے تیار کرتے ہیں۔ سوچا جاسکتا ہے کہ تشکیک کے گڑھے میں گرے ہوئے یا دین کا سرسری سا فہم رکھنے والے اساتذہ نئی نسل کو کیا دے سکتے ہیں اور کیا دے رہے ہوں گے۔ آج اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں طلبہ کی اکثریت تشکیک کا شکار ہے۔ دین کے بارے میں اُس کی رائے طائرانہ سی ہے۔ ایمان کے بارے میں سوچنے، اُسے حرزِ جاں بنانے اور پوری زندگی ایمان و ایقان کے سانچے میں ڈھالنے کی نیت و عزم رکھنے والے خال خال ہیں۔ معاملات دنیا پرستی سے شروع ہوکر دنیا پرستی ہی پر ختم ہو رہے ہیں۔ زر کو سب کچھ سمجھ کر اُس کی غیر محسوس یا لاشعوری پرستش عام ہے۔ ایمان و ایقان کے حامل افراد کو بنظرِ استعجاب دیکھا جاتا ہے۔
آج کے مسلم معاشروں کو دو محاذوں پر لڑنا ہے۔ ایک طرف اپنے لوگوں اور بالخصوص نئی نسل کو حقیقی معنوں میں دین کی طرف لانا ہے اور دوسری طرف مغرب اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں پائے جانے والے جارحانہ الحاد کا محض سامنا نہیں کرنا بلکہ اُسے پچھاڑنا بھی ہے۔ مادّی ترقی کی چمک دمک کو حاصلِ زندگی سمجھنے والوں کو (چاہے اپنے ہوں یا پرائے) دین کی طرف آنے پر آمادہ کرنا اس وقت سب سے بڑا جہاد ہے۔ اس جہاد کے لیے علم اور علم الکلام کے محاذ پر متحرک ہونے کی بھرپور تیاری ناگزیر ہے۔ ایسے کام بالعموم حکومتی سرپرستی میں ہوا کرتے ہیں۔ اب ہمارے ہاں حکومت تو ایسی باتوں کی طرف ذرا بھی متوجہ نہیں اس لیے جن کے دلوں میں ایمان کی جڑیں گہری ہیں اُنہی کو میدانِ عمل میں آنا ہے، کچھ کر دکھانا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved