تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     16-10-2021

کیا ’سسٹم‘ کام کر رہا ہے؟

افغانستان میں امریکہ کی شکست، اور چین و روس کی طاقت میں اضافے کے ممکنہ طور پر موجودہ 'قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ اور مختلف ممالک میں اس سے متعلقہ نظاموں پر دیرپا اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ 20 سال کی جنگ، اور 2 ٹریلین ڈالر سے زائد خرچ کرنے کے باوجود، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی افغانستان میں پائیدار جمہوری ادارہ قائم نہیں کر سکے۔ کیوں؟ کیونکہ جو نظام امریکیوں نے افغانستان پر مسلط کرنے کی کوشش کی تھی، اس کی جڑیں مقامی لوگوں کی ثقافتی اور معاشرتی حقائق میں پیوست نہیں تھیں۔ یہ سب کچھ مغرب کی انگریزی درسی کتب سے لیا گیا تھا... واحد ایگزیکٹو، امریکی صدارت کی طرح؛ ایک قانون ساز فورم‘ جو برطانوی پارلیمانی روایت سے اخذ کیا گیا‘ ایک عدلیہ جو قانونی تشریحات کے مغربی اصولوں کی پیروی کرتی ہے‘ اور ایک ایگزیکٹو مشینری جس نے برطانوی راج کے نوآبادیاتی نظام کی تقلید کی کوشش کی۔
اس طرح افغانستان ایک انتباہی کہانی ہے: وہ 'نظام‘ جن کی جڑیں مقامی ثقافتی، معاشرتی اور مذہبی حقائق میں پیوست نہیں ہوتی، زیادہ دیر تک کام نہیں کرسکتا‘ چنانچہ وہ ممالک (پاکستان سمیت)‘ جنہوں نے اپنے 'نظام‘ مغرب سے مستعار لیے‘ انہیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے: کیا ہمارا 'نظام‘ کام کر رہا ہے، یا ہمیں اپنی آئینی جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر از سر نو غور کی ضرورت ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ''آئینی جمہوریت‘‘ کے مقصد کو بیان کرنے کی ایک عاجزانہ کوشش سے آغاز کرتے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ میں اگرچہ قانونی فلسفیوں اور سیاسی مفکرین نے ایک آئینی فریم ورک کے مکینکس طے کرنے میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے، لیکن اس بارے میں ایک وسیع اتفاق رائے بھی موجود ہے کہ آئینی جمہوری 'نظام‘ کو کیا کرنا چاہیے: یقینی بنانا کہ لوگوں کی اجتماعی مرضی بروئے کار آئے اور نظام عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق مسائل پر سیاسی، قانونی اور انتظامی طاقت کی راہداریوں میں تاثرات کی تلاش کرے۔ اس مقصد کے فطری اصول کے طور پر، فعال آئینی جمہوریتوں کو قانونی سیف گارڈز تیار کرنے چاہئیں جو منتخب نمائندوں کو عوامی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کریں‘ جو نظام عدل سے مجرموں کو سزا دینے‘ بیگناہ کی دادرسی کا مطالبہ کریں اور جو ایگزیکٹو اتھارٹی کو یہ اختیار دیں کہ وہ بغیر امتیازی سلوک اور بغیر خوف اور جانبداری کے عوام کی خدمت کرے۔
آئیے ان جمہوری اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کے 1973 کے آئین کے تحت قائم جمہوری نظام کا جائزہ لیں۔ مقننہ سے شروع کرتے ہیں۔ آئیے تمامتر تعصبات سے بالاتر ہوکر پوری ایمانداری سے اپنے آپ سے پوچھیں: کیا ہمارا 'نظام‘ ایسے لوگوں کو منتخب کرتا ہے جو حقیقی معنوں میں عوامی سوچ کی نمائندگی کرتے ہوں، اور کیا یہ 'نظام‘ ان منتخب نمائندوں کو عوامی مفاد میں کام کرنے پر مجبور کرتا ہے؟ اس مقصد کیلئے، کیا ہمارا انتخابی نظام ایک برابری کا میدان فراہم کرتا ہے، جو ہر حلقے سے انتہائی اہل اور مستحق امیدوار کو منتخب کرنے کیلئے بنایا گیا ہو؟ یا، اس کے بجائے، کیا یہ ایک ایسا عمل بن گیا ہے جس کے ذریعے امیر اور طاقتور اپنا غلبہ قائم رکھتے ہیں؟ کرپشن کے الزامات اور کئی دہائیوں کی عوامی بدانتظامی کے باوجود وہی افراد کیوں اپنے اپنے حلقوں سے منتخب ہوتے رہتے ہیں؟ نئی قیادت کیوں سامنے نہیں آتی؟ سیاسی حلقے، دیگر مادی چیزوں کی طرح، خاندان کے افراد کے درمیان موروثی لقب کے طور پر کیوں منتقل ہو جاتے ہیں؟ ہمارا 'سسٹم‘ ادارہ جاتی چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے اس طرح کی زیادتیوں سے کیوں تحفظ فراہم نہیں کرتا؟
ان تمام سوالات کا جواب سادہ ہے: ہمارے انتخابی نظام میں کامیابی امیدوار کے مالی اور جسمانی مسلز کا اظہار ہوتی ہے۔ ہمارے نظام میں اللہ دتہ اور اس کے خاندان کیلئے سندھ کے وڈیروں، بلوچستان کے سرداروں، پنجاب کے چوہدریوں اور خیبر پختونخوا کے ملکوں کی مالی طاقت (اور مسلح گروہوں) کے خلاف لڑنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ایسے (طاقتور) افراد نہ صرف اپنے متعلقہ حلقوں میں کسی بھی ممکنہ مدمقابل کو شکست دے سکتے ہیں بلکہ وہ انتخابی عمل کے دوران ان سے زیادہ خرچ کرکے انہیں ناکام بھی بنا سکتے ہیں۔ اور انتخابی ایکٹ 2017 کے سیکشن 132 (جو یہ شرط عائد کرتا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں کسی امیدوار کی جانب سے 1.5 ملین روپے سے زیادہ خرچ نہیں کیے جائیں گے) کے تحت مالی مہم کی سخت پابندیوں کے باوجود ہمارے 'نظام‘ نے امیدواروں پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی۔
انتظامیہ کی بات کی جائے تو کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہماری ریاستی مشینری کا خدمات کی فراہم کا میکنزم بغیر کسی خوف یا حمایت کے کام کرتا ہے؟ کیا تھانہ، متعلقہ پولیس قوانین کی تمام دفعات کے باوجود، اللہ دتہ کے ساتھ مقامی سیاسی رہنما جیسا ہی سلوک کرتے ہیں؟ کیا پٹواری؟ کیا ڈی ایچ کیو ہسپتال؟ یا ڈسٹرکٹ کمشنر؟ کیا پبلک ایجوکیشن 'سسٹم‘ واقعی اللہ دتہ کے بچوں کو متحرک جدید دنیا کے سکولوں کے بچوں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے؟ کیا 'سسٹم‘ لاوارث بچوں کیلئے کچھ کرتا ہے؟ یا بے گھر افراد کیلئے؟ یا ان ہزاروں عورتیں اور بچوں کیلئے جن پر ہر سال جنسی حملے ہوتے ہیں؟ کیا ہمارا 'سسٹم‘ تھر کے بچوں کی پروا کرتا ہے، جو پچھلے سال خوراک اور پانی کی کمی سے مرگئے تھے؟
اس 'نظام‘ کا انتہائی افسوسناک مظہر شاید نظام عدل کے حوالے سے ہماری منصوبہ میں جھلکتا ہے۔ یقیناً اچھے جج بھی ہیں، اور قیمتی علمِ قانون بھی‘ لیکن، مجموعی طور پر، کیا 'نظام‘ واقعی اللہ دتہ کو انصاف فراہم کرنے کیلئے کام کر رہا ہے؟ یا اس کے بجائے، یہ اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ طاقتوروں اور دولتمندوں کو سہولت فراہم کرتا ہے۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نظام عدل ویسے ہی کام کر رہا ہے، جیسا ہونا چاہیے، جب اللہ دتہ دہائیوں جیل میں بند رہے جبکہ کسی بڑے کی ضمانت ایک ہفتے میں ہو جائے۔ کیا یہ نظام ان لوگوں کے لیے کام کر رہا ہے جو لیاری میں عزیر بلوچ کی دہشت کے تحت رہتے تھے؟ کیا اس نظام نے ان لوگوں کے لیے کام کیا جو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلا کے حملے کے دوران مارے گئے؟ اسے قبول کرنا جتنا بھی مشکل ہو لیکن سچ یہ ہے کہ یہ 'نظام‘ کام نہیں کر رہا ہے۔ ہم اس کے لیے بہانے تراش سکتے ہیں‘ جواز پیش کر سکتے ہیں۔ شاید ہمارا آئین مسئلہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مسئلہ کسی خاص سیاسی جماعت یا کچھ اہم افراد یا ثقافت، یا وقت، یا لوگوں کا ہو۔ شاید ہر ایک پر الزام لگایا جائے۔ لیکن، بدقسمتی سے، نظام کام نہیں کر رہا ہے۔ یہ مستحق اور تازہ سیاسی قیادت کی پرورش نہیں کرتا۔ یہ ان لوگوں کو بنیادی ریاستی خدمات فراہم نہیں کرتا جو ان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ اور یہ بدکاروں کو سزا نہیں دیتا اور نہ ہی بے گناہوں کی اشک شوئی کرتا ہے۔
ہمیں پاکستان میں نئے نظام کی ضرورت ہے یا کم از کم، ہمیں موجودہ میں اس طرح ترمیم کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے آئینی پیراڈائم میں بنیادی تبدیلیاں لائے۔ ہم اپنی مرضی سے ایسا کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں یا ہم انتظار کر سکتے ہیں کہ کوئی اللہ دتہ ہمیں مجبور کر دے۔ اور انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی لوگوں نے 'نظام‘ کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی‘ اس سے تباہی آئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved