پنجاب میں نوابوں‘ جاگیرداروں‘ سجادہ نشینوں اور تاجروں کی گورنریاں دیکھتے دیکھتے‘ دل اکتا گیا تھا۔ کہاں آزادی سے پہلے اور بعد کے انگریز گورنر اور کہاں دیسی لاٹ صاحب؟ سچی بات ہے دیسی لاٹ صاحبوں کے ادوار میں ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ ایک گورنرصاحب تو ایسے تھے کہ ان کا نام سن کر لوگ کانپنے لگتے اور ان کی گورنری بھی موجودہ پاکستان‘ یعنی مغربی پاکستان کو محیط تھی۔ پڑھے بے شک آکسفورڈ میں تھے لیکن جدید خیالات سے اپنے آپ کو ہمیشہ محفوظ رکھا۔ عامیوں کی تعلیم انہیں پسند نہ تھی۔ دبدبہ اتنا تھا کہ آج بھی ہر حکمران ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان میں جس صاحب اقتدار کے طرز حکومت کو دیکھیں‘ تو آپ کو اس کے اندر ایک چھوٹے سے نواب صاحب ضرور نظر آئیں گے۔ موصوف بہت بڑے جاگیردار تھے اور قدیم جاگیردارانہ روایات پر اتنی شدت سے کاربند تھے کہ اپنے لئے فطری موت کو بھی پسند نہ فرمایا۔ گولی سے ہلاک ہونے کو ترجیح دی۔ آزادی کے بعد‘ پنجاب والوں نے بھانت بھانت کے گورنر دیکھے۔ لیکن سچی بات ہے جتنی شاندار حکومت سرکار انگلشیہ کے مقرر کردہ گورنروں نے چلائی‘ وہ اب تک دیکھنے میں نہیں آ سکی۔ موجودہ حکومت نے بہت اچھا کیا کہ صوبے کے اندر سے کوئی گورنر تلاش کرنے کی بجائے براہ راست اپنے سابق حکمرانوں کے دیس سے ایک گورنر جا چنا اور اللہ کے فضل و کرم سے تھوڑے دن یا شاید تھوڑی ہی دیر بعد‘ چوہدری محمد سرور ہمارے صوبے کے لاٹ صاحب بن جائیں۔ لاٹ صاحب کے سیکرٹریٹ کو مدت کے بعد ایک اصلی لاٹ صاحب نصیب ہو گا۔ ہرچند خام مال دیسی ہے لیکن میڈ ان انگلینڈ ہے۔ ہمیں سب سے پہلے ملکہ معظمہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ طویل مدت کے بعدانہوں نے ہمیں ایک گورنر عطا فرمایا ہے۔ اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملکہ معظمہ کو‘ فوراً ہی خدا نے اس نیکی کا صلہ دے دیا اور انہیں اپنے خاندانی تاج و تخت کے لئے ایک تیسرا وارث نصیب ہوا۔ چوہدری محمد سرور نے لاٹ صاحب بننے کے لئے برطانوی شہریت سے دست برداری اختیار کر لی ہے۔ ہم ان کی یہ قربانی کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ ایک ایسے زمانے میں جبکہ پاکستان میں ہر کوئی برطانوی شہریت لینے کے لئے بے تاب ہے‘ چوہدری محمد سرور کا برطانوی شہریت کو ترک کرنا‘ وطن سے ان کی محبت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ جس پر ہم تہہ دل سے ان کے شکرگزار ہیں۔ چوہدری صاحب کی زندگی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستان کے ارباب اختیار میں شامل ہونے کی تمام صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ اگر ہم کسی گورے کو درآمد کرتے‘ تو وہ پاکستان کے سیاسی میٹریل میں ہرگز فٹ نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ گوروں کی سیاست میں حصہ لینے کے لئے بہت صاف ستھرے اور بے داغ کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی گورے پر الزام لگ جائے ‘ تو وہ اپنی صفائی پیش کئے بغیر ہی‘ سیاست سے تائب ہو جاتاہے۔ کیونکہ گو روں کے ہاں پبلک سروس میںکوئی شخص ‘اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ اس کا جرم ثابت ہو جائے۔ وہ اپنی ذات پر الزام لگنے کو ہی کافی سمجھتا ہے۔ اگر ہم گورنری کے لئے ولایتی طرزکے سیاسی میٹریل میں سے کسی شخص کو چن لیتے‘ تو وہ پاکستانی سیاست میں ہرگز کامیاب نہ ہوتا۔ ہمارے اہل سیاست‘ نیک نامی کی پروا نہیں کرتے۔ وہ صرف قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ چوہدری محمد سرور کا ریکارڈ دیکھیں‘ تو وہ پاکستانی سیاست کے لئے نہ صرف مو زوں ‘انتہائی مناسب بلکہ عمدہ انتخاب ہیں۔ وہ کیش اینڈ کیری کے ایک بہت بڑے سلسلے کے مالک ہیں۔ ان پردیگر پاکستانی سیاستدانوں کی طرح مختلف جرائم کے الزامات عائد ہوئے اور انہوں نے ہمارے کامیاب سیاستدانوں کی طرح ثابت قدمی سے اپنا دفاع کیا اور قانون کی رو سے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔ لیبر پارٹی نے ان پر انتخابی جرائم کا الزام لگا کر‘ اپنے عہدے سے معطل کر دیا ۔ بعد میں انہیں باعزت بری کر کے ‘ ان کی معطلی ختم کر دی گئی۔ سیاسی روایات کے عین مطابق ان پر ایک اور الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ایک شخص سے جھوٹا بیان دلوانے کے لئے اسے 5ہزارپونڈ دیئے تھے۔ چوہدری صاحب نے پاکستانی روایت کے عین مطابق اس الزام کو بھی جھوٹا ثابت کیا اور بتایا کہ یہ رقم انہوں نے بطور قرض دی تھی۔ ان کے لائق صاحبزادے عاطف سرور پر بھی850000پونڈ کی منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا۔ وہ قید بھی ہوئے۔ لیکن 2011ء میں‘ ایپلٹ کورٹ نے ان کی سزا منسوخ کر دی۔ چوہدری صاحب نے قومی سیاسی رواجوں کے عین مطابق‘ اس الزام کو نسل پرستی کا نتیجہ قرار دیا۔ اگر ہم اپنے سیاسی کلچر کی روشنی میں ان جھوٹے الزامات کا جائزہ لیں‘ تو وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کی سیاسی برادری میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی تمام تر صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ آخر چوہدری صاحب قیادت کرنے کے لئے آ کہاں رہے ہیں؟ اس وقت ہمارے ملک کے متعدد وزرائے اعظم پر مختلف الزامات میں مقدمات چل رہے ہیں۔ ہر سابق وزیراعظم‘ چوہدری صاحب کی طرح اپنے آپ کو بے گناہ قرار دیتا ہے۔ موجودہ وزیراعظم سمیت کئی وزرائے اعظم کے خلاف عدالتوں میں مقدمے دائر ہیں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ان پر لگائے گئے الزامات جھوٹے قرار دیئے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم سے پہلے جو صاحب اس منصب پر فائز تھے‘ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں ان کا نام لے کر الزامات دہرائے جاتے ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم کو تحقیقاتی ادارے اور عدالتیں باربار طلب کر رہی ہیںلیکن وہ پامردی سے خود پر لگنے والے الزامات کو غلط قرار دیتے ہیں۔ دھڑلے سے فرماتے ہیں کہ میں عدالت میں نہیں جائوں گا۔گوروں کی طرح ان کے نزدیک‘ محض الزامات پر سیاست جیسے مقدس پیشے کو ترک کرنا‘ خالص بیوقوفی ہے۔ اگر پاکستان میں محض الزامات پر سیاست چھوڑنے کا سلسلہ چل نکلا‘ تو ہمارا نظام حکومت کون چلائے گا؟ ہمارے موجودہ صدر پر عدالت عظمیٰ منی لانڈرنگ کے الزامات پر کارروائی کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اگر گوروں کی تقلید کی جاتی‘ توصدر صاحب منصب سے علیحدہ ہو کر‘ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر سکتے تھے۔ لیکن ہماری روایات کے مطابق یہ بزدلی ہے۔ انہوں نے انتہائی جرات مندی سے عدالتی حملوں کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں ان کے ایک وزیراعظم کھیت رہے۔ لیکن انہوں نے کوئی عدالتی وار کارگر نہیں ہونے دیا۔ سرخرو ہوئے اور تمام عدالتی حملوں کو ناکام بنانے کے بعد‘ انشاء اللہ اگلے چند روز میں ایوان صدر سے فاتحانہ انداز میں رخصت ہوں گے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارا ملک بہادروں کی سرزمین ہے۔ ایسے ملک میں بزدل‘ کمزوراور خوفزدہ ہونے والے لوگ قیادت کی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہیں ہوتے۔ پاکستان میں اہل اقتدار کے لئے بے گناہی ثابت کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہاں کی پولیس‘ تفتیشی ادارے‘ حتیٰ کہ نظام انصاف کی اپنی خصوصیات ہیں۔ یہاں اقتدار کا چھوٹے سے چھوٹا کھلاڑی بھی‘ خود پر لگے ہوئے الزامات کو آسانی سے غلط ثابت کر سکتا ہے۔ لیکن چوہدری سرور جن کڑے امتحانوں سے سرخرو ہو کر نکلے ہیں‘ ان میں سے گزرنا آسان نہیںہوتا۔ پچھلے دو سال سے‘ اپنے پیروکاروں کے محبوب لیڈر جناب الطاف حسین برطانوی نظام انصاف کا سامنا کر رہے ہیں۔ کوئی انہی سے پوچھ کر دیکھے کہ وہاں کے اداروں میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے؟ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ چوہدری محمد سرور کتنی مشکلات سے گزر کے پاکستان میں اپنی برادری کا حصہ بننے آئے ہیں۔ وہ ہر طرح کے الزامات سے باعزت بری ہوئے۔ پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کی اہلیت ثابت کی۔ یہاں شاندار کامیابیاں ان کے قدم چومنے کو بے تاب ہیں۔ بہت عرصہ ہوا‘ لاہور میں سلیم کرلا نامی ایک شخص صوبائی اسمبلی کے امیدوار بنے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ’’اقتدار کے بھوکوں میں ایک اور بھوکے کا اضافہ‘‘ قرار دیتے ہوئے‘ سیاسی اہلیت کا اعلان کیا تھا۔ چوہدری سرور پر اللہ کا بے حد فضل و کرم ہے۔ مال و دولت کی کمی نہیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا ’’اقتدار کے کھلاڑیوں میں ایک اور کھلاڑی کا اضافہ۔‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved