یوپی کا طاقتور وزیر اعلیٰ اور نریندر مودی کا متوقع جانشین سرکاری سطح پر بھاشن دیتے ہوئے جب انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کی آگ کو بھڑکاتے ہوئے اس حد تک گر جائے اور ہندو جنتا کو اکساتے ہوئے برملا یہ کہتا پھرے کہ آپ کے علاقے میں مسلم خاتون اگر مر جائے تو قبر سے نکال کر اس کی لاش کی بے حرمتی کو اپنی عادت بنا لو تو دنیا بھر کے انسانی حقوق‘ مذہبی رواداری‘ جمہوریت اورانصاف کے نعرے لگانے والوں کے درمیان ایسے ملک‘ ایسے بیمار معاشرے اوراس قسم کی سوچ کو گلے لگانے والوں کو اپنا اتحادی بنانا یہ سوالات اٹھا دیتا ہے کہ کیا انسانی حقوق اور مذہبی رواداری کے تمام قاعدے اور قانون بھارت میں آکر ختم ہو جاتے ہیں؟ گجرات گودھرا کی سینکڑوں مسلمان خواتین‘ مردوں اور بچوں کے قتلِ عام اورلاشوں کے ڈھیر سے گزر نے والا نریندر مودی اسی قتلِ عام کا لہو اپنے ماتھے پر سجا کر بھارت کا وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے اور امریکہ جو گجرات کے قتل ِعام کو دیکھنے کے بعداس مودی پر سفری پا بندیاں عائدکر دیتا ہے وہی امریکہ جب مودی کو اپنا نیچرل اتحادی قرار دیتا ہے توپھر یہی کہا جائے گا کہ '' کنند ہم جنس با ہم جنس پرواز‘‘۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ سفید ہاتھی کے دانت کھانے اور دکھانے کیلئے الگ الگ ہیں؟
2014ء اور پھر2019ء میں بھارت کے عام انتخابات کے دوران بی جے پی جب سٹیج سے یہ بھاشن دیتے ہوئے جنتا سے ووٹ مانگے کہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ پوری طاقت سے دوبارہ ا قتدار میں آنے کا ان کا ایک ہی مقصد ہو گا کہ بھارت سے مسلمانوں کو سرے سے ختم کردیا جائے‘ یا تو یہ انہیں ہندو بنا دیا جائے یا انہیں بھارت سے بھگا دیا جائے گا‘تو کیا اس وقت بھارت کا الیکشن کمیشن سویا ہوا تھا ؟بی جے پی کو ان نعروں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا ان کے فرائض میں شامل نہیں تھا؟ کیا یہ سب کچھ ملی بھگت سے کیا جا رہا تھا؟
بھارت کا جھوٹ اور مکر و فریب ایک طرف مگر EU DisinfoLab دنیا کے سامنے سچ رکھ دیتی ہے تو دوسری جانب امریکی کانگریس نے بھی 25 فروری2016ء کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو یادد اشت بھیجی تھی کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں عیسائی‘ سکھ ‘ دلت اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیتیں ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ آپ کی حکومتی سرپرستی میں کیا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دوسری کئی انتہا پسند تنظیموں کے علا وہ خصوصی طور پر تین ہندو انتہا پسند تنظیمیں آر ایس ایس‘ بجرنگ دل اوروشوا ہندو پریشد تمام اقلیتوں کا قتلِ عام‘ ان کی املاک کی تباہی اور خواتین کی کھلے عام بے حرمتی کر رہی ہیں ۔ امریکی کانگریس اور سینیٹ کے34 اراکین نے نریندر مودی کو بھیجے گئے مشترکہ خط میں بھی اسے یاد دلایا تھا کہ آپ نے2014ء کے انتخابات میں اقتدار ملنے کی صورت میں بی جے پی کے لیے سیکولر بھارت کا جو وعدہ کیا تھا آج تک اس کا کہیں بھی نام و نشان نظر نہیں آتا اور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور ہندوازم نے جگہ جگہ تک اپنے خونیں پنجے گاڑ رکھے ہیں جس سے تمام اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں ۔ امریکی کانگریس اور سینیٹ کے34 اراکین نے مودی کو لکھا کہ ہم اس خط کے ذریعے آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ بجرنگ دل‘ وشوا ہندو پریشد ا ور آر ایس ایس جیسی بدنام زمانہ انتہا پسند تنظیموں پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی جائے‘ جس کیلئے تمام ثبوت آپ کی حکومت کو مہیا کئے جا چکے ہیں ۔اس کے لیے اگر کیس مزید ثبوت یا انکوائری کی ضرورت ہو وہ بھی ہمہ وقت تیار ہے۔
25 فروری2016ء کو بھارتی وزیر اعظم کے نام لکھے گئے اس خط کے تیسرے دن 28 فروری کو امریکی کانگریس کی ہیومن رائٹس کمیشن کے Tom Lantosنے میڈیا کوبریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ یہ سب کچھ سنی سنائی باتوں یا کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ قابلِ اعتماد ذرائع سے ملنے والی ویڈیوز کی بنیاد پر ہے ‘ جن کی فرانزک رپورٹس بھی چیک کی جا چکی ہیں اور جن سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نریندر مودی کی شہ پر ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں سینکڑوں مسلم ‘ عیسائی‘دلت اور سکھ بچوں‘ عورتوں اور مردوں کو بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا جا رہاہے ۔
https://cobrapost.com/کو کلک کیجئے تو ٹائمز آف انڈیا جیسے معتبر اخبار والوں کی مودی کے فرنٹ مین سے لین دین کرتے ہوئے ایک نہیں کئی ویڈیو سامنے آ جائیں گی۔ اس خریدو فروخت میں بھارت کے مشہور چینل Dainik Jagran, Daily News, UNI, Tashan, Samachar Plus, HNN24x7, Swatantra Bharat, Scoopwhoopجیسے میڈیا گروپس خود کو بیچتے اور سودے کرتے ہوئے صاف دکھائی دیں گے۔Rediff.com کی تفصیلات ان کے علا وہ دیکھی جا سکتی ہیں۔حیران کن طور پرصرف کرناٹک کے انتخابات کے لیے sangathanنے 742 کروڑ کا بجٹ صرف کیا ۔ ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ 2014ء کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے آٹھ ہزار کروڑروپے کا بجٹ صرف کیا اور 2019 ء کے انتخابات میں بارہ ہزار کروڑ روپے اس مد میں خرچ کئے گئے۔ انتخابات میں مودی کی دو تہائی کامیابی کے بعد بھی وہی زبان بولی گئی جو مودی سرکار ان کے منہ میں ڈالتی رہی۔
امریکی CIA کی وہ رپورٹ جو بائیڈن انتظامیہ اور اقوام متحدہ کو کیوں نظر نہیں آتی جس میں بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کو دہشت گرد مذہبی تنظیم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف باقاعدہ سخت کارروائی کا مطا لبہ کیا گیا تھا۔ کیا یو این اوکو صرف وہی دکھائی دیتے ہیں جن پر بھارت الزامات لگاتا ہے؟ سی آئی اے کی یہ رپورٹ جیسے ہی سامنے آئی بھارت کا انتہا پسند میڈیا لٹھ لے کر امریکہ اور سی آئی اے کے پیچھے پڑ گیا۔تمام بھارتی چینلز کی چیخ وپکار سے ان کے چہرے نیلے پیلے ہوگئے تھے۔ شاید اس لئے کہ سی آئی اے نے صرف بھارت کو نہیں بلکہ دنیا بھر کو وہ آئینہ دکھا دیاتھا جس کی طرف آنکھیں اٹھاتے ہوئے پوری یورپی دنیا ‘امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور وائٹ ہائوس نہ جانے کیوں شرما جا تے ہیں۔ گاندھی‘ جن کا مجسمہ امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ بھر میں نصب کیا جاتا ہے ان کے قاتل کے استعمال کئے ہوئے پستول کو اگر آر ایس ایس جیسی انتہا پسند جماعت متبرک قرار دے تو ایسی تنظیم پر پابندی کیوں نہیں لگتی؟ FATF کے شرکا جب فرانس میں ایک ساتھ بیٹھ کر پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے پر بضد ہوتے ہیں تو کیا اس کانفرنس میں یورپی دنیا سمیت مشرق بعید اور امریکہ کا کوئی ایک رکن بھی امریکی کانگریس کی 25 فروری2016ء کی وہ رپورٹ کیوں نہیں دیکھتا جس میں بجرنگ دل‘ وشوا ہندو پریشد اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی دہشت گردی کے سیاہ کارناموں کے مکمل ثبوت رکھے گئے ہیں۔
CIA World Factbookمیں CIA بھارت کی ان دو ہندو انتہا پسند تنظیموں کی نشاندہی کرتے ہوئے رپورٹ میں جو کچھ بتایا ہے اسے بھی توFATF کے ریکارڈ کا حصہ ہونا چاہئے۔ CIA World Factbookکے یہ الفاظ''RSS leader Mohan Bhagwat and VHP's Pravin Togadia are among those who lead numerous religious or militant/ Chauvinistic organizations.‘‘ ثابت کرتے ہیں کہ وشوا ہندو پریشد اور آر ایس ایس نے بھارت کی اقلیتوں اور دلت کو ہر وقت نفرت کی آگ میں جھونک رکھا ہے۔وشوا ہندو پریشد بھارت بھر میں یہ مہم چلا رہی ہے کہ کسی بھی مسلمان کو اپنے اپنے علا قوں میں کسی قسم کی جائیداد خریدنے کی اجازت نہ دی جائے اور اگر کسی مسلمان کے بارے پتہ چلے کہ وہ چپکے سے کوئی بھی جائیداد خرید رہا ہے تو بیچنے والے کو سختی سے روک دیا جائے۔