تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     16-10-2021

اصلاحات ضروری مگر…

اصلاحات اور احتساب کا نعرہ تقریباً ہر حکومت لگاتی رہتی ہے۔ پھر اصلاحات بھی ہوتی ہیں اور احتساب بھی لیکن المیہ یہ ہوتا ہے کہ اصلاحات اکثر اوقات ریاست کے بجائے حکومت کے مفاد میں ہوتی ہیں اور اسی طرح احتساب بھی ریاست کو فائدہ پہنچانے کے بجائے سیاسی انتقام کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ انہی حالات کی وجہ سے ادارے کمزور ہوتے ہیں اور پھر اپنی ساکھ اور رٹ کھو دیتے ہیں۔ ساکھ کھونے کی صورت میں یہ ادارے کرپٹ اشرافیہ کیلئے تو خوشی اور مفاد کا سامان مہیا کرتے ہیں لیکن عوام کیلئے اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ کمزور ادارے اور ان میں اصلاحات کا نہ ہونا یا غلط اصلاحات کا ہونا کرپٹ لوگوں کے مفاد میں جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ اداروں کی کمزوری کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ امریکہ کو 232 سال پہلے جارج واشنگٹن کی صورت میں پہلا صدر ملا تھا جس نے دس سال صدارت کی‘ اور آج 232 سال بعد صدر بائیڈن امریکہ کے 46واں صدر ہیں، جبکہ پاکستان کو آزاد ہوئے صرف 74 سال ہوئے ہیں لیکن عمران خان ہمارے 22ویں وزیر اعظم جبکہ صدر علوی 17ویں صدر ہیں۔
ان 74 سالوں میں تقریباً 35 سال آمریت کے نذر ہوگئے، جن میں صرف 4 آمروں نے پاکستان کے سیاہ و سفید کے فیصلے کیے۔ باقی 39 سالوں میں ایک بھی وزیراعظم نے اپنی مقررہ مدت پوری نہیں کی۔ آج تک پاکستان میں ایک ایسا الیکشن نہیں ہوا جس پر دھاندلی زدہ ہونے کے الزامات نہ لگے ہوں۔ ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں دیکھی جس نے الیکشن میں اپنی ہار تسلیم کی ہو۔ پاکستان میں صحیح معنوں میں اصلاحات اور احتساب کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی اصلاحات جن میں حدود و قیود واضح ہو جائیں اور ایسا احتساب جس میں اگر ضروری ہو تو سزائیں دی جائیں لیکن عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ یہ سب کچھ انہی کی بھلائی کیلئے ہو رہا ہے اور عوام ہی اس سارے عمل کا محور ہیں‘ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم پاکستان سے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بھی ہم سے ہے۔ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔
آج کل حال یہ ہے کہ تقریباً 21 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں جن کو سننے کیلئے پورے ملک میں ججوں کی تعداد 3 ہزار سے تھوڑا اوپر ہے۔ سب سے بڑی عدالت میں 51 ہزار کیسز زیر سماعت ہیں جن کو سننے کیلئے 17 جج صاحبان ہیں۔ ان اعدادوشمار سے واضح ہے کہ عوام کو کتنا انصاف مل رہا ہے اور جو مل رہا ہے اس کی رفتار کیا ہے۔ ہمارے ہاں بندہ پانچ سال تک ایم بی بی ایس کرتا ہے اور پھر سی ایس ایس کرکے مثال کے طور پر اسسٹنٹ کمشنر لگ جاتا ہے، یا کوئی انجینئر پولیس افسر بن جاتا ہے۔ وہ بعد میں فنانس یا پٹرولیم یا کسی اور محکمے سے سیکرٹری کے حیثیت سے ریٹائر ہوتا ہے۔ اب آپ ذرا اس کی کیریئر کی لائن دیکھ لیں۔ ایم بی بی ایس کیا، اسسٹنٹ کمشنر لگ گیا‘ اور آخرمیں سیکرٹری فنانس ریٹائر ہو گیا۔ ایسے افسران آج کل بدقسمتی سے فیلڈ میں کم اور سوشل میڈیا پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر صاحبان مریضوں کے پاس کم اور روڈز پر احتجاج کرتے زیادہ نظر آتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز اپنے سینئرز کو سبق پڑھانے کیلئے بیتاب ہیں۔ بعض قانون دان ججوں سے ہرحال میں اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی پر مشتعل ہو جاتے ہیں۔ جس طرح قانون دان ایک ہسپتال پر حملہ آور ہوئے وہ کہاں سے ان کا کام لگ رہا تھا؟ مسیحا بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ دونوں کسی بھی معاشرے کے سب سے مہذب اور تعلیم یافتہ طبقے مانے جاتے ہیں لیکن دونوں کا حال آپ کے سامنے ہے۔
ہماری پولیس امیروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے کتراتی ہے۔ کراچی میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما کی وہ ویڈیو آپ نے بھی دیکھی ہوگی جس میں ایک ایس ایچ او صاحب دم بخود بیٹھے ہیں اور رہنما صاحب گرج برس رہے ہیں۔ میں نے سندھ میں ایک پولیس افسر کو کھڑے جبکہ اس کی کرسی پر ایک مقامی جاگیردار کو بیٹھے بھی دیکھا ہے۔ اسی پولیس کا عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں۔ عوام تھانے کا رخ کرنے سے گھبراتے ہیں اور اسی وجہ سے زیادہ تر کیسز رجسٹر بھی نہیں ہوتے کہ کہیں الٹا مظلوم کو ہی کسی کیس میں ملوث نہ کردیا جائے۔ چند روز پہلے کی بات ہے‘ کراچی کی ایکسائز پولیس نے ایک بندے کو اس کے گھر سے اٹھا لیا اور کئی گھنٹے محبوس رکھا۔ بعد میں اس کے اہلخانہ نے اس کے اغوا کی رپورٹ درج کرا دی اور پھر سٹی پولیس نے اس بندے کو بازیاب کرایا۔ پتا چلا کہ اس پر بھنگ رکھنے کا الزام لگا دیا گیا تھا۔ اب ایکسائز والے کسی بندے کو بھنگ کے الزام میں کیسے پکڑ سکتے ہیں؟ اس کام کیلئے پولیس ہے اینٹی نارکوٹکس والے ہیں۔ چند روز قبل اسلام آباد میں پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ شوکت علی نے پارلیمان کی ایک کمیٹی کو بتایاکہ اسلام آباد میں آٹھ پولیس اہلکاروں کو گداگروں کے گینگ کی سربراہی یا اس میں شامل ہونے کے الزام میں برطرف کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب پولیس کے ایک حوالدار صاحب‘ جن کی عمر 54 سال ہے‘ نے اپنے اعلیٰ عہدیداروں کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنے ہی محکمے سے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس خط کے کچھ اقتباسات آپ کی نذر کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ''جب ہم بھرتی ہوئے تب سے ہی پولیس میں ریفارمز کی باتیں ہو رہی ہیں۔ آج ہم زندگی اور ملازمت کی شام کے قریب ہیں لیکن وہی نفری کی کمی، اسلحہ خراب، گاڑیاں ٹوٹی ہوئی اور گھر سے 35 کلومیٹر دور تبادلے۔ اپنے جیب سے پٹرول ڈال کر گشت کرو، ریڈ کیلئے مدعی سے گاڑی لو، افسران کی جھڑکیں، کام کرو تب زیادہ ذلیل نہ کرو تب تو ہونا ہی ہے۔ عدالتی مفرور کو پکڑنے کیلئے جعلی رپورٹ لکھو۔ ویلفیئر کا نام کبھی ماتحت نے نہیں سنا۔ قرضے کے درخواست خارج ہو جاتی ہے ۔ میڈیکل بل پاس نہیں ہوتا۔ شہدا کی بیوائیں دفتروں کے چکر کاٹ کاٹ کر ذلیل ہوتی ہیں۔ کلرک بھیڑیے کی طرح انہیں دیکھتے ہیں۔ افسران ماتحتوں کو غلیظ گالیاں دیتے ہیں۔ ہم بے ضمیر بن کر سنتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ بابا جی نئیں کرنی تے چھڈ دیو۔ انہیں کیا پتا یہ بابا دس بندوں کا واحد کفیل ہے۔ آخر کب تک یہ سسٹم چلے گا، کون آئے گا، کب آئے گا خمینی جو انقلاب لائے گا‘‘۔ حوالدار صاحب نے جس طرح ہماری پولیس کا نقشہ کھینچا ہے شاید ہی کوئی کھینچ سکے۔
اب ذرا تعلیم کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مختلف طبقوں کیلئے مختلف تعلیم ہے۔ بڑے سکول میں پڑھے ہوئے بچوں کو زیادہ مواقع ملتے ہیں اور آخر میں وہی ان عام عوام پر کسی نہ کسی طرح سے سرکاری طور پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ جس افسر یا منتخب نمائندے کے گھر میں اس کی ذاتی 1700 سی سی موٹر سائیکل کھڑی ہو وہ بندہ 70 سی سی موٹر سائیکل والے یعنی عام عوام کے مسائل کا کس طرح اندازہ لگا سکتا ہے؟ اصلاحات ضروری ہیں۔ عام عوام کی حالت تب تک تبدیل نہیں ہو گی جب تک اشرافیہ میں قانون کا ڈر پیدا نہیں ہوتا۔ چین نے سینکڑوں بڑے بڑے لوگوں کو سزائیں دے کر یہ مقام حاصل کیا ہے۔ یہ مقام دور سے تو بہت خوبصورت ہے لیکن وہاں تک پہنچنے کیلئے مضبوط لوگوں کو مضبوط فیصلے کرنا ہوں گے۔ ایسے فیصلے جن کے زد میں اگر کوئی بڑا بندہ آجائے تو وہ بھی سمجھ جائے کہ اب اس کا بچنا ممکن نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved