تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-10-2021

بھٹو کا فیصلہ مہنگا پڑا

آج کل پاکستان ایک بحران سے گزر رہا ہیکہ سول ملٹری تعلقات بگڑ چکے ہیں‘ اگرچہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ کہا جا رہا تھا کہ موجودہ سیٹ اپ میں‘ بڑے عرصے بعد سول ملٹری ایک پیج پر آ گئے ہیں۔ فوجی قیادت کی طرف سے بھی بار بار کہا گیا کہ وہ موجودہ سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں اور جب بھی حکومت مشکل میں پڑی اپنے اس خلوص کا انہوں نے کئی دفعہ عملی مظاہرہ بھی کیا۔ اسلام آباد میں تو یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وزیر اعظم صاحب محض تقریریں کرتے ہیں باقی حکومت کرنے کا کام پنڈی سے کیا جاتا ہے۔ عمران خان بھی کئی دفعہ اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں فوجی قیادت کے تعاون کی تعریفیں کر چکے ہیں۔ لیکن کیا کریں تین سال بعد ہر وزیر اعظم کو احساس ہونے لگتا ہے کہ اصل حکمران تو وہ ہے‘ اگر اسی کے قلم سے کسی سویلین یا فوجی افسر کو اہم عہدے ملنے ہیں تو پھر وہ کیوں کسی کی ڈکٹیشن لیں۔ اگر آپ تاریخی طور پر دیکھیں تو زیادہ تر سول ملٹری تعلقات اقتدار کے تیسرے سال ہی خراب ہوتے ہیں۔ نواز شریف کی پہلی حکومت بھی تین سال کے اندر ختم ہوئی‘ بینظیر بھٹو بھی تین سال کے اندر برطرف ہوئیں‘ نواز شریف کا دوسرا دور تین سال کے اندر ختم ہوا۔ گیلانی صاحب نے بھی تین سال بعد اسمبلی میں وہ مشہور زمانہ تقریر کی تھی جس میں انہوں نے ریاست کے اندر ریاست کا کہا تھا اور یہاں تک کہ چینی اخبار کو انٹرویو میں کہہ دیا کہ میمو گیٹ سکینڈل میں جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے براہ راست جوابات جمع کرا کر آئینی خلاف ورزی کی۔ نواز شریف اپنی تیسری ٹرم کے تیسرے سال میں پھر لڑ بیٹھے اور انجام ہم سب جانتے ہیں۔ اس لیے اس وقت خان صاحب کا کھڑے ہو جانا اور نامزد کیے گئے نئے ڈی جی آئی ایس آئی پر فوراً منظوری نہ دینا میرے لیے حیران کن نہیں کیونکہ ابھی اگست میں تو خان صاحب کو بھی وزیر اعظم بنے تین سال ہوئے ہیں۔ وہ افسران یقینا حیران ہوتے ہوں گے جن سے خفیہ ملاقاتوں اور مذاکرات کے بعد ہمارے سیاست دان اقتدار میں آتے ہیں۔ اس وقت تو ہمارے بہادر سیاسی لیڈر ایک قالین میں پیک ہو کر‘ بڑی گاڑی کی بیک سیٹ پر لیٹ کر افسران سے ملنے چلے جاتے ہیں کہ اپنا کوئی فائدہ ہو رہا ہے اور وہی سیاست دان جب اکڑ جاتے ہیں تو یقینا پریشانی تو انہیں ہوتی ہے کہ یہ بندہ اتنا کیوں بدل گیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ ہر دفعہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ ویسے اگر آپ کو یاد ہو تو یہ مسئلہ بھٹوصاحب نے پیدا کیا تھا جب انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے آئی ایس آئی کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس میں اسے یہ پاورز پہلی دفعہ دی گئیں کہ وہ پاکستانی سیاست میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ یوں آئی ایس آئی میں ایک سیاسی سیل بھٹو صاحب کے حکم پر بنایا گیا جس کا کام بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین پر نہ صرف نظر رکھنا تھا بلکہ ان کی سرگرمیوں سے آگاہ بھی کرنا تھا۔
