ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کر کے ہمیں الوداع کہہ گئے ہیں۔ انہیں پورے قومی اعزاز کے ساتھ اسلام آباد میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ بارش کے باوجود ہزاروں افراد نے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی۔ اُن کی وصیت کے مطابق ملک بھر میں اُن کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی، ہر جماعت، ہر مسلک، ہر مکتبِ فکر اور ہر علاقے کے لوگوں نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے پاکستان کو جو کچھ دیا، وہ کوئی اور نہیں دے سکا۔ ان کے بغیر پاکستان کا ایٹمی پروگرام مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ یورینیم کی انرچمنٹ ممکن نہیں تھی۔ وہ نہ ہوتے تو خدا جانے کب تک، اور کس کس کو سر کھپانا پڑتا، اور پھر بھی کچھ ہاتھ آتا یا نہ آتا، یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے رفقا کئی تھے، پاکستانی ایٹمی توانائی کمیشن بھی اپنے حصے کا کام کر رہا تھا، ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر جنرل ضیاء الحق تک کی استقامت ڈھال بنی رہی تھی۔ غلام اسحق خان کی فرض شناسی نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا، اور نواز شریف نے دھماکوں کا فیصلہ کر کے دنیا کو ہلا ڈالا تھا۔ پانچ مرلے کا ایک مکان بھی ایک شخص تعمیر نہیں کر سکتا، چھوٹے سے چھوٹے پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھی اَن گنت ہاتھ حرکت میں آتے ہیں۔ روٹی کا وہ لقمہ جو بہ آسانی ہمارے منہ میں آ جاتا، اور پیٹ بھرنے کا سامان کرتا ہے، اُس کے پیچھے محنت کرنے والوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے۔ گندم کاشت کرنے والا، اسے کاٹنے والا، اس کی پسائی کرنے والا، اسے گوندھنے والا، روٹی تیار کرنے والا، سب اپنا اپنا کام کرتے ہیں تو بھوک کی آگ بجھنے کا سامان ہوتا ہے۔ اگر زمین پر بروقت ہل نہ چلایا جائے، اگر بروقت پانی نہ دیا جائے، اگر بروقت کٹائی نہ کی جائے، اور تو اور اگر تندور (یا چولہے) کے لیے ایندھن نہ مل پائے تو خوشۂ گندم روٹی کی صورت اختیار نہیں کر سکتا، اور ہمارے کسی کام نہیں آ سکتا۔ ایٹم بم تو پھر ایٹم بم ہے، اسے اگر ایک یا دو، چار اشخاص چٹکیاں بجاتے بنا سکتے تو آج ہر ملک ایٹمی طاقت بنا ہوتا۔ اربوں کھربوں میں کھیلنے والے ممالک بھی آرزوئیں پالنے کے باوجود انہیں پورا نہیں کر پاتے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ جان جوکھوں کا کام ہے، اس کے لیے صلاحیت بھی چاہیے، وسائل بھی چاہئیں، جرأت اور حوصلہ بھی چاہیے، رازداری کا اہتمام بھی چاہیے، اور وقت بھی چاہئے، یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔
1971ء میں جب بھارت نے جارحیت کے ذریعے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا ڈالا، پاکستان اپنا دفاع نہ کر سکا تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے سر پر ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا جنون سوار ہوا۔ یہی مرض ہالینڈ میں رہنے والے ایک پاکستانی سائنس دان عبدالقدیر خان کو بھی لاحق ہو چکا تھا، وہ ایسی تعلیم اور تجربہ حاصل کر چکا تھا، جو پاکستان کو وہ کچھ دے سکے، جس کا خواب اسلام آباد میں دیکھا جا رہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے اس نوجوان کا رابطہ ناقابلِ تصور کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ واقعات کی تفصیل میں جانے کا محل ہے نہ ضرورت۔ پاکستان چند ہی سال کے اندر ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ معجزہ برپا ہوگیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر اس کامیابی کی علامت بن گئے، اور پاکستانی قوم انہیں بعد از قائد اعظمؒ... اپنے محسنِ اعظم کے طور پر یاد کرنے لگی۔ یہ اس کے دِل میں ایسے بسے کہ اُنہیں کوئی نکال سکا نہ نکال سکے گا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں ایٹمی پھیلائو کا ذمہ دار قرار دیا گیا، الزام لگایا گیا کہ وہ بعض دوسرے ملکوں کو اس ''کالے علم‘‘ میں شریک کر رہے تھے، انہوں نے سب خطائیں اپنے نام کر لیں اور معاملہ دب گیا۔ پاکستان کو نشانہ بنانے والے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ یہ سب کیا تھا، اس میں کتنی حقیقت تھی بات کہاں سے چل کر کہاں پہنچی تھی، اس کے شواہد کیا تھے، اس کی تفصیل کیا تھی، اس میں کس کی ذمہ داری کیا تھی، ڈاکٹر صاحب کا نام اس میں کیسے آیا، سب کِیا دھرا، ان کا تھا یا کوئی اور بھی شریک تھا، یہ سب سوالات اب تاریخ کے سینے میں دفن ہو چکے ہیں، انہیں ایک ڈرائونا خواب سمجھ کر بھلا دینے ہی میں عافیت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو بہرحال بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی حفاظت بھی لازم تھی، اس لیے نقل و حرکت محدود ہو گئی۔ کوئی بھی گروہ یا غیرملکی ایجنسی انہیں اغوا کر سکتی تھی، اور پاکستان کیلئے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر سکتی تھی، ان کے گزشتہ کئی ماہ و سال بڑی آزمائش اور کٹھنائی میں گزرے، لیکن جو پاکستان کو دے چکے تھے، وہ کوئی واپس نہ لے سکا۔ ڈاکٹر صاحب کو پوری قوم ہیرو کے طور پر یاد کرتی اور ان کے راستے میں آنکھیں بچھاتی رہی۔ ڈاکٹر صاحب سے پاکستان کے اہلِ اقتدار بہتر معاملہ کر سکتے تھے، ان کی صلاحیتوں سے تعلیمی، صنعتی اور سائنسی میدانوں میں فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ ان کی نگرانی میں ایسی ایجادات ممکن تھیں، جو پاکستان کو مالامال کر دیتیں کہ فن لینڈ جیسی چھوٹی سی ریاست نے برسوں پہلے ایک موبائل فون (انوکیا) بنا کر ارب ہا ڈالر کما لئے تھے۔ صنعتی شعبے کو ترقی دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ جنرل پرویز مشرف کا دور ختم ہوا، ان کے بعد بھی بہت لوگ آئے، لیکن ڈرے سہمے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کے عظیم دماغ سے مزید کوئی استفادہ نہ کر سکے کہ ایسے عالی دماغ سینکڑوں سال میں پیدا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے بہت ملاقاتیں رہیں، ان سے محبت کا تعلق ٹوٹنے نہیں پایا۔ جب ان کی شخصیت اور ان کا نام مکمل طور پر پردۂ اخفا میں تھے، انہیں کوئی عبدالقادر خان کہتا تو کوئی عبدالقدیر خان کہ انگریزی میں دونوں کے ہجے ایک تھے‘ اس وقت ہمارے ماہنامہ ''قومی ڈائجسٹ‘‘ کے ایک مضمون نے انہیں ''مشتعل‘‘ کر دیا۔ مجھے خط لکھ کر انہوں نے اپنا تعارف کرایا، اور یوں جنوری 1984ء میں پہلی بار قوم ان کے نام، مقام اور کام سے آگاہ ہوئی، وہ اکثر ہنس کر کہتے تھے، آپ نے تو ہمارا بھانڈا پھوڑ دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے جو خط مجھے لکھا تھا، اس کی تفصیل پھر کبھی بیان ہوگی۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کے قائل نہیں تھے۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ان کی عادت تھی۔ اخبار میں کالم لکھ کر اپنا اور دوسروں کا دِل بہلاتے رہے۔ ادب اور شاعری سے شغف تھا، بے شمار شعر زبانی یاد تھے، قرآن کریم کا مطالعہ بھی جاری رکھتے، تاریخ عالم خصوصاً اسلامی تاریخ پر گہری نظر تھی۔ بے سروسامانی میں بیرون ملک گئے تھے، اپنی محنت سے وہ کچھ حاصل کیا، جو کسی اور کے حصے میں نہیں آ سکا۔ کِیا کرایا پاکستان کے قدموں پر لا کر ڈھیر کر دیا۔ رفاہی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے، ہسپتال بنائے، تعلیمی اداروں کی سرپرستی کی۔ خیبرپختونخوا کا غلام اسحق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ بھی ان کی شاہ دماغی کا شاہکار ہے۔ لاہور کا ڈاکٹر عبدالقدیر ہسپتال ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ انہوں نے پچاسی برس اس دنیا میں گزارے۔ کورونا کو شکست دے کر گھر واپس آ چکے تھے کہ اچانک طبیعت بگڑ گئی۔ میری طرح ان کے متعدد نیازمند انہیں صحت یابی کی مبارک باد دے چکے تھے۔ انہوں نے ہنستے ہوئے اسے وصول بھی کر لیا تھا، لیکن پھر اچانک فرشتۂ اجل کی طرف متوجہ ہوگئے۔
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)