تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     15-10-2021

انسان کہاں سمجھتا ہے؟

رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کا سورج نصف النہار پر تھا۔ کس کی مجال تھی کہ وہ بادشاہ کے سامنے کھل کر سانس بھی لے سکے۔ وہ بلاشرکت غیرے ایرانیوں کی قسمت کا مالک تھا۔ کسی بھی وقت پارلیمنٹ تحلیل کرسکتا تھا یا وزیراعظم کو برطرف کرسکتا تھا۔آزادیٔ اظہار پر مکمل پابندی تھی اور حکومت کے خلاف بات کرنے پر سخت سزائیں مقرر تھیں۔ تب ایران کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا تھا جہاں سزائے موت کی شرح بلند ترین تھی۔ دولت کی ایسی ریل پیل تھی کہ شاہ کو خود بھی علم نہیں ہوگا کہ اُن کے پاس زروجواہرات کے کتنے ذخائر ہیں۔اس نے اپنی زندگی میں ہمیشہ عیش و آرام دیکھا تھااور دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے باعث وہ خود کو عقلِ کل تصور کرتا تھا۔ امریکا کے علاوہ برطانیہ کا بھی اسے بھرپور ساتھ میسر تھا‘ پھر کون ایسا کون تھا جو اُس کے اختیارات کو چیلنج کرسکتا ؟ دوسری جانب تب ایران کی نصف سے زائد آبادی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔ یہاں تک کہ عوام کی بڑی تعداد کو پینے کے صاف پانی کی سہولت بھی میسر نہ تھی۔ دیہات تو ایک طرف‘ شہروں میں بھی بنیادی انفراسٹرکچر، صحت اور تعلیمی سہولتوں کی شدید کمی تھی۔اِس کے باوجود کہ ایران تیل کی دولت سے مالامال تھا‘ کرپٹ حکمران اور صاحبانِ اختیار تیل کی دولت کے فوائد نچلی سطح تک پہنچنے ہی نہیں دیتے تھے۔ بڑی تعداد میں اپنے ہم وطنوں کی بری حالت کے باوجود شاہ ایران خیال کرتا تھا کہ وہ عوام میں بہت مقبول ہے۔ وزیروں ‘ مشیروں کی بہت بڑی ٹیم دن رات شاہ کی شان میں قصیدے پڑھتی رہتی تھی۔ اُن کی بھرپورکوشش ہوتی کہ وہ شاہِ ایران کو دنیا کا بہترین حکمران ثابت کریں۔ اِن معاشی ناہمواریوں کے باعث عوام میں غصہ اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا لیکن حکومت کے جبر کے سامنے سبھی سہمے بیٹھے تھے۔ ان حالات میں شاہِ ایران نے ایک ایسی دعوت منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہ ملتی ہو۔
اسے اِس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ عوام کن حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں‘ اس کا مطمح نظر تھا کہ کسی بھی صورت اُس کا اقتدار قائم رہنا چاہیے۔ اپنے ہی خول میں بند شاہِ ایران کا خیال تھا کہ اِس شاندار دعوت کے باعث پوری دنیا میں اُس کے ملک کا تاثر بہتر ہوگا۔ شاندار دعوت کی تیاریاں شروع ہوگئیں‘ مسئلہ یہ تھا کہ تب ایران میں ایسی سہولتیں میسر نہیں تھیں کہ دنیا بھر سے آنے والے شاہی مہمانوں کی اُن کے شایانِ شان خاطر مدارت کی جاسکے۔لہٰذا فیصلہ ہوا کہ یہ دعوت صحرا میں منعقد کی جائے گی۔ صحرا کے مقررہ حصے کی صفائی کرکے وہاں جنگل اگانے کا سوچا گیا اور اِس مقصد کے لیے پہلے صحرا سے ٹرک بھر بھر کر بچھو اور سانپ پکڑے گئے‘ اس کے بعد اٹلی سے مشہور باغبان جارج ٹرروفوٹ کو جنگل لگانے کے لیے بلایا گیا۔ یہ عمل مکمل ہوگیا تو اِس میں چھوڑنے کے لیے یورپ سے پچاس ہزار خوب صورت پرندے منگوائے گئے تاکہ قدرتی ماحول پیدا کیا جاسکے۔ یہ الگ بات کہ اِن پرندوں کی بڑی تعداد چند ہی روز بعد مر گئی کیونکہ وہ ایران کے موسم سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔کام کو آگے بڑھاتے ہوئے فرانس کی ایک مشہور کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں جس نے رہائش کے لیے ایئرکنڈیشنڈ ٹینٹ ڈیزائن کیے۔ہرخیمے میں دوبیڈ روم، دو واش روم، ایک کچن اور ایک ٹی وی لاؤنج ڈیزائن کیے گئے جہاں 24گھنٹوں کے لیے باوردی خدمت گاروں کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا۔ خیموں کا یہ شہر 160 ایکٹر رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ تمام سامان کی ترسیل کے لیے دعوت کے مقام سے پچاس کلومیٹر دورخصوصی طور پر ایک ایئرپورٹ تعمیر کیا گیا۔ اِسی دوران عوام کو شاہ کی اِس دعوت کی بھنک پڑنا شروع ہوگئی تھی جس پر عوام میں غصہ بڑھنے لگا۔ صورتحال کے پیش نظر سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے پولیس اور دیگر اداروں کے تقریباً 64ہزار مسلح اہلکار تعینات کیے گئے۔ اِن اہلکاروں نے جگہ جگہ چوکیاں قائم کرکے حفاظتی انتظامات کو یقینی بنایا۔ دعوت کے لیے مقررہ دن سے پہلے ہی صحرائی جنگل کو برقی قمقوں سے کچھ اِس انداز میں روشن کیا گیا کہ جس نے بھی دیکھا، حیرت سے انگلیاں دانتوں تلے داب لیں۔