جب صدر زرداری کے وکیل بابر اعوان نے سپریم کورٹ میں ریفرنس میں وکالت شروع کی تو اُس وقت مجھے سپریم کورٹ کی بہت سی پبلک دستاویزات پڑھنے کا موقع ملا۔ زرداری صاحب اور بابر اعوان چاہتے تھے کہ عدالت بھٹو صاحب کو دی گئی پھانسی کے فیصلے کو ختم کرے۔ اس ریفرنس کے لیے بابر اعوان نے اپنی وزارت کی قربانی دی اور وزیر قانون کا عہدہ چھوڑ کر وہ اس کیس میں وکیل بن گئے تھے۔ ان دستاویزات سے پتہ چلا کہ بھٹو صاحب کو انٹیلی جنس ایجنسی ان کے مخالفیں کی نہ صرف سب سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ رکھتی تھی بلکہ ان کے ٹیلی فونز کے ریکارڈ اور گفتگو کی تفصیل تک انہیں پہنچائی جاتی تھی۔ یوں دھیرے دھیرے اس ایجنسی کی اہمیت نہ صرف سیاسی وزیراعظموں کے لیے بڑھتی چلی گئی بلکہ اگر دیکھیں تو جنرل ضیااور جنرل مشرف کے ادوار میں بھی انہیں بہت طاقت ملی اور وہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگی۔ حکومتیں بننے اور توڑنے میں بھی اس کا کردار بڑھ گیا‘ اور تو اور سیاستدان بھی اقتدار پانے کے لیے یہاں کے چکر کاٹنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ1990ء کے انتخابات میں چودہ کروڑ روپے سیاستدانوں میں بانٹے گئے تاکہ بینظیر بھٹو کو الیکشن ہرایا جائے۔ یوں بھٹو صاحب نے اسے جو سیاسی رول دیا تھا وہ ایک دن ان کی اپنی بیٹی کے خلاف بھی استعمال ہو رہا تھا‘ جو بھٹو صاحب اپنے سیاسی مخالفوں کے خلاف استعمال کیا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب نے کب سوچا ہوگا کہ ایک دن ان کی اپنی بیٹی اس ایگزیکٹو آرڈر کا شکار ہوگی جو انہوں نے اپنے تئیں خود کو اپنے سیاسی مخالفین سے محفوظ رکھنے کے لیے جاری کیا تھا۔ جنرل حمید گل نے تو باقاعدہ کریڈٹ لیا تھا کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی کے نام سے مختلف جماعتوں کا سیاسی الائنس بنوایاتاکہ بینظیر بھٹو کو ہرا سکیں۔ جنرل حمید گل سے جب بھی اس پرسوال کیا جاتا تو وہ بھی بھٹو صاحب کے اس آرڈر کا حوالہ دیتے تھے کہ یہ کام تو باقاعدہ ایجنسی کے چارٹر میں بھٹو صاحب نے ڈالا تھا۔
جب سیاستدانوں کو لگا کہ وہ وزیراعظم یا وزیر اس ایجنسی کی سپورٹ کے بغیر نہیں بن سکتے تو انہوں نے بھی شکست تسلیم کر لی۔ ہر وزیراعظم کی یہی خواہش رہی کہ وہ کسی طرح آئی ایس آئی کا سربراہ اپنے اعتماد کا بندہ لگائے۔ بینظیر بھٹو نے ایک ریٹائرڈ جنرل کلّو کو ڈی جی لگایا تو نواز شریف نے باقاعدہ ایک ڈی جی آئی ایس آئی کو آرمی چیف بنادیا جس پر انہیں حکومت سے محروم ہونا پڑا ۔ نواز شریف بھی بھٹو کی طرح اس ایجنسی کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف جب جنرل ضیا الدین بٹ نے اپنے سرونگ آرمی چیف کے خلاف نواز شریف کا ساتھ دیا تو اس کے بعد ہر آرمی چیف کا بھی یہ خیال رہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی ان کا اپنا قابلِ اعتماد جنرل ہونا چاہیے تاکہ وہ وزیراعظم کے ساتھ مل کر ان کے خلاف ہی نہ چل پڑے‘جبکہ وزیراعظم کے بھی مد نظر یہ رہا کہ اگر ڈی جی ان کی مرضی کا نہ ہوا تو ان کے سیاسی مخالفیں ان کے خلاف سازشیں کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی یہی لگتا ہے اگر کوئی ڈی جی رہے تو ان کا اقتدار زیادہ محفوظ رہے گا۔ ایک ڈی جی کو ہر وقت وزیراعظم سے رابطہ رکھنا ہوتا ہے لہٰذا وہ وزیراعظم کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔ آرمی چیف کی ملاقات تو کبھی کبھار ہوتی ہے لیکن ڈی جی آئی ایس آئی جب چاہے مل سکتا ہے۔اب بھی مسئلہ یہیں سے پیدا ہوا ہے کہ وزیراعظم خود کو جنرل فیض کے ساتھ زیادہ کمفرٹ ایبل سمجھتے ہیں۔
مزے کی بات ہے کہ سب سیاسی وزیراعظم ایجنسی کے سیاسی رول پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن کوئی بھٹو صاحب کے اس ایگزیکٹو آڈر کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں۔ ان سب کو ایجنسی کا سیاسی رول اچھا لگتا ہے خصوصاً وہ رول جو اِن کے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو رہا ہو‘ لیکن اگر کوئی اور ان کے خلاف وہی رول استعمال کرے تو برا۔ بھٹو صاحب کے 45 سال پرانے فیصلے کی قیمت پاکستان کا سیاسی نظام آج بھی بھگت رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved