تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     15-10-2021

گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر …(1)

گزرے اتوار کے روز مارگلہ کی پہاڑیوں سے اسلام آباد اور پنڈی کے قریبی علاقے میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اتوار دوپہر 2:15 تک چبھنے والی دھوپ اور چمکتے سورج والا سنی سنڈے تھا۔ بادل کا کہیں نام نہ نشان۔ فیصل مسجد کی پہاڑ والی سائیڈ پر میں 2:20 پر والد صاحب کے ہمراہ پہنچ چکا تھا جہاں چونا گرا کر گرائونڈ میں صفوں کے نشان لگائے جارہے تھے۔ تب آئی سٹی انتظامیہ کا ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، فوج کا ایک کرنل، ایک پولیس آفیسر اور کچھ سکیورٹی اہلکار موجود تھے۔ تھوڑی دیر بعد اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ، دعوہ اکیڈمی کے ہیڈ، فیصل مسجد کے امام اور موذن، کے آر ایل کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (جو مشرف دور سے پہلے کبھی قدیر ریسرچ لیبارٹری کہلاتی تھی) کے چیئرمین اور PINSTECH کے انچارج بھی آن پہنچے اور والد صاحب سے باتیں کرنے لگے۔
ڈھائی بجے جنازہ گاہ میں نمازیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد فوجی جوان سفید لمبا چبوترہ لائے جہاں محسنِ پاکستان اور ایٹمی ہتھیاروں کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے جسد خاکی کا تابوت رکھا جانا تھا۔ اگلے چند منٹ میں مارگلہ پہاڑ کے پیچھے سے سرد ہوا کے ساتھ گہرا بادل نمودار ہوا۔ ایسا لگا جیسے شام ڈھلنا شروع ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی بارش کا آغاز ہوگیا۔ 4:30 تک ہزاروں لوگ پہنچ چکے تھے اور نماز جنازہ پڑھنے کا اعلان کیا گیا۔ یکایک سورج غائب ہوا اور اندھیرا چھا گیا حالانکہ سورج غروب ہونے میں ابھی ایک گھنٹے سے زائد وقت باقی تھا۔ فیصل مسجد سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع H-8 قبرستان میں جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے جسدِ خاکی کو لحد میں اُتارا جا رہا تھا تو پِچ ڈارک اندھیرا چھا گیا، اتنی شدید بارش ہوئی، جو دونوں شہروں کے لوگوں نے اس سے پہلے کبھی شاید ہی دیکھی ہو۔ قدرت اپنے رازوں کی حفاظت کرتی ہے‘ اس لیے جو حیران کن واقعہ رونما ہوا، ہم فی الحال اسی کو بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
بالکل ایسا ہی ایک واقعہ برٹش آرمی کے آفیسر لیفٹیننٹ Richard Bayly نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا۔ اس فرنگی فوجی آفیسر کا تعلق 12th آرمی رجمنٹ سے تھا‘ جس کا تعلق لال باغ سے ہے اور یہ واقعہ 4 مئی 1799ء کو رونما ہوا۔ اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔
ڈاکٹر اے کیو خان کے ساتھ ہمارے کئی تعلق بنتے ہیں۔ سب سے بڑا کہوٹہ کنکشن ہے۔ سہالہ اور کیپٹل آف نیشن کے ساتھ میری آبائی یونین کونسل ہوتھلہ جڑی ہوئی ہے۔ ہمارا آبائی گھر مین کہوٹہ روڈ کے دائیں جانب ایک پہاڑی چوٹی پر ہے جو علاقے میں بڑا گائوں ''وڈا گراں‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی مین کہوٹہ روڈ کی بائیں جانب ہمارے گھر سے ڈھائی کلومیٹر پہلے ڈاکٹر صاحب نے قدیر گارڈن کے نام سے ایک باغ بنایا‘ جس میں وہ گھر تعمیر کرنا چاہتے تھے، لیکن سکیورٹی رِسک کی وجہ سے اُن کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔ اس باغ کا رُخ نیچے بہتے ہوئے دریائے سواں کی جانب تھا۔ اس سے کچھ فرلانگ کے فاصلے پر ڈاکٹر صاحب نے ایک فری میڈیکل ڈسپنسری بنا رکھی ہے۔ سڑک کے اس موڑ کو بھون ٹرائی اینگل بھی کہتے ہیں۔ کہوٹہ تحصیل میں ڈاکٹر صاحب کے نام پر سینکڑوں لوگوں نے اپنے بچوں کے نام رکھے اور ان کی زندگی میں ان کے نام سے بیشمار نشانیاں تخلیق ہوئیں۔ یہ سب کچھ علاقے کے لوگوں نے سب سے بڑا ملکی دفاع تخلیق کرنے والے کی محبت میں اپنی طرف سے کیا۔
1980ء کے عشرے میں ڈاکٹر صاحب اُن چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے راول ڈیم سے ذرا پرے موہڑہ نور کے مقام پر ڈائون ٹائون باغیچے والے گھر بنائے۔ 1980ء کی دہائی کے آخر میں ڈاکٹر اے کیو خان کی پذیرائی پر حاسد کافی ایکٹو ہوچکے تھے چنانچہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کی قیادت میں پرائیویٹ ملکیتی جگہ پر ان گھروں کو گرانے کیلئے آپریشن کیا گیا جس میں تین زمین مالکان پولیس ایکشن کے دوران گولیوں کا نشانہ بن کر جان سے گئے۔ اس مقدمے میں مدعی اور مظلوم فریق نے ہماری لاء فرم سے وکالت کی خدمات حاصل کیں۔ اُس وقت سے بابر اعوان صاحب اور ڈاکٹر اے کیو خان صاحب کے مابین تعلق شروع ہوا‘ جو ڈاکٹر صاحب کی وفات تک چلتا رہا۔ شروع میں یہ تعلق وکیل اور موکل کا تھا، پھر یہ ایک فین اور قومی ہیرو کے تعلق میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔
1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان نے نوجوان سائنسدان ڈاکٹر اے کیو خان کو تڑپا کر رکھ دیا تھا۔ بھارت جیسے بڑے اور متعصب پڑوسی سے انہیں خیر کی توقع نہ تھی۔ سال 1973ء میں وہ ایٹمی توانائی حاصل کرنے کا فاسٹ ٹریک منصوبہ بنا چکے تھے۔ تب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اُنہوں نے خط لکھا اور 1976ء تک پاکستان پلاننگ اور منصوبے کے خدوخال سے آگے بڑھ آیا تھا۔ اسی عرصے میں دنیا پاکستان کے پُرامن ایٹمی پروگرام سے چوکنّا ہوگئی۔ الزامات لگنا شروع ہوئے اور فرانس سے ایٹمی گھر کی اِمپورٹ کو سبوتاژ کرنے کی خوفناک واردات بھی ہوئی۔ امریکہ میں پُرامن توانائی حاصل کرنے کی پاکستانی کوششوں پر ایک پروپیگنڈا فلم بنی، جس کا نام ''Buying the Bomb‘‘ رکھا گیا۔ پھر سازشوں کی جیسے سیریز چل نکلی۔ نام نہاد اے کیو خان نیٹ ورک کا شوشا گھڑا گیا۔
یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے ایک معروف خاندان Tinners فیملی نے انٹرنیشنل نیوکلیئر بلیک مارکیٹ کا نیٹ ورک بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ کریڈیبل معلومات کے مطابق اس نیٹ ورک میں دنیا کی 24 سٹیٹس سے تعلق رکھنے والے 36 ممبرز میں مغربی ملکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس proliferation رِنگ میں کھلے عام یورینیم بیچنے میں انڈیا پہلے نمبر کے ساتھ سامنے آیا۔ ایران، عراق، DPRK، لیبیا اور برازیل جیسے ممالک پر بھی انگلیاں اُٹھائی گئیں کہ انہوں نے sensitive ٹیکنالوجی ٹرانسفر کر رکھی ہے۔ یہاں بھی بھارت کا نام آیا مگر اُسے چھوڑ کر اے کیو خان کی کوششوں کو اسلامک بم کہہ کر پاکستان کو زیرِ بار لانے کے بے پناہ حربے اپنائے گئے۔
بدبختی اور بدخواہی کے علاوہ اسے اور کیا کہنا چاہئے کہ اپنے ہاں بھی کچھ لوگوں نے ویسٹ اور انڈیا کے پروپیگنڈے کو خبر سمجھ کر نہ صرف پھیلایا بلکہ جاہ پرستی کی لت پوری کرنے کیلئے اسے بڑے بھونڈے طریقے سے استعمال بھی کیا۔ اس حوالے سے بہت سے مستند حقائق افواہ ساز فیکٹریوں کا تالا توڑ کر سامنے آچکے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی مثال اُن تین عدد سوئس انجینئرز کے کیس سے ملتی ہے جن میں فریڈرک ٹینر اور اُس کے دو بیٹے ایٹمی پھیلائو کے رِنگ میں ملوث ہونے کے ذمہ دار قرار دیئے گئے۔ عالمی سیاست کی ایک اور ستم ظریقی دیکھئے کہ اِن سوئس نیشنلز کے کردار کو ''انفرادی اعمال‘‘ قرار دے دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایٹمی پھیلائو کے یہ تینوں ملزم اور ان کا پورے کا پورا رِنگ جیل جانے سے بھی بچ گئے‘ لیکن ڈاکٹر اے کیو خان ملک کے اندر اور باہر مقدمے بازی اور الزام تراشی میں اُلجھائے گئے۔
آج میں والد صاحب کے ساتھ راولپنڈی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے ڈاکٹر خان پر تعزیتی ریفرنس میں شریک ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادی ڈاکٹر دینا خان بھی ریفرنس میں شریک ہوئیں۔ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر خان نے سبزی بیچنے والی کا ذکر کیا۔ وہ کون تھی؟
4 مئی 1799ء کی کہانی ابھی باقی ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved