ایک زمانے سے سنتے آئے تھے کہ شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی‘ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ بات پنجابی ہی میں بھلی لگتی ہے کہ شوق دا کوئی مُل نئیں! انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں کوئی بات دماغ پر سوار ہو جائے تو پھر مشکل ہی سے اُترتی ہے۔ ہمارا معاملہ بھی‘ ہوش سنبھالنے کے بعد سے‘ کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ کالج کی دنیا میں قدم رکھنے کی منزل تک پہنچتے پہنچتے ہم لکھنے کی طرف مائل ہوچکے تھے اور وہ بھی کچھ ایسے جوش و خروش سے کہ کھانے کا ہوش رہتا تھا نہ پینے کا۔ تب کمپیوٹر وغیرہ تو تھے نہیں اس لیے جو کچھ بھی شائع کروانا ہوتا ،وہ لکھ کر بھجوانا پڑتا تھا۔ پہلے تو جیسے تیسے مضمون لکھیے‘ پھر اُسے ''فیئر‘‘ کیجیے اور اس کے بعد بس کے ذریعے متعلقہ اخبار یا جریدے کے دفتر پہنچئے۔ کتابت کا دور تھا۔ کاتبینِ کرام کے نخرے الگ تھے۔ ڈیڈ لائن کا خاص خیال رکھنا پڑتا تھا۔ مضمون تیار کرنے میں دیر ہوجائے تو بھاگم بھاگ دفتر پہنچنا پڑتا تھا تاکہ مضمون شائع ہونے سے رہ نہ جائے۔
ہم نے 20 فروری 1984ء کو ابتدا طبع زاد لکھنے سے کی تھی۔ پھر تراجم کی طرف جانا ہوا۔ معاشی ضرورت پوری کرنے کے لیے کئی جرائد میں مضامین کے تراجم کیے۔ یہ سلسلہ کم و بیش دس سال چلا۔ اس کے بعد اخبارات میں ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب تک پانچ اخبارات میں ملازمت کی ہے۔ مستقل کالم نگاری کم وبیش گیارہ سال قبل شروع ہوئی۔ اُس سے قبل بھی کالم تو لکھے تھے مگر یوں کہ سال بھر میں دس بارہ لکھ دیئے یا پھر زیادہ سے زیادہ بیس بائیس۔ روزنامہ دنیا میں آنے سے قبل مستقل بنیاد پر کالم نگاری کی عادت پڑچکی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ روزنامہ دنیا نے ساری پیاس بجھادی۔ اس درخت نے یوں چھاؤں دی کہ ہمیں صرف لکھنے کا نہیں بلکہ کُھل کر لکھنے کا موقع ملا۔ یکم جنوری 2013ء سے شروع ہونے والا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
خیر‘ عرض یہ کرنا تھا کہ اللہ کے فضل و کرم سے مستقل کالم نگاری کا سلسلہ اِس شان سے جاری ہے کہ جمعرات 14 اکتوبر 2021 کو شائع ہونے والا ''سپاہِ دانش کی تیاری‘‘ روزنامہ دنیا میں ہمارا دو ہزارواں کالم تھا۔ دو ہزار کالموں کا سنگِ میل عبور کرنے پر ہمیں خیال آیا کہ یہ خبر پھیلادی جائے تاکہ احباب کی جانب سے کچھ مبارک بادیں ہی مل جائیں؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی‘ نغمۂ شادی نہ سہی!
ہم نے یہ سنگِ میل عبور کرنے کی بات دفتر کے ساتھی رپورٹر کو بتائی تھی اور ساتھ ہی ساتھ چپکے سے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اس مرحلے پر مٹھائی کے ساتھ ساتھ نہاری لانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ چونکہ رپورٹر ہیں اس لیے یہ بات اُن کے پیٹ رُکی اور ٹِکی نہیں اور اُنہوں نے واٹس ایپ پر ''بریکنگ نیوز‘‘ ڈال دی۔ یہ بریکنگ نیوز روزنامہ دنیا کراچی کے مدیر احمد حسن صاحب نے بھی پڑھی اور ہمیں کال کی۔ کوئی صحافی گھر پر ہو اور مدیر کی کال آجائے تو دل کے دھڑکنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے! ایسے حالات میں جو کچھ کہا جاتا ہے اُس کے برعکس احمد حسن صاحب نے جب کہا آپ آج دفتر آرہے ہیں نا تب دل کو سُکون ملا! ہماری حوصلہ افزائی کے لیے منعقد کی گئی تقریبِ پذیرائی میں نے ہمارے لیے چند توصیفی جملے بھی ادا کیے گئے جو ہمیں شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش ثابت ہوئے! ہاں‘ لکھنے کے عمل کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے روانی میں جب یہ کہا گیا کہ جتنے بھی لکھنے والے ہیں ہم اُنہیں خوب یاد کرتے ہیں تب پل بھر کے لیے دل سہم سا گیا!
جب روزنامہ دنیا کے لیے ہائرنگ کی جارہی تھی تب ہم نے انٹرویو کے دوران عرض کیا تھا کہ ہمیں نیوز روم میں نائٹ ڈیسک کے لیے ضرور رکھا جارہا ہے مگر ہم کالم لکھنے سے مجتنب نہ رہیں گے۔ ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ ہمیں یہ وعدہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی یعنی مشق کا زمانہ گزرنے کے بعد جب اخبار کی باضابطہ اشاعت شروع ہوگی تب ہمیں کالم لکھنے سے ہرگز نہ روکا جائے گا۔ جب اخبار کی باضابطہ اشاعت کا آغاز ہوا تب ہم نے کالم نگاری شروع کی۔ سوال اٹھا کہ کالم کا عنوان کیا ہونا چاہیے۔ ہم نے دو تین عنوان پیش کیے تو ''کالم آرائی‘‘ منتخب کیا گیا جو تاحال برقرار ہے۔ ہندوستان کے آخری مغل تاجدار محمد سراج الدین بہادر شاہ ظفرؔ کی صحت یابی کی خوشی میں مرزا غالبؔ نے تہنیتی غزل کہی تھی جس کا مطلع تھا ؎
پھر اِس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مَہ تماشائی
اِسی غزل میں یہ اشعار بھی شامل تھے ؎
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک
اِس کو کہتے ہیں عالم آرائی
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
''عالم آرائی‘‘ سے تحریک پاکر ہم نے کالم آرائی کا عنوان تجویز کیا۔ یوں ہم نے کراچی ایڈیشن کیلئے کالم لکھنا شروع کیا۔ ایک ماہ بعد ہمارا کالم ادارتی صفحات پر منتقل کر دیا گیا۔ ہمارے بعض خیر خواہ اِس فیصلے سے بہت خوش ہوئے کہ باقی ملک کو بھی پتا چلے کہ پڑھنے سے ہونے والا دردِ سر ہوتا کیا ہے! خیر‘ ہم تمام خیر خواہوں کے تحفظات کو خاطر میں لائے بغیر آج تک لکھے جارہے ہیں۔
یکم جنوری 2013ء کو روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے ہمارے پہلے کالم کا عنوان ''ہاضمے کا چُورن‘‘ تھا۔ بعض احباب طعنہ زن ہوئے کہ اپنے لیے تو پہلے ہی ہاضمے کے چُورن کا بندوبست کرلیا اور یہ نہ سوچا کہ آپ کی مستقل کالم نگاری سے پڑھنے والوں پر کیا بیتے گی‘ بلکہ بیتتی رہے گی اور اُن کے ہاضمے کا کیا ہوگا! ہماری ذہانت دیکھیے کہ ہم نے مخالفین و ناقدین کی کسی بھی بات کا بُرا نہیں مانا اور ہماری نظر میں اُنہی کا مفاد مقدم رہا جو ہمارے ''بھائی جان‘ مہربان‘ قدر دان‘‘ یعنی قارئینِ کرام ہیں۔ اب ایک زمانے سے کالم مستقل ہے تو کبھی کبھی کوئی پوچھ لیتا ہے کہ روز لکھنے کے لیے ذہن میں یہ سب کچھ کیسے پیدا ہوتا ہے‘ اتنا کیسے سوچ لیتے ہیں۔ ہم جواب میں صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ بھائی‘ کس نے کہہ دیا ہے کہ لکھنے کے لیے سوچنا لازم ہے۔ دماغ یا ذہن کی ضرورت تو تب محسوس ہو کہ جب سوچنا بھی لازم ٹھہرے۔ فی زمانہ اخباری کالم کا تو سارا حُسن ہی اس بات میں مضمر ہے کہ سوچنے سے مکمل گریز کیجیے اور کالم لکھنے بیٹھیے تو آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ بس شروع ہو جائیے! جو بے چارے سوچتے ہیں وہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اُنہیں پڑھنے والے بھی خال خال ہیں کیونکہ سوچ سوچ کر لکھے ہوئے کو پڑھ کر محظوظ ہونے کے لیے قاری کے پاس بھی سوچنے والا ذہن ہونا چاہیے۔
کالم نگاری بالعموم اور یومیہ کالم نگاری بالخصوص ''ہم چلے‘ دشمن جلے‘‘ والا معاملہ ہے۔ آج کل وہی تحریر زیادہ جاندار ہے جو نقشِ اوّل ہو یعنی قلم برداشتہ ہو۔ جو لکھ دیا بس وہی شائع ہونا چاہیے۔ فی زمانہ کسی بھی تحریر کے نقائص دور کرنے سے شگفتگی جاتی رہتی ہے! ہم نے بھی یہ بات دانتوں سے پکڑ رکھی ہے یعنی جو لکھ دیا سو لکھ دیا‘ وہی بخوشی پڑھ لیا جاتا ہے۔ ہم نے جب بھی کسی کالم کو لاہور میں سجاد کریم صاحب کی خدمت میں روانہ کرنے سے قبل کچھ درست کرنے کی کوشش کی ہے‘ لکھنے کا سارا مزا جاتا رہا ہے!