تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     16-10-2021

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

نیام ایک اور تلواریں دو ‘ یہ کیسے ممکن ہے ؟حکومت ایک اور سربراہ حکومت دو ‘یہ انہونی کیونکر ہو سکتی ہے ؟ انسان ایک اور چہرے دو‘ کاش! یہ بھی ناممکنات کا کھیل ہوتا۔مگر افسوس! صد افسوس ! ایسا ہرگز نہیں ہے ۔دو چہرے ہر دم ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک چہرہ سچ کا اور دوسرا جھوٹ کا ۔ ایک حق کا اور دوسرا باطل کا ۔ ایک ہاں کا اور دوسرا ناں کا ۔ ہم ایک سانس میں مقتول سے ہمدردی بھی کرتے ہیں اور دوسری سانس میں قاتل کی طرفداری بھی ۔ ہم ایک لمحے میں آئین و قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں اور دوسرے لمحے لا قانونیت کی حمایت ۔خداجانے ہم ایسے کیوں ہیں ؟
سجدہ خالق کو بھی‘ ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
ایک نوٹیفکیشن کے معاملے نے بطور قوم ہماری قلعی کھول دی اور ہمارے اندر کا کھوکھلا پن عیاں کردیا ۔ ہم کتنے جمہوریت پسند ہیں اور کتنے آئین و قانون کے رکھوالے ؟ اب یہ معمہ حل طلب نہیں رہا۔ سارے راز فاش ہوچکے ۔ تمام گرہیں کھل چکیں۔سوشل میڈیا پر سارے جمہوریت پسندبغلیں بجا رہے ہیں کہ چلو حکومت کی لڑائی تو ہوئی ۔کسی کو یہ خیال خوشی کا سامان مہیا کررہا ہے کہ لڑائی وقتی نہیں‘ آگے چل کر حکومت کے حصے میں کچھ اور مشکلات بھی آئیں گی ۔ کوئی اس لیے بھنگڑے ڈال رہا ہے کہ اب ایک پیج کی گردان پڑھی جائے گی نہ سب اچھا ہے کا نعرہ بلند ہوگا ۔ہر کسی کی اپنی اپنی خواہشیں ہیں اور اپنے اپنے مقاصد ۔ کسی کو جمہوریت کی فکر ہے اور نہ جمہوری اقدار کا خیال ۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم کسی کے بغض میں زندگی بھر کے اصولوں کو سرِ عام پتھر کیسے مار سکتے ہیں؟ کسی اور کے لیے کھدتا گڑھادیکھ کر ہم ڈھول کیسے بجا سکتے ہیں ؟کیا ہمیں اندازہ ہے کہ یہ کتنے دکھ کی گھڑی ہے ؟ کیا یہ رویہ جمہوری قوموں کے شایانِ شان ہے ؟
عام آدمی کیا ‘ ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتوں نے بھی تو کچھ مختلف نہیں کیا ۔ مریم نواز نے حکومتی امور چلانے کو'' جادو ٹونے‘‘ اور'' طوطا فال‘‘ سے تشبیہ دی تومولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاستدان نے وزیراعظم کے اس اختیار کو صرف '' حُسن‘‘ کی حد تک قرار دیا ۔کیا پی ڈی ایم کے سربراہ بتائیں گے کہ اپوزیشن کرتے وقت کوئی اصول کوئی ضابطہ نہیں ہوتا ؟کیا حکومت کسی وقت بھی تنقید سے مبرا نہیں ہوتی ؟ کیا سیاستدان کے لیے سیاست ہی حرفِ آخر ہوتی ہے ؟مولانا اگر پی ڈی ایم کا منشور ہی پڑھ لیں تو انہیں اندازہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں ؟ پی ڈی ایم کا تو مقصد ہی سویلین بالادستی کومنوانا اور آئینی حدود کا احترام کروانا ہے ۔مگرشاید انہیں وزیراعظم سے ''محبت‘‘ ہی اتنی ہے کہ انہیں اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں سے منہ پھیرنا پڑرہا ہے۔ کوئی جائے اور مولانا صاحب سے پوچھے کہ ایک طرف آپ حکومت کو عوام کی نمائندہ حکومت نہیں سمجھتے اور دوسری طرف حکومت کے سربراہ کے اختیارات پر طنز کرتے ہیں ۔کیا عمران خان نے ہمیشہ وزیراعظم رہناہے ؟ کیا مسلم لیگ (ن) اور جے یوآئی (ف) کو دوبارہ موقع نہیں ملنا؟ اگرحکومت دوبارہ آسکتی ہے تو اتنی حدیں پار کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ کل کو ایسا وقت آپ پر بھی آسکتا ہے تو پھر آپ کیا کریں گے ؟کیا الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا آپ کے پرانے بیانات نہیں چلائیں گے ؟ کیا اس وقت آپ بھی ''یوٹرن عظیم لوگ لیتے ہیں‘‘ کہہ کر مکر جائیں گے ؟ اپوزیشن یاد رکھے وقت گزر جاتا ہے رویے یاد رہتے ہیں۔ پڑوس میں آگ لگی ہو تو دیکھ کر قہقہے لگاتے ہیں نہ لاتعلقی برتتے ہیں ۔ آگ کب پڑوسی کے گھر کو راکھ کرکے آپ کے دامن سے لپٹ جائے ‘ کوئی پتہ نہیں چلتا ۔مت بھولیں ‘یہ وقت آگ بجھانے کا ہے جلتی پر تیل چھڑکنے کا نہیں۔ ثاقب لکھنوی کا شعر قابل ِغور ہے ؎
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی پارلیمنٹ کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ حکومت کے وجود پرآنچ آئے تو تپش پارلیمنٹ تک جاتی ہے اور پھر کیسے ممکن ہے کہ اپوزیشن اس کی حدت سے محفوظ رہے ۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ موقع پرستی کو افضل مانتی ہے ۔ دشمن کو بے حجاب کرنے کے لیے انہیں اپنے ہی صحن کی دیوار گرانی پڑے تو باز نہیں آتے ۔اقتدا رکے حصول کے لیے ازلی دشمن کو مسیحا ماننا پڑے توبھی گریز نہیں کرتے۔آج سے نہیں‘ سیاستدانوں کا یہ وتیرہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ ملک میں جب جب مارشل لاء لگاہمارے سیاستدان ہی غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار بنے ۔ اگریہ ایساکرنے سے باز رہتے تو یقین مانیں غیر آئینی کاموں کا راستہ خودبخود بند ہو جاتا ‘مگر اتنی دانائی اور سیاسی بصیرت کہاں سے آئے؟ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو کنونشن مسلم لیگ اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیاستدان ان کے بازوبن گئے۔ضیا الحق نے مارشل لاء لگایا تو پیپلزپارٹی کی نفرت اور اقتدار کے لالچ نے مسلم لیگ کو ایک بار پھر آمریت کے قریب کردیا ۔ میاں نواز شریف سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک کتنے ہی سیاستدان اس دور کی پیداوار ہیں ۔ اگر سیاسی جماعتیں ایک دوسری کی ضد میں ضیا الحق کو اپنا گرو نہ مانتیں تو ان کا اقتدار گیارہ سال تو کجا گیارہ ماہ نہ چلتا ۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت ختم کی تو مسلم لیگ کی اکثریت پرویز مشرف کی ہم راہی بن گئی ۔پھر پیپلزپارٹی میں سے''محب وطن‘‘ الگ ہوئے اور شریکِ اقتدار بن گئے۔ بات یہیں پر نہ رکی بلکہ محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا اور ملک واپس آگئیں ۔ہمارے سیاستدان اقتدار کے جھولے پر جگہ بنانے اور اپنے مخالفین کو نظام سیاست سے دور کرنے کے لیے اصولوں کا گلا گھونٹتے رہے ۔ انہیں اگر جمہوریت کی لاج ہوتی تو یہ بار بار ڈکٹیٹرشپ کی چھتری تلے اکٹھے نہ ہوتے۔ یہ اپنے اصولوں کی پاسداری کرتے اور آئین و قانون کو بے آبرو ہونے سے بچا تے ۔
آپ کو جمہوریت کی اصل شکل دیکھنی ہو تو امریکہ اور برطانیہ کو چھوڑیں بھارت اور بنگلہ دیش چلے جائیں ۔ آپ کو واضح فرق محسوس ہوگا۔ وہاں جمہوریت اور جمہوری اداروں سے محبت پارٹی ڈسپلن اور شخصیات سے بلند ہوکر کی جاتی ہے ۔دونوں ملکوں کی سیاسی جماعتیں غیر اعلانیہ طورپر طے کرچکی ہیں کہ جب بھی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں میں تصادم کا خطرہ ہوگا جمہوریت پسندوں کو اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا ۔مگر ہمارے ہاں کی ریت مختلف ہے‘ ابھی کوئی ایسی بات بھی نہیں ہوئی اور مخالفین نے توپوں کا رخ جمہوری اداروں کی طرف کر بھی لیا ہے ۔کوئی دعائیں مانگ رہا ہے تو کوئی طاقتور حلقوں کو اپنی بے لوث محبت کا یقین دلا رہا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا جمہوری چہرہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے ۔ کا ش ! ہم ذاتیات سے بالاتر ہو سکتے ۔ کاش ! ہم آئین کی بالادستی کے لیے ایک ہوسکتے ۔کاش! حکومت اور اپوزیشن سیم پیج پر آسکتے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved