تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-10-2021

ترقیاتی کاموں کا حشر نشر

چولستان سے رابطہ سال میں کم از کم ایک بار دراوڑ قلعہ سے شروع ہونے والی جیپ ریلی کے توسط سے تو قائم ہو جاتا ہے لیکن صحرا کے اندر دور تک جانے کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ احمد پور شرقیہ سے لے کر کَنڈے والی پُل تک تو مکمل آباد علاقہ ہے۔ کَنڈے والی پُل سے قلعہ دراوڑ تک کا راستہ کبھی صحرا کے اندر سے گزرتا تھا۔ اب یہ سارا علاقہ تقریباً آباد ہو چکا ہے۔
لال سوہانرا نیشنل پارک میں ایک لاکھ انتالیس ہزار ایکڑ کے لگ بھگ صحرائی علاقہ ہے۔ شدید گرمی میں صحرا کے اندر دور تک جانا تو مشکل نہیں مگر وہاں دوپہر گزارنا یا باہر نکلنا خاصا مشکل بلکہ تکلیف دہ کام ہے۔ ہمت ان لوگوں کی ہے جو یہاں زندگی گزارتے ہیں لیکن یہی زندگی ہے۔ لال سوہانرا جانے سے پہلے ہی یہ طے پا چکا تھاکہ ایک دن اندر صحرا میں جانا ہے۔ موسم گو خاصا بہتر ہو چکا ہے؛ تاہم احتیاطاً یہ بھی طے پایاکہ صحرا کے اندر جانے کیلئے علی الصبح روانہ ہوا جائے گا۔ میں نے اور ڈاکٹر عنایت نے ناشتہ خلاف معمول جلدی کرلیا اور محکمہ جنگلات کا ایک گائیڈ ساتھ لے کر صحرا کا رخ کیا۔ ریسٹ ہائوس سے نکل کر پرانی لائن سفاری کے پہلو سے گزرتے ہوئے صحرا کی جانب روانہ ہوگئے۔ چند کلومیٹر کے بعد ہی صحرا اپنی پوری وسعت اور بے رحمی کے ساتھ ہمارے سامنے تھا۔ ریت، کریر کے درخت، صحرائی جھاڑیاں اور بلندوبالا ٹیلے۔ یہ ٹیلے بھی عجب ہیں۔ ہوا کے ساتھ سرکتے اور اپنا مقام اور شکل مسلسل تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہی حال ریت کا ہے۔ یہاں ریت بھی اپنی شکل اور ہیئت بدلتی رہتی ہے۔ کہیں جمی ہوئی اور کہیں بھوبل کی طرح نرم۔ کہیں ایسی کہ پائوں جم جائے اور کہیں ایسی کہ پائوں دھنس جائے۔ جب اس قسم کی ریت آ جائے تو گاڑی چلانا مشکل ہو جاتا ہے مگر یہ صحرا کے اندر سفر کرنے کی پیکیج ڈیل کا حصہ ہے۔
تقریباً دو عشرے بعد اس جانب سے صحرا میں داخل ہوا تو اندازہ ہواکہ صحرائی وسعت، آب وہوا، علاقہ، ریت اور راستے تو وہی ہیں‘ اس کے باوجود صحرا ویسا نہیں رہا۔ موٹر سائیکلوں کی بہتات نے ادھر چھوٹے چھوٹے راستوں اور پگڈنڈیوں کی ایسی بہتات کردی ہے کہ سفر کرنے میں جو اناڑی پن کی تھوڑی بہت آسانی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے۔ پہلے یہ بتایا جاتا تھاکہ آپ اس راستے پر سیدھے چلتے جائیں اور راستہ نہ چھوڑیں تو آپ سیدھے فلاں ٹوبے پر پہنچ جائیں گے، مگر اب ہر ایک آدھ میل کے بعد راستے سے دوسرا راستہ نکل رہا تھا۔ اگرچہ گائیڈ کے ساتھ ہوتے ہوئے کھو جانے یا راستہ بھولنے کا ڈر نہیں تھا مگر جو سفر میں ایک بے فکری تھی وہ رخصت ہوچکی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے دائیں طرف ہوبارہ فائونڈیشن کا وسیع و عریض جنگلہ آگیا۔
ہوبارہ فائونڈیشن کے اس جنگلے میں سینکڑوں چنکارہ ہرن شکاریوں کی دستبرد سے محفوظ ہیں اور اپنی نسل بڑھا رہے ہیں۔ اسی جنگلے میں اب سیاہ ہرن بھی لائے گئے ہیں۔ یہ جنگلہ لال سوہانرا میں حکومتی جنگلے سے بہت زیادہ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور یہاں ہرن نسبتاً زیادہ قدرتی ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ جنگلہ صحرا کے اندر ہے اور اس سے آگے دور دور تک کوئی بڑی آبادی نہیں؛ البتہ چولستان کے روایتی ''ٹوبے‘‘ اور ان ٹوبوں کے ساتھ آباد چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں۔ چولستان میں باقی صحرائوں کی مانند پانی ہی زندگی اور آبادکاری کی علامت ہے۔ چولستان ان ٹوبوں کے دم سے آباد تھا۔ دو عشرے قبل بچوں کے ہمراہ اسی طرح صحرا کے اندر دور تک سفر کیا تو بچے زندگی میں پہلی بار ریت کے سمندر کے اندر ان گدلے پانی کے ٹوبوں کو دیکھ کر حیران ہوئے کہ کس طرح یہاں کے باسی خود اور ان کے جانور ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں اور تالاب بھی ایسے جن میں آدھ آدھ کلوگرام کے مینڈک پھدک اور ٹرا رہے تھے۔ ٹوبے کا گدلا پانی ہی یہاں زندگی کی علامت تھا۔
اس بار ریسٹ ہائوس سے نکل کر پچیس تیس کلومیٹر دور پہلے ٹوبے پر پہنچا تو ٹوبہ بارش نہ ہونے کے باعث سوکھ چکا تھا۔ لوگ وہاں سے کسی دوسری جگہ ہجرت کر چکے تھے اور چند خالی مکان اچھے موسم کے منتظر تھے کہ بارش ہو، ٹوبہ بھر جائے اور ان کے مکین واپس آ جائیں۔ یہی حال اگلے ٹوبے کا تھا۔ تقریباً ساٹھ کلومیٹر کے لگ بھگ سفر کرنے کے بعد ہم اس علاقے کی سب سے بڑی آبادی ''سراں‘‘ پہنچ گئے۔ وہاں سارا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ ساری آبادی ٹوبے کی محتاجی سے آزاد ہو چکی تھی۔ آبادی کے عین درمیان میں ایک پانی کی ٹینکی تھی، ساتھ ایک عدد ''سب مرسیبل پمپ‘‘ چل رہا تھا اور اوپر لگی ہوئی ٹوٹی سے پانی شرشر بہہ رہا تھا۔
پنجاب کے دیہاتوں میں بجلی نہیں ہوتی تھی اور پانی کا ذریعہ صرف ہینڈ پمپ اور کنوئیں ہوتے تھے۔ ظاہر ہے پانی کی فراہمی محدود تھی‘ اس کے باوجود ہر گائوں اور دیہات میں استعمال ہونے والے پانی کا نکاس وہاں موجود جوہڑ میں ہوتا تھا۔ یہ عرف عام میں ''چھپڑ‘‘ کہلاتا تھا۔ سارے گائوں کا گندا پانی اس میں جاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ہر چھپڑ پر قبضہ ہوگیا۔ چھپڑ نامی چیز بالکل غائب ہوگئی۔ کنوئیں اور ہینڈ پمپ کی جگہ لال پمپ نے لے لی۔ پہلے پانی کی فراہمی کم تھی اور اس کا نکاس جوہڑ میں ہو جاتا تھا۔ اب پانی کی فراوانی ہے اور آگے اس کے نکاس کا راستہ بند ہو چکا ہے۔ دیہات کی گلیاں جوہڑ بن جاتی ہیں۔ ترقیاتی فنڈز سے تعمیر کردہ نالیاں اور گلیاں پانی کا نکاس نہ ہونے کے باعث ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور سارا ترقیاتی فنڈ دو چار سالوں میں سو فیصد ضائع ہو جاتا ہے۔ ملک پر قرض چڑھتا جا رہا ہے۔ ترقیاتی کام صرف اور صرف ٹھیکیداروں، سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کیلئے نوٹ کمانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ادھر کام ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کی بربادی شروع ہو جاتی ہے۔ شہروں میں بھی حال برا ہے مگر دیہات میں ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونے والی رقم کی بربادی کی شرح شہروں میں ہونے والی خورد برد سے کہیں زیادہ اور سنگین ہے کہ دیہات میں دو چار سال کے بعد حالات وہی ہو جاتے ہیں جو پہلے تھے۔ نہ کوئی مستقل ترقی نظر آرہی ہے اور نہ ہی اس کی آئندہ کوئی امید نظر آ رہی ہے۔
اللہ جانتا ہے میں ترقیاتی کاموں کے ہرگز خلاف نہیں، یہ عوام کا حق ہے اور انہیں ملنا چاہیے مگر اس کیلئے ضروری لوازمات کا اہتمام کرنا حکومتی ذمہ داری تو ہے ہی، اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری ہم لوگوں پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے اردگرد کا خیال رکھیں۔ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے بُرے بھلے ترقیاتی کاموں کو ممکن حد تک محفوظ رکھیں اور بطور فرض شناس شہری اپنی ذمہ داریاں پوری کریں‘ مگر فی الحال اس کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ پبلک ٹوائلٹس سے لے کر گھر کے باہر پھینکے جانے والے کوڑے تک کی ذمہ داری بھی ہم نے سرکار کے کندھوں پر ڈال رکھی ہے جبکہ سرکار سے اپنا آپ نہیں چل رہا۔ معاشرتی ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے قانون سازی ہو اور اس پر سختی سے عمل ہو تو بات بن سکتی ہے وگرنہ سارے ترقیاتی کام اسی طرح برباد ہوتے رہیں گے اور ملک پر قرضے اور ان سے مستفید ہونے والوں کے اکائونٹ‘ دونوں بڑھتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved