گزشتہ ہفتے لاہور کی کشش کھینچ کھانچ کر لے گئی تو ذہن پہ وبا کے خدشات سوار تھے۔ رہی سہی کسر انہوں نے پوری کر دی جو چاہتے ہیں کہ ہم کچھ عرصہ مزید زندہ، توانا اور ہمیشہ کی طرح خوش و خرم بسر اوقات کرتے رہیں۔ بوجھ بڑھ گیا تھا کہ نہ جانے کہیں ہم بھی‘ جو ابھی تک بچے ہوئے ہیں، شکار نہ ہو جائیں۔ ہمارے چند دوستوں کو وبا سے دوچار ہونا پڑا تو ان کی حالت کے بارے میں سن کر اپنے ہوش اڑ گئے۔ ہر طرف سے آوازیں بلند ہوتی رہیں کہ احتیاط، بس احتیاط کرو، گھر میں رہو، نہ ملو اور نہ کسی کو ملنے کی دعوت دو۔ جس طرح گزشتہ ڈیڑھ سال گزرا ہے، جی چاہتا رہا کہ رسی تڑوا کر لاہور بھاگ جاؤں۔ درویش کی جامعہ بھی عجیب ہے کہ تاکید بلکہ حکم دیتی رہی کہ گھر میں رہ کر آن لائن پڑھاؤ، یہاں آنے کی ضرورت نہیں‘ لیکن جی کا کیا کریں‘ لاہور جانے کیلئے بیقرار تھا۔ ایک دو چکر پہلے بھی لگائے تھے، مگر وہاں اپنے اپارٹمنٹ تک محدود رہا۔ اس دفعہ یہ سوچ کر نکلا تھا کہ اب وبا کے حالات حکومت کے کنٹرول میں آ چکے ہیں اور ہمارے پاکستانی شہری بھی با شعور ہو چکے ہیں تو خطرے کی اتنی بات نہیں۔ اس مرتبہ جس کسی نے بھی ہمیں وعظ و نصیحت کا نشانہ بنایا یا زبردستی سے روکنا چاہا، تو ہم اپنی فطری آزادی اور آزاد خیالی کا سہارا لے کر نکل پڑے۔
لاہور کے کچھ حالات کے بارے میں پہلے لکھ چکا ہوں، اس کو دھرانے کی ضرورت نہیں۔ وعدہ کیا تھا کہ ہیٹ والے کے بارے میں پہلی فرصت میں لکھوں گا کہ اس کی کہانی میں کئی کہانیاں پنہاں ہیں۔ انار کلی میں ایک دکان ہے جو انگریزی ہیٹ بنانے میں مشہور تھی۔ ہم انگریز تو نہیں اور نہ ہونے کی تمنا رہی ہے، مگر یہ ہیٹ گرمی کے موسم میں دیہاتوں، کھیتوں اور ویرانوں میں گھومنے کیلئے ایک ضرورت رہی ہے۔ بچپن میں انگریزوں کو تو نہیں، لیکن ان کے جانشین پاکستانی افسروں کو دیہات کے دورے کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس زمانے میں ان کے پاس گاڑیاں نہ تھیں۔ دور دراز علاقوں میں سرکاری گھوڑوں پر سفر کرتے تھے۔ سر پر ان کے سولر ہیٹ ہوا کرتے تھے، جو چہرے کو سورج کی تیز شعاعوں سے محفوظ رکھتے۔ کچھ بڑے زمینداروں کو بھی یہ ہیٹ استعمال کرتے دیکھا، لیکن یہ ہیٹ عوام و خواص میں آزادی کے بعد مقبول نہ رہے۔ عام روایتی لوگ تو پگڑیوں کی تہوں میں اپنے آپ کو محفوظ پاتے تھے، مگر نئی نسل نے ننگے سر رہنے کو نئے فیشن کی علامت سمجھا۔ ہم بھی جب کالجوں میں پہنچے تو کسی کو شاید ہی پگڑی میں دیکھا ہو۔ پگ‘ جو کسی زمانے میں پنجاب میں عزت و احترام کی نشانی تھی، گئی تو ہیٹ اس کی جگہ نہ لے سکا۔ تقریباً نصف صدی قبل جب میں جامعہ پنجاب میں آیا تو انارکلی میں ایک ہی ہیٹ بنانے والے کی دکان تھی۔
گرمیوں کے ہمارے ہاں تو کئی تحفے ہیں مگر میرے جیسے گردش میں رہنے والے بندے کیلئے سولر ہیٹ سے بڑا گرمیوں کا تحفہ کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔ تقریباً طالب علمی کے زمانے میں ہی ہیٹ والے سے شناسائی ہو گئی تھی۔ انگریزی سولر ہیٹ تو تب ہماری جیب پر بھاری تھا۔ اس کی بُنائی میں سرکنڈے کا گودا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے نکالنے اور پھر ایک نفیس، ہموار اور آدھی انچ موٹی تہہ میں ڈھالنے میں مشقت اور وقت درکار ہے۔ یہ سب کام مشینوں پر نہیں یہاں ہاتھ سے کیا جاتا تھا۔ ہم نے اس کا سستا متبادل وہیں سے تلاش کر لیا۔ مضبوط خاکی کپڑے سے سلا ہیٹ، جو اکثر آپ نے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو سر پر رکھے تپتے موسموں میں بھاگتے دوڑتے پہنے دیکھا ہو گا۔ ہمیں شروع سے خاکی رنگ ہی پسند رہا ہے۔ ایک پھیرے میں چند ایک خرید لیتے ہیں۔ ایک دو سیزن گزارہ ہو جاتا ہے۔ مال روڈ پر دھیرے دھیرے چلتے چلاتے، کیچڑ اور موٹر سائیکلوں کے طوفان سے بچتے بچاتے ہم ہیٹ والے کے پاس پہنچ ہی گئے۔ ہر دفعہ اسے بتانا پڑتا ہے کہ میں ان کے بنائے ہیٹ نصف صدی سے خرید کر پہن رہا ہوں اور کتنے خوبصورت اور اعلیٰ مہارت اور فن کا یہ نمونہ ہیں۔ جب اس دکان سے میرا تعارف ہوا اورآنا جانا شروع ہوا، تو موجودہ مالک کے مرحوم والد یہ کاروبار کرتے تھے، بلکہ اپنے ہاتھوں سے خود ہیٹ بناتے تھے۔ یہ دکان انہوں نے انیس سو اٹھائیس میں ڈالی تھی۔ اس کے ایک حصے میں تب ایک بنیا بیٹھتا اور ایک حصہ ہیٹ والے کی ملکیت میں تھا۔ آزادی کے بعد دوسرا حصہ بھی خرید لیا۔ دکان تو بڑی ہو گئی مگر چند دہائیوں بعد کاروبار مندا ہونے لگا۔ انگریز چلے گئے، فیشن بدل گئے تو انارکلی کا ہیٹ بھی اپنی افادیت اور اہمیت کھو بیٹھا۔ ان کی دوسری نسل کے نمائندے سے ''کیسا چل رہا ہے‘‘ کا سوال کیا تو ایک دھیمی سی سرد آہ بھری، اور کہا کہ بس گزارہ ہو رہا ہے، والد صاحب کی نشانی ہے سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے تو یاس و ناامیدی کا پورا دفتر ہی کھول دیا۔ صحت خراب رہتی ہے، وہ یہ فن دوسروں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں، مگر سیکھنے والا کوئی نہیں، سب کہتے ہیں جو دینا ہے، ویسے ہی دے دیں، کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ اپنے بیٹے پر زور دیا کہ وہ بیشک ہیٹ نہ بنائے اور اس کاروبار کو اسی جگہ نہ چلائے مگر کم از کم یہ فن تو والد سے سیکھ لے کہ نہ جانے کب جانے کی باری آ جائے۔ اصرار پر چند ماہ لگا کر کام کرنا اسے آ تو گیا، مگر دل نہ لگا۔ کہا: وہ پڑوس میں جوتوں کی دکان کرے گا‘ اور اس نے کر ہی لی۔ دکان کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ غیر تھی۔ نہ صفائی، نہ ترتیب، نہ سجاوٹ، نہ کوئی بناوٹ، ادھر ادھر گٹھڑیوں کے ڈھیر تھے جن میں مختلف سائزوں، رنگ اور بناوٹ کے ہیٹ اور ٹوپیاں بند کرکے رکھی ہوئی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ صرف وہی کوئی چیز ڈھونڈ کر ان سے نکال سکتا ہے، کسی اور کے بس کی بات نہیں۔
اپنی کہانی سناتے وہ رکا نہیں تھا، مسلسل بولتا رہا اور ساتھ ہی آنے والوں گاہکوں کو نمٹاتا رہا، جو کچھ زیادہ نہ تھے۔ مجھے اپنائیت کے ساتھ، افسردگی کے عالم میں دکھڑا سنانے میں کچھ اطمینان سا محسوس کر رہا تھا۔ میرے بعد کون اس کاروبار کو سنبھالے گا، کوئی بھی نہیں۔ پہلے ہی رشتے دار خفیہ خفیہ اس دکان کو بیچنے کی فکر میں ہیں، جونہی آنکھ بند ہو گی، سب کچھ بک جائے گا۔ مجھے نہیں معلوم لاہور میں ہیٹ بنانے کی کوئی اور دکان یا کارخانہ ہے یا نہیں۔ یہ بند ہوئی تو پھر دیگر اشیا کی طرح ہیٹ بھی درآمد کئے جائیں گے۔ فن تو ایک ورثہ ہے، اسے محفوظ رکھنا، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی سرپرستی کرتے ہیں، یا باہر کی بنی چیزوں کو خرید کر لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ یہ ولایتی ہے۔ میرے سال بھر میں ایک دو ہیٹ خرید کرنے سے کیا ہو گا؟ بس اتنی تسلی کو اپنے حصے کا کام کر دیا ہے اور دھوپ کی تمازت سے سر منہ ڈھانپے رکھنے کا کچھ بندوبست ہو گیا۔ ایک سو سال گزرنے کے بعد تو ہیٹ والے کا ایک کارخانہ ہوتا، جہاں انگریزی ہیٹ بنا کر دنیا میں فروخت کرتا۔ یہ بکھرا خیال اس کیلئے چھوڑ تو آیا مگر ڈر ہے کہ چند سالوں میں ہیٹ والے کے ساتھ ہیٹ والی دکان بھی دم توڑ دے گی۔