تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     17-10-2021

کانگرس کی خود سوز سیاست

کانگرس کو پنجاب میں پیدا ہونے والے سنکٹ (دشواری) کے نتیجے میں کیا کیا ہو سکتا ہے؟ اس سنکٹ کا سب سے پہلا پیغام تو یہی ہے کہ کانگرس کی مرکزی قیادت کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ماں بیٹا اور بھائی بہن پارٹی کے نیتاؤں نے سب سے پہلے امریندر سنگھ کو مکھیہ منتری کا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو امریندر کیا اب چُپ بیٹھیں گے؟ وہ جو بھی فیصلہ کریں اپنی اس توہین کا بدلہ لے کر رہیں گے۔ جلد ہی ہونے والے پنجاب کے چناؤ میں امریندر سنگھ کا جو بھی پینترا ہو گا وہ کانگرس کی کاٹ کرے گا۔
دوسرا، نئے مکھیہ منتری کے لیے چرن جیت سنگھ چَنی کی تقرری سیاسی لحاظ سے مناسب تھی کیونکہ دیگر حریف پارٹیاں بھی اپنے اپنے نیتاؤں کو آگے کر رہی ہیں‘ لیکن پارٹی صدر نوجوت سنگھ سدھو کا استعفا اپنے آپ میں اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس نے کانگرس پارٹی کی رہی سہی ساکھ کو بھی تار تار کر دیا ہے۔ سدھو نے جو سوال اٹھائے‘ انہیں غلط نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے ایسے منتریوں اور افسروں کی تقرری پر سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے ہیں جو اکالی پارٹی کے سخت حامی رہے ہیں یا جن پر بھرشٹاچار (بدعنوانی) کے سنگین الزام رہے ہیں‘ لیکن سدھو کے اس اعتراض پر ان کا یکدم استعفا دے دینا کیا دو باتوں کا اشارہ نہیں ہے؟ ایک تو سدھو اپنی نظر اندازی سے اپمانت (بے عزت) محسوس کر رہے ہیں اور دوسرا، وہ اتنے گھمنڈی ہیں کہ انہوں نے اپنا اسنتوش (عدم اطمینان) دہلی کو بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا اور خود ہی فیصلہ کر لیا۔
پارٹی صدر ہونے کے ناتے وہ شاید چاہتے تھے کہ ہر تقرری میں ان کی رائے کو لاگو کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو مکھیہ منتری چنی ربڑ کی مہر کے علاوہ کیا دِکھتے؟ چنی کی تقرری کے وقت کہا جا رہا تھا کہ وہ تو چناؤ تک کام چلاؤ مکھیہ منتری ہیں‘ چناؤ تو لڑا جائے گا سدھو کے نام پر اور وہی پکے مکھیہ منتری بنیں گے‘ لیکن ان کے استعفے نے کانگرس کو اتنا بڑا جھٹکا دے دیا ہے کہ اس پارٹی کا چناؤ جیتنا اب مشکل ہو گیا ہے۔ اب پنجاب کانگرس کئی خیموں میں بٹ گئی ہے۔ اب امریندر اور سدھو کے ہی دو خیمے نہیں ہیں، اب سنیل جاکھڑ، سکھجندر رندھاوا اور رانا گورجیت سنگھ کے خیمے بھی اپنی اپنی تلوار استعمال کئے بغیر نہیں رہیں گے۔ ٹکٹوں کے بٹوارے کو لے کر خانہ جنگی ہو گی۔ اب جو بھی نیا کانگرس صدر بنے گا یا اگر سدھو پھر لوٹیں گے تو یہ مان کر چلئے کہ انہیں کانگرس کے مفلوج جسم کو چناؤ تک اپنے کندھوں پر گھسیٹنا ہو گا۔ کانگرس کے اس اندرونی دنگل نے عآپ پارٹی، بھاجپا اور اکالی دل کی باچھیں کھلا دی ہیں۔ اگر سدھو کو واپس لایا جاتا ہے تو چنی کی پوزیشن صفر ہو جائے گی اور اگر سدھو کا استعفا منظور ہوتا ہے تو کانگرس سر کے بغیر جسم بن جائے گی۔ پنجاب کے اس حادثے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کانگرس جیسی مہان پارٹی اب بھسماسر (خود سوز) کا روپ دھارن (اختیار) کرتی جا رہی ہے۔
امریکہ کی ہاں میں ہاں کیوں ملائیں؟
پردھان منتری نریندر مودی کا امریکہ کا دورہ بھارتی میڈیا میں کئی دن چھایا رہا۔ اب بھی کبھی کبھی اس پر بات ہو جاتی ہے۔ سبھی ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں اس دورے کو سب سے اونچا مقام ملا لیکن اب جبکہ یہ دورہ مکمل ہوئے بھی کافی دن ہو چکے ہیں تو مناسب ہو گا کہ ہم بھارتی اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں کہ کیا کھویا کیا پایا؟ کیونکہ یہ بہت ضروری اور اہم ہے۔ میری رائے میں اس دورے کے دوران صرف دو باتیں ایسی ہوئیں جنہیں ہم معنی خیز کہہ سکتے ہیں۔ ایک تو امریکہ کی پانچ بڑی کمپنیوں کے کرتا دھرتا افراد سے مودی کی ملاقات ہوئی جس میں اہم معاملات پر بات چیت ہوئی۔ یہ ملاقات اگر کامیاب ہوئی ہے تو بھارت میں کروڑوں اربوں کی بدیشی (غیر ملکی) پونجی کی سرمایہ کاری ہو گی اور یوں تکنیکی شعبے میں بھارت چین سے بھی آگے نکل سکتا ہے۔
دوسری معنی خیز بات یہ ہوئی کہ امریکہ سے مودی اپنے ساتھ 157 ایسی قدیم اور نایاب بھارتی کلاکرتیاں اور مورتیاں بھارت لائے ہیں جنہیں کسی نہ کسی بہانے بدیشوں میں لے جایا جاتا رہا۔ یہ بھارت کے ثقافتی فخر کی حفاظت کے نظریہ سے بہترین پالیسی ہے لیکن سیاسی نظریہ سے مودی کے اس امریکہ دورے سے بھارت کو ٹھوس فائدہ کیا ہوا؟ بھارت کی وزارت خارجہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ امریکہ جیسے دیش نے پہلی بار یہ کہا ہے کہ بھارت کو سکیورٹی کونسل کا ممبر بنایا جائے۔ میری رائے میں امریکہ کا یہ بیان صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ اس سے آگے کچھ نہیں ہو گا۔ اقوام متحدہ کا پورا ڈھانچہ جب تک نہیں بدلے گا، تب تک سکیورٹی کونسل میں سدھار کی امید کرنا ہوا میں لٹھ چلانا ہے۔ چوگٹے (کواڈ) کی میٹنگ میں نئی بات کیا ہوئی؟ چاروں نیتاؤں نے پرانے بیانوں کو پھر سے دوہرا دیا اور بس‘ یعنی آمدند‘ نشستند‘ گفتند‘ برخاستند والا معاملہ ہوا۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
اگر ترگٹا (آکس) نے جیسے آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوزیں دلوا دیں، ویسے ہی 'کواڈ‘ بھارت کو بھی دلوا دیتا تو کوئی بات ہوتی۔ اقوام متحدہ میں دئیے گئے اپنے بھاشن میں مودی نے تحمل سے کام لیا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ افسروں نے مودی کا ہندی بھاشن پہلے سے ہی تیار کر کے رکھا ہو گا‘ لیکن بھارت کی مہیلا سفارت کار نے نہلے پر دہلا مار دیا۔ ابھی بھارت امریکہ تعلقات عروج پر ہیں لیکن مودی کو سبق لینا ہو گا۔ امریکہ صرف تب تک آپ کے ساتھ رہے گا جب تک اس کے مفادات سدھ ہوتے رہیں گے۔ جونہی چین سے اس کے تعلقات ٹھیک ہوئے وہ بھارت کو لٹکا دے گا۔ اس لیے میں برابر کہتا رہا ہوں کہ ہماری اپنی بنیادی افغان پالیسی ہونی چاہئے۔ ہم امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کی مجبوری کیوں دکھائیں؟
بھارتی خارجہ پالیسی پر نئے سجھاؤ
دہلی کی 'سینٹر فار پالیسی ریسرچ‘ نے حال ہی میں ایک اہم مقالہ شائع کیا ہے جو موجودہ بھارتی سرکار کے لیے مفید ہو سکتا ہے‘ اگر وہ اس پر توجہ دے۔ اس سینٹر کا قیام ہمارے معزز دوست ڈاکٹر پائی پندیکر عمل میں لائے اور یہ ریسرچ سینٹر بنیادی ریسرچ اور بے خوف تجزیہ کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس سینٹر کے تازہ مقالے کے رچنا کاروں میں بھارت کے بے حد تجربہ کار ڈپلومیٹ‘ فوجی افسر اور ودوان (دانش ور) لوگ شامل ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی پر ہماری اندرونی سیاست پر حاوی ہو رہی ہے۔ موجودہ سرکار اکثریت واد (یعنی ہندوتوا) محوری کرن اور تقسیم کاری سیاست چلا رہی ہے تاکہ اگلے چناؤ (الیکشن) میں اس کے تھوک ووٹ پکے ہو جائیں۔ اس وقت بھارتیہ جمہوریت جتنے تنگ نظر راستہ پر چل پڑی ہے پہلے کبھی نہیں چلی تھی۔ بھارتیہ خارجہ پالیسی پر ہماری اندرونی سیاست کا انکش کسا ہوا ہے۔ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت نے چوگٹے (کواڈ) میں اینٹری لے لی ہے‘ لیکن کیا بھارت مہا شکتی امریکہ کا مہرہ بننے سے رک سکے گا؟ سرد جنگ کے زمانے میں سوویت سنگھ کے ساتھ گہرے تعلقات بنائے رکھتے ہوئے بھی کسی اتحاد میں بھارت شامل نہیں ہوا تھا۔ امریکہ کے اشارے پر چین سے مڈ بھیڑ کرنے کے بجائے بہتر یہی ہو گا کہ ہم چین کے ساتھ 'کولوپیٹو ماڈل‘ یعنی تعاون اور مقابلہ آرائی کا طریقہ اپنائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved