تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     15-10-2021

نظربند ہیرو کی رہائی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے عقیدت مندانہ شناسائی برسوں پرانی تھی۔ ستمبر 2014ء میں وہ یونیورسٹی آف سرگودھا کے علم دوست وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کی دعوت پر سرگودھا تشریف لائے اور تین روز تک قیام فرمایا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے قیام سے یونیورسٹی کے دروبام ہی نہیں شاہینوں کے شہر کی فضا بھی مہک اٹھی تھی۔ تب میں یونیورسٹی آف سرگودھا میں تدریسی فرائض کے علاوہ ڈائریکٹر تعلقات عامہ و مطبوعاتِ جامعہ کی ذمہ داری بھی ادا کر رہا تھا۔ اپنے ہیرو سائنسدان کو یوں قریب سے دیکھ کر پہلے تو میں حیرت زدہ رہا مگر پھر ڈاکٹر صاحب کی پربہار اور پرمزاح گفتگو نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس دن سے 10 اکتوبر 2021ء کو اُن کے انتقال تک ہر گزرتے دن کے ساتھ میری عقیدت اور اُن کی شفقت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد ایک غیرمتنازعہ شخصیت تھے مگر ایک ڈکٹیٹر نے اُن کے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں امریکہ کو خوش کرنے کیلئے پہلے انہیں گرفتار کر لیا‘ پھر انہیں گھر پر نظربند کر دیا تھا۔ یہ 2004ء کا واقعہ ہے؛ تاہم اس وقت کے وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی ایسے محسن کش ارادوں کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے۔ یوں جنرل پرویز مشرف کو ایسی سوچ سے دستبردار ہونا پڑا۔
26 ستمبر 2014ء وہ تاریخی دن تھا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یونیورسٹی آف سرگودھا کے ہاکی گرائونڈ میں پندرہ بیس ہزار کے مجمعے سے یادگار خطاب کیا۔ حاضرین میں بڑی تعداد طلبا و طالبات اور اساتذہ کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے خطاب سے پہلے وائس چانسلر نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو شہر وفا سرگودھا میں خوش آمدید کہا اور انہیں بتایا کہ آپ کے سامنے مشتاقانِ دید نوجوانوں کا سمندر ہے جو ہمہ تن گوش ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہانی کی ابتدا 1952ء میں میٹرک کے بعد بھوپال سے ہجرت کرکے کراچی آنے اور یہاں آباد ہونے سے کی۔
آپ نے 1960ء میں ڈی جے سندھ کالج کراچی سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گوش برآواز مجمعے کو بتایا کہ وہ 1961ء میں جرمنی کے شہر برلن چلے گئے جہاں انہوں نے نہایت ذوق و شوق سے جرمن زبان پر عبور حاصل کیا۔ 1962ء میں ڈاکٹر صاحب کی منگنی ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی ہنی خان سے ہوگئی جبکہ شادی کی تقریب 1964ء میں منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے ہالینڈ میں ڈیلف نامی مشہور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 1972ء میں بلجیم کی شہرہ آفاق یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر صاحب نے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ''میرے بیٹو اور بیٹیو! جو کام بھی کرو شوق اور ذوق سے کرو۔ پِتّہ مارکر محنت کرو، ہم نے پاکستان کو دفاعی اعتبار سے ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ اب تم نے اسے علمی اور اقتصادی طور پر دنیا کی بڑی طاقت بنانا ہے۔ میرے بچو! کیا آپ نے کسی ایٹمی قوت کو کاسۂ گدائی لے کر دنیا میں دریوزہ گری کرتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے طالبات سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ''میری بیٹیو! اب میں آپ کو وہی نصیحت کرنے لگا ہوں جو میں نے اپنی بیٹیوں کو کی کہ بچے کم ہی اچھے۔ تم بھی بڑھ چڑھ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرو اور اپنے وطن کی مانگ میں سیندور بھردو‘‘۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اُن کی دعوت پر ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1976ء میں اعلیٰ ملازمت اور ہالینڈ جیسے خوبصورت ملک کو چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ انہیں ایک ہی دھن تھی کہ وہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیں تاکہ بھارت سمیت کوئی بھی دشمن پاکستان کی طرف میلی نگاہ سے نہ دیکھ سکے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے شبانہ روز محنت سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ صدر ضیاالحق مرحوم نے ہر طرح کے امریکی دبائو کو نظرانداز کرتے ہوئے ایٹمی پروگرام کو مکمل کیا۔ صدر غلام اسحاق خان نے اپنی احتیاط پسند طبیعت کے باوجود ہر حیثیت میں مطلوبہ فنڈز فراخدلی سے مہیا کیے اور آخر میں میاں نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کوبتا دیاکہ پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ اس اعزاز کے بعد اہل پاکستان ساری دنیا میں سر اٹھا کر چلنے لگے۔
29 مئی 1998ء بروز جمعۃ المبارک مسجد اقصیٰ کے خطیب نے خطبۂ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے نہایت پُرجوش طریقے سے کہا کہ ھذہ لیست قوۃ الباکستان ولکن ھی قوۃ الاسلام یعنی یہ پاکستان کی نہیں سارے عالم اسلام کی قوت ہے۔ جذبات کی یہی صورتحال سارے عالم اسلام میں تھی۔ امریکہ نے ایٹمی پھیلائو کا الزام پاکستان پر دھر دیا اور پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کردارکشی کرتے ہوئے سارا ملبہ اُن کے کندھوں پر ڈال دیا۔ اس پورے افسانے کی قلعی اس وقت کھل گئی جب مشہور امریکی صحافی ایڈرین لیوی نے اپنے خط میں ڈاکٹر خان کو پرویز مشرف کی حکمت عملی سے آگاہ کر دیا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے محسن پاکستان کی بے توقیری پر ہر پاکستانی دل گرفتہ رہا۔
زندہ قومیں اپنے ہیروز کو سرآنکھوں پر بٹھاتی ہیں، اُن کی شان میں ترانے گاتی ہیں جبکہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ہیرو کو غیروں کے ایما پر ڈِس اون کردیا۔ بھارت کے مسلمان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اُن کے جسد خاکی کو بھارتی جھنڈے میں لپیٹ کر جب میت کو دیدارِ عام کیلئے رکھا تو بھارت کے وزیراعظم مودی نے ڈاکٹر عبدالکلام مرحوم کے سرہانے ہاتھ باندھ کر اور سر جھکا کر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا اور پھر اپنی رسوم کے مطابق میت کے پائوں چھوئے۔
اِدھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نمازِ جنازہ میں نہ وزیراعظم تھے، نہ ہی اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ اور نہ کوئی اور بڑا۔ جن لوگوں نے فیصل مسجد میں نمازِ جنازہ میں شرکت کی انہوں نے بتایا کہ مسجد کے اندر تو چند ہزار لوگ ہوں گے باہر موسلادھار بارش میں لاکھوں کا مجمع تھا جس کے لیے کسی سائونڈ سسٹم کا انتظام نہیں کیا گیا۔ عوام نے اپنے ہیرو کے ساتھ اپنی والہانہ عقیدت میں تادم آخر ذرّہ برابر کمی نہ ہونے دی جبکہ حکمرانوں نے ڈاکٹر خان کو 2004ء سے لے کر 2021ء تک عملاً آزادانہ نقل و حرکت سے محروم رکھا‘ کبھی گھر میں نظربندی اور کبھی داخلی نگرانی کے نام پر۔ 2009ء میں پانچ سال کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ڈاکٹر خان کو آزاد شہری کے تمام حقوق لوٹا دے۔ تاہم پرویز مشرف کے بعد پرویزی حیلوں سے کام لیتے ہوئے اُن پر عاید کچھ پابندیاں تو ختم کی گئیں مگر انہیں آزادانہ نقل وحرکت سے دمِ واپسیں محروم رکھا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ڈچ بیگم اور دو بیٹیوں نے سترہ سالہ اذیت ناک نظربندی کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور ایک لمحے کیلئے بھی حرفِ شکایت زبان پر نہ آنے دیا۔ اُن کی یہ عظمت واجب صد احترام ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کروڑوں عقیدت مندوں میں مدینہ منورہ میں مقیم ایک پاکستانی شاعر حامد علی الحامد بھی شامل ہیں۔ اُنہوں نے ارضِ مقدس سے ڈاکٹر صاحب کے لیے دلی جذبات کا اظہار یوں کیا ہے:
حیات ہوتے گر اقبال اس زمانے میں
قصیدہ لکھتے وہ اس مردِ جاوداں کے لیے
محسن پاکستان کی خُلد سے مجھے صدا آ رہی ہے کہ میرے پیارے وطن کی کسی حکومت یا عدالت نے مجھے جبری نظربندی سے رہائی نہ دلوائی، مگر میرے خدا نے مجھے باعزت رہائی عطا کردی ہے:
رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved