تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     16-10-2021

ڈاکٹرز پھر سڑکوں پر

ڈاکٹر ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر ہیں۔ وجہ این ایل ای کا امتحان ہے۔ سرکار کے مطابق یہ اس لیے لیا جا رہا ہے کہ صرف اہل اور کوالیفائیڈ ڈاکٹرز ہی طب کے عملی میدان میں داخل ہو سکیں۔ این ایل ای میں پاس ہونے کیلئے ستر فیصد نمبر درکار ہوتے ہیں اور یہ ایم بی بی ایس کے پانچ سالہ نصاب میں سے لیا جاتا ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی کے مطابق نئے قانون کی رُو سے ڈاکٹرز کو پی ایم سی سے لائسنس لینے کیلئے این ایل ای کا امتحان دینا لازمی ہوگا۔ امتحان سال میں چار مرتبہ ہوگا۔ ڈاکٹر تقی کے مطابق این ایل ای کے حالیہ امتحان کو مجموعی طور پر 78 فیصد بچوں نے پاس کیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالجز کے بھی ضوابط اور معیار طے کر دئیے ہیں جن پر عمل کرنا لازمی اور اسی کالج کو لائسنس ملے گا۔ مزید یہ کہ نجی میڈیکل کالجوں کو اپنا معیار بہتر کرنے کیلئے بارہ ماہ کا وقت دیا ہے۔
زیادہ تر سراپا احتجاج ینگ ڈاکٹر چاہتے ہیں کہ اسے آئندہ سیشنز کیلئے لاگو کیا جائے۔ کچھ سمجھتے ہیں کہ وہ جس سرکاری یا نجی کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کرتے ہیں وہ بھی تو پی ایم سی کے زیرانتظام ہی چل رہے ہیں۔ اگر ان کا معیار درست نہیں تو اس میں قربانی کا بکرا ڈاکٹر کو نہ بنایا جائے بلکہ ان کالجز کا معیار بہتر کیا جائے جہاں سے یہ پڑھ کر آتے ہیں۔ ڈاکٹر بھی کافی حد تک اپنی جگہ درست دکھائی دیتے ہیں کہ پہلے انہیں میٹرک اور پھر ایف ایس سی میں جان مار کر اچھے نمبر لینا پڑتے ہیں۔ پھر میڈیکل کالج انٹری ٹیسٹ کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد میڈیکل کالج کے پانچ سالانہ امتحانات کلیئر کرنا ہوتے ہیں۔ پھر ہائوس جاب۔ اس کے بعد اب پھر سے انہیں اپنی اہلیت ثابت کرنا پڑے گی۔ اگر ڈاکٹر یہ امتحان کلیئر کر لیتے ہیں تو مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بعد بھی خالی ایم بی بی ایس کی ڈگری سے گزارا نہیں چلتا۔ سپیشلائزیشن کے بغیر لائف سٹائل بہتر نہیں ہو سکتا۔ اس میں بھی کئی سال لگ جاتے ہیں اور اس کیلئے زیادہ تر تو ڈاکٹر باہر جاتے ہیں اور پھر کم ہی واپس آتے ہیں کہ بیرون ملک انہیں مراعات کئی گنا زیادہ ملتی ہیں اور کام کا دورانیہ بھی مناسب ہوتا ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر اوورٹائم لگاتا ہے تو اسے اس کا اچھا خاصا معاوضہ ملتا ہے۔ پاکستان میں ہیلتھ کیئر اور ہسپتالوں کا نظام سب کے سامنے ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی بھرمار ہوتی ہے اسی وجہ سے سہولیات ناکافی پڑ جاتی ہیں۔ ایک ڈاکٹر کو اگر ایک دن میں ایک سو بیس مریضوں کو دیکھنا پڑے گا تو ظاہر ہے وہ سب کو ایک دو منٹ سے زیادہ نہیں دے سکے گا۔ دوسرے ممالک میں غالباً یہ تعداد دس یا بیس روزانہ ہوتی ہے۔ وہاں جب مریض بول بول کر تھک جاتا ہے تب ڈاکٹر بولنا شروع کرتا ہے اور اس کی تشخیص کرتا ہے۔ یہاں مریض ابھی اپنی روداد بتانا شروع کرتا ہے کہ ڈاکٹر نسخہ لکھ کر ہاتھ میں تھما دیتا ہے اور اگلا مریض پہلے والے کو دھکا دے کر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈاکٹر ہفتے میں چالیس گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے۔ یہاں حساب کتاب ہی کوئی نہیں ہے۔ پھر مریضوں کے لواحقین رہی سہی کسر نکال دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں سے بھی کہیں کوئی غلطی کوتاہی ہو جاتی ہو گی لیکن پسماندہ علاقوں میں زیادہ تر کیسز میں لواحقین مریض کی موت کا ذمہ دار ڈاکٹر کو ٹھہرا دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ہم اچھا بھلا مریض لے کر گئے تھے ڈاکٹر کے انجکشن کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ اگر مریض اچھا بھلا تھا تو اسے ہسپتال لائے کیوں تھے اور اگر لے آئے تھے تو ڈاکٹروں پر بھروسہ کیوں نہ کیا؟ نجی ہسپتال میں علاج مہنگا ہونے کے باعث ہر کوئی افورڈ نہیں کرسکتا۔ نجی ہسپتالوں کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں۔ چوبیس گھنٹے ہر مریض کو مفت وی آئی پی سروس دینا ممکن نہیں۔ روزبروز بجلی‘ پٹرول سمیت ہر چیز کے ریٹ بڑھ رہے ہیں۔ کچھ عرصے سے چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے میڈیکل کالجز کی طرف بھی طلبا کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ ان ممالک کے نجی میڈیکل کالجز کا معیار تو این ایل ای جیسے ٹیسٹ سے چیک ہو جائے گا‘ لیکن جو ڈاکٹر پاکستان کے بہترین سرکاری کالجوں سے اچھے نمبروں میں پاس ہوئے ہوں ان کیلئے یہ ایک اضافی ٹیسٹ نظر آتا ہے‘ لیکن دوسرا رخ دیکھیں تو اگر انہوں نے ٹھیک سے پڑھا ہے تو پھر ٹیسٹ دینے میں ہچکچاہٹ کیوں؟ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ امتحان لینا ہے تو پرانے ڈاکٹرز کا بھی لیں تاکہ پتہ چلے کہ وہ بھی آج کے تازہ ترین میڈیکل نالج سے آگاہ ہیں یا نہیں‘ بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ میڈیکل کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی ایسے ہی امتحان لیے جائیں‘ صرف ڈاکٹرز کے ساتھ ہی ایسا امتیازی سلوک کیوں؟ اس نکتے میں البتہ اتنا وزن نہیں کیونکہ ڈاکٹرز کے پیشے کا دیگر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹرز لوگوں کی جان بچا بھی سکتے ہیں اور گنوا نے کا اختیار بھی رکھتے ہیں‘ جبکہ دیگر روایتی شعبوں میں ایسی کوئی حساسیت موجود نہیں۔ ہمارے ایک دوست کے بقول ڈاکٹروں کی زندگی کا سارا وقت تو پڑھنے اور امتحان دینے میں گزر جاتا ہے۔ جب تک وہ سیٹ ہوتے ہیں ان کے بالوں میں چاندی آ چکی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق آئی ٹی کا شعبہ کئی درجے بہتر ہے اور اس میں اگر اتنی ہی محنت کی جائے تو بچہ ڈگری لینے کے پانچ دس برس کے اندر سیٹ ہو جاتا ہے اور کئی سینئر ڈاکٹروں سے بھی زیادہ پیسے کمانے لگتا ہے۔ آئی ٹی کی فیلڈ میں پڑھائی اتنی اہم نہیں جتنا کہ آئیڈیاز کی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر کسی کے پاس کوئی اچھوتا آئیڈیا ہے‘ جس سے معاشرے کے کسی مسئلے یا ضرورت کو ٹیکنالوجی کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے تو پھر غیرمعمولی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے اور اگر وہ چیز ہر گھر کی ضرورت ہوگی جیسا کہ وٹس ایپ‘ اوبر‘ کریم‘ تو اس میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ نوعیت اور دورانیہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن پڑھنا آئی ٹی میں بھی مسلسل پڑھتا ہے کیونکہ ہر دو تین سال بعد نئی ٹیکنالوجی اور نئی پروگرامنگ سامنے آ رہی ہے جس سے اپ ڈیٹ نہ رہنے والے نوجوانوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سکوپ ڈگری میں نہیں بلکہ بندے میں ہوتا ہے۔ اگر بندے میں ''کرنٹ‘‘ نہیں تو کوئی بھی ڈگری اس کے کام نہیں آ سکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے طلبا کو کیریئر کونسلنگ بھی میسر نہیں۔ زیادہ تر طلبا ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی پروفیشن کا انتخاب کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ڈاکٹرز یا انجینئرز بننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر کامیابی نہ ملے تو پھر دیگر شعبوں میں قسمت آزمائی کی جاتی ہے۔ اگر یہی بچے شروع سے یہ جان لیں کہ ان کیلئے کون سا فیلڈ زیادہ بہتر ہے تو ان کا بہت سا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے۔ بظاہر میڈیکل بہت پُرکشش اور باعزت پیشہ ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس میں کامیاب بھی ہوسکے۔ اسی طرح آپ کو ہزاروں انجینئرز بھی بیروزگار مل جائیں گے کہ ان کیلئے ملک میں کام کے مواقع ہی میسر نہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈاکٹروں کیلئے تنخواہ اور مراعات دیگر شعبوں سے اتنی زیادہ ہونی چاہئیں کہ بیرون ملک ڈاکٹرز وطن واپس آنے پر مجبور ہو جائیں۔ اسی طرح ان سے امتحانات کتنے اور کب لیے جانے چاہئیں یہ فیصلہ بھی ایک ہی مرتبہ ہو جانا چاہیے تاکہ روز روز کے احتجاجوں کا سلسلہ ختم ہو جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved