ہم زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ زندگی بسر کرنے کے لیے یہ لازم ہوتا ہے۔ تو پھر کیوں نہ ایسا ہو کہ ہم ہر کام خوش دِلی سے کریں، زیادہ سے زیادہ لطف کشید کرتے ہوئے زندگی بسر کریں؟ رواقی فلسفہ کہتا ہے کہ انسان کو کسی بھی صورتِ حال میں مایوس ہونا چاہیے نہ ہمت ہارنی چاہیے۔ ''رواقیت‘‘ (Stoicism) سکھاتی ہے کہ کس طور انتہائی مشکل حالات میں بھی انسان کی ہمت برقرار رہنی چاہیے۔ ہم زندگی بھر متنوع حالات کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی معاملات اچانک ہمارے حق میں ہو جاتے ہیں‘ تب بہت کچھ بہت آسانی سے ہو جاتا ہے۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ ایسا شاذ ہی ہوتا ہے۔ عام طور پر پریشان کن صورتِ حال ہی ہماری زندگی سے ٹکراتی ہے۔ رواقی فلاسفہ (Stoics) کہتے ہیں کہ ہر مسئلہ ہمیں کسی نہ کسی حد تک مایوسی میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر ہم مایوس ہو رہیں تو معاملات بگڑتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلے کو چیلنج کے روپ میں لینا چاہیے تاکہ زندگی کا سفر بطریقِ احسن جاری رکھا جاسکے۔
ولیم بی اِرون کی کتاب ''اے گائیڈ ٹو دی گڈ لائف‘‘ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کسی بھی مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں کس طرح اپنے حواس بحال رکھنے چاہئیں اور کام کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ وصف قدرتی طور پر پایا جائے‘ یہ لازم نہیں۔ ہم میں سے بیشتر کو یہ وصف پیدا کرنا پڑتا ہے۔ رواقیت کے مبلغین اور اُس پر عمل کرنے والے انتہائی پیچیدہ مسائل کو بھی ڈھنگ سے حل کرنے کا اپنا اُسلوب اور انداز رکھتے ہیں۔ اُن کی زندگی میں مجموعی طور پر اچھا خاصا سکون پایا جاتا ہے۔ وہ خود بھی پُرسکون رہتے ہیں اور ماحول کو بھی پُرسکون رکھتے ہیں۔ ہر انسان ایسی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے جو بھرپور ہو اور دوسروں کے لیے مثال کا درجہ بھی رکھتی ہو۔ یہ خواہش محض سوچنے سے پوری نہیں ہو جاتی۔ زندگی کو کسی قابل بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ بھرپور زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ زندگی کے لیے کوئی نہ کوئی بہت بڑا مقصد یا ہدف متعین کیا جائے۔
ہمیں زندگی بھر پیاروں کا ساتھ نصیب ہوتا رہتا ہے۔ جو ہمیں چاہتے ہوں اُن کے ساتھ ساتھ جینے میں بہت لطف محسوس ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ہمیں رک کر یہ سوچنا چاہیے کہ یہ ساتھ ہمیشہ کا نہیں اور جو لطف ہمیں محسوس ہو رہا ہے‘ وہ بھی ہمیشہ نہیں رہے گا۔ جو مسرت ہمیں میسر ہو اُس کے ختم یا گم ہو جانے کا سوچنے سے ہم اُس کے حوالے سے اپنی سوچ کو نیا رخ دیتے ہیں اور اُسے زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ معروف فلسفی ایپکٹیٹس (Epictetus) نے کہا تھا کہ بیشتر معاملات میں ہماری پسند و ناپسند کا تعلق بنیادی طور پر اس امر سے ہے کہ متعلقہ معاملات کا اصل تعلق ہماری داخلی زندگی سے ہے یا خارجی زندگی سے۔ ہم اپنے وجود کے اندر بھی رہتے ہیں اور باہر بھی۔ ایک زندگی ہماری اپنی ہوتی ہے اور ایک وہ ہوتی ہے جو ماحول کے مطابق بسر کرنا پڑتی ہے۔ باطنی اور خارجی معاملات سے متعلق متوازن رویہ ہمیں بہت کچھ دے سکتا ہے۔ اولوالعزمی کی سطح بلند یا برقرار رکھنے کے لیے سینیکا (Seneca) نے ہمیں مشورہ دیا ہے کہ یومیہ معاملات یا معمولات پر باقاعدگی سے غور کرنے کی عادت پروان چڑھائی جانی چاہیے تاکہ اپنی خامیوں کا اندازہ لگانے میں مدد ملے۔ اگر آپ نے مجموعی طور پر پوری زندگی کے حوالے سے کوئی بڑا مقصد یا ہدف مقرر نہیں کیا ہے تو اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ زندگی کو درست راہ پر گامزن کرنے والے فلسفے سے بہت دور ہیں۔
قلب و نظر کی حقیقی حالتِ تسکین یہ ہے کہ غصہ، اشتعال، بے چینی اور دیگر منفی جذبات نہ پائے جائیں اور حقیقی مثبت جذبات، مثلاً مسرت، موجود ہوں۔ اینٹستھینس (Antisthenes)نے کہا کہ اپنے دشمنوں پر توجہ دیجیے کیونکہ آپ کی خامیوں، کمزوریوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کو سب سے پہلے وہی دریافت کریں گے۔ رواقی ہر دستیاب چیز سے بھرپور استفادہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی مدد سے زندگی کا معیار بلند کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک کسی بھی انسان کی خوبیوں کا مدار کسی بھی اور چیز کے مقابلے میں اِس بات سے زیادہ ہے کہ ایک انسان کی حیثیت سے اُس نے روئے زمین پر اپنا کردار ادا کرنے میں کس حد تک دلچسپی لی ہے اور کہاں تک کامیاب رہا ہے۔ سینیکا نے کہا کہ اگر کوئی شخص بُرائیوں اور خرابیوں کا پہلے سے درست اندازہ لگالے تو اُن کے منفی اثرات بہت حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مارکَس اوریلیس (Marcus Aurelius)نے کہاس کہ اپنے ہر دن کا آغاز اس سوچ کے ساتھ کیجیے کہ آج میرا سامنا ناشکرے پن، بے عقلی، بے صبری، خود غرضی اور بدخواہی سے ہوگا اور اس کا سبب یہ ہے کہ مجھے تکلیف پہنچانے والا شخص اچھے اور بُرے کا فرق نہیں جانتا۔
بیشتر انسان زندگی بھر ناخوش اس لیے رہتے ہیں کہ اُن کی پیاس کبھی نہیں بجھتی۔ اچھی خاصی محنت کرنے کے بعد جب انہیں صلہ ملتا ہے تو وہ اس صلے کی مدد سے کچھ حاصل کرکے خوش ہونے کے بجائے تھکن اور بیزاری محسوس کرنے لگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اُن کی طبیعت کا عدم توازن بڑھتا ہے۔ محنت کے بعد بھی خوشی محسوس نہ کرنے پر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہدف چھوٹا تھا جس کے حصول سے بھی کچھ نہ ہوا۔ حقیقی اور دیرپا مسرت کا حصول یقینی بنانے کا ایک معیاری طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم اُن اشیا کی خواہش محسوس کرنے کا ہنر سیکھیں جو ہمیں پہلے سے میسر ہیں۔ رواقی فلسفی کہتے ہیں کہ اگر ہم مسرت چاہتے ہیں تو ہمیں اس تصور کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہوگی کہ جو کچھ بھی ہمیں ملا ہے وہ ہم سے چھن چکا ہے یا چھینا جاچکا ہے۔ جو کچھ اس وقت ہمارے پاس ہے اگر وہ نہ ہو تو ہماری زندگی کیسی ہوگی؟ بس یہی سوچ کر شکر گزاری کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ سینیکا نے کہا کہ ہمیں اس تصور کے ساتھ جینا چاہیے کہ جن سے ہمیں بہت محبت ہے وہ سب لوگ ہمیشہ کے لیے تو کیا، طویل تر مدت کے لیے بھی ہمارے ساتھ نہیں رہ سکیں گے۔ جب انسان کسی بھی چیز یا انسان سے محروم ہونے کے لیے نفسی طور پر تیار ہوتا ہے تب وہ زیادہ مستحکم ذہن کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔
جو لوگ ہر لمحے کو زندگی کا آخری لمحہ سمجھ کر گزارتے ہیں وہ قلب و نظر کے استحکام کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اُن کے افکار و اعمال میں توازن بھی ہوتا ہے اور مطابقت بھی۔ حقیقت پسندی یہی ہے کہ ہم ہر وقت کسی بھی صورتِ حال کے لیے تیار رہیں۔ ہمیں روزانہ دن کے مختلف اوقات میں کچھ دیر ٹھہر کر سوچنا چاہیے کہ ہم اِس دنیا میں تادیر نہیں رہیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارا آخری دن ہو۔ جب ہم یہ سوچ لیتے ہیں کہ ہمیں اِس دنیا میں تادیر نہیں رہنا تب ہم اپنی صلاحیت اور سکت کے مطابق بھرپور زندگی بسر کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ رواقی فلسفی جب زندگی کے حوالے سے کچھ سمجھانے اور شکر گزاری کا جذبہ پیدا کرنے کی نصیحت کی طرف آئے گا تو پہلے یہ کہے گا کہ اگر ہمارا گلاس آدھا بھرا ہوا ہو تب بھی اس بات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ مکمل خالی نہیں اور پھر یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرے گا کہ اگر گلاس خالی ہو تب بھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ ٹوٹا ہوا نہیں یا کسی نے چُرا نہیں لیا!
رواقی فلسفی کہتے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ مشکل حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بات غلط نہیں مگر اِس تصور کو ہر وقت ذہن پر سوار رکھنے کی ضرورت نہیں۔ جو کچھ بھی میسر ہے اس کے چھن جانے یا اس سے محروم ہو جانے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے سے کہیں اہم یہ ہے کہ ہم اُس سے بھرپور استفادہ کریں جو کچھ ہمارے پاس ہے۔ اُس سے محروم ہو جانے کا تصور اور اُس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا زندگی کو بہتر انداز سے بسر کرنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ رواقی فلسفی کہتے ہیں کہ جب ہم کسی بھی بُری صورتِ حال کے لیے تیار رہتے ہیں تو اُس صورتِ حال کے ظہور پذیر ہونے پر زیادہ دکھ نہیں ہوتا۔