وقت کا پہیہ گھومتے گھومتے 14اکتوبر1971ء تک آ پہنچا‘ جو دعوت کا دن تھا۔ ایک کے بعد ایک شاہی مہمانوں کا طیارہ دعوت کے مقام سے پچاس کلومیٹر دور تعمیر کیے گئے ایئرپورٹ پر اُترنے لگا۔ اس سے قبل دنیا نے کبھی ایک مقام پر اتنی بڑی تعداد میں بادشاہوں، سربراہانِ مملکت، صدور، وزرائے اعظم اور سفیروں کو نہیں دیکھا تھا۔ شاہِ ایران اور اُ ن کی اہلیہ نے ہر آنے والے مہمان کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہا۔اگر اِن مہمانوں کے نام گنوانا شروع کیے جائیں تو کئی صفحات بھرنا پڑیں گے، شاید ہی دنیاکا کوئی قابلِ ذکر ملک ایسا ہو جس کی اِس دعوت میں نمائندگی موجود نہ ہو۔ ہمارے ملک سے یحییٰ خان اِس دعوت میں شریک ہوئے تھے۔ اگلے تین روز تک دعوت کی تمام رعنائیاں اپنے عروج پر رہیں۔پہلے روز رات کو جو پُرتعیش دعوت دی گئی‘ اس کا بندوبست ایک بہت بڑے خیمے میں کیا گیا تھا۔مہمانوں کو ستر میٹر طویل میز پر بے شمار کھانے پیش کیے گئے۔ تقریباً چھ سو مہمانوں کی یہ دعوت لگ بھگ چھ گھنٹوں تک جاری رہی جس سے ہرکسی نے خوب لطف اُٹھایا۔ دعوت کے دوسرے روز فارس کی عظیم سلطنت کے ڈھائی ہزار سالوں کی تاریخ پیش کی گئی جسے مہمانوں کی طرف سے خوب سراہا گیا۔ یہ تماشا ختم ہوا تو مہمانوں کے لیے رقص و موسیقی کا شاندار شو سجا، جس کے بعد ایک مرتبہ پھر بے شمار اقسام کے کھانے سرو کیے گئے۔ تیسرے روز بھی یہی سب کچھ چلتا رہا ۔دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے اِسے ''دعوتوں کی ماں‘‘یا''صدی کی سب سے بڑی تقریب‘‘ جیسے عنوانات دیے۔ تب ٹائم میگزین نے اِس دعوت پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 10کروڑ ڈالر لگایا تھا‘ آج یہ رقم تقریباً 65کروڑ ڈالر بنتی ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہوا جس کی نصف سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہی تھی۔ غربت کا عفریت ہرجگہ ناچ رہا تھا لیکن حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اپنے عروج پر تھیں۔ شاہِ ایران کا خیال تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں دنیا بھر سے آئے ہوئے انتہائی طاقتور لوگوں کو دیکھ کر دوسروں پر اُن کی ہیبت طار ی ہو جائے گی مگر وہ یہ بھول گئے کہ اُن کا اقتدار صرف اُن کے اپنے ملک کے عوام کی وجہ سے تھا۔ ملک کے اندر دعوت کے چرچے عام ہوئے تو ایرانی عوام سکتے میں آگئے۔وقت کے ساتھ ساتھ حالات کی تپش شاہِ ایران تک بھی پہنچنے لگی۔ پھر اس شاندار دعوت کے تین سالوں کے بعد شاہ کی طرف سے اِس پر عوام سے معذرت بھی کی گئی لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ بالآخر 1979ء میں پہلوی خاندان کو ایران چھوڑنا پڑا اور دنیا بھر کے طاقتور حکمران اُن کے کسی کام آسکے اور نہ اُن کی دولت ہی اُنہیں بچا سکی۔ جبر کے سب حربے ناکام ہوگئے اور پھر یہ خاندان دربدر پھرتا رہا۔ انقلابِ ایران کے بعد سے آج تک پہلوی خاندان کو اپنے ملک میں واپس آنا نصیب نہیں ہوسکا۔یہ ہے دنیاوی طاقت کی اصل حقیقت۔ میرے رب کا فرمان ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہیں تو تصور کرتے ہیں کہ اقتدار کا ہما ہمیشہ کیلئے اُن کے سر پر بیٹھ گیا ہے۔ لوگوں کو مارتے ہیں، مخالفین کو سزائیں دیتے ہیں۔اقتدار کیلئے اخلاقیات کو روندتے ہیں‘ لوگوں کا قتل عام ہو تو ہوا میں بازو بلند کرکے اِسے ''عوام کی طاقت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اقتدار کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں‘ دن رات دولت اکٹھی کرنے میں لگے رہتے ہیں لیکن... جب وقت کی چکی پیسنا شروع کرتی ہے تو سب کچھ آنِ واحد میں ملیا میٹ ہوجاتا ہے لیکن ہم کہاں سمجھنے والے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved