تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     17-10-2021

شہرِ سفید

بودرم ایئرپورٹ سے نکلے پندرہ منٹ ہوئے تھے کہ بحر ایجین کے نیلے پانیوں نے استقبال کیا۔ یہ سارا علاقہ اونچے نیچے خوب صورت پہاڑی راستے پر مشتمل تھا اور دائیں طرف کافی نیچے تا حد نظر سمندر پھیلا ہوا تھا۔ کچھ آگے جاکر سڑک ایک پہاڑی پر چڑھنے لگی۔ پہاڑی سرسبز تھی اور زیادہ بلند بھی نہیں تھی۔ اس کی چوٹی پر پہنچ کر ڈرائیور نے گاڑی روکی۔ سامنے ہی میرا ہوٹل تھا۔ ابتدائی طور پر ایسا لگا کہ یہ کوئی خوش منظر جگہ نہیں ہے‘ اس سے بہتر جگہیں ہوسکتی ہیں لیکن بہرحال بکنگ یہیں تھی تو اب جو بھی ہو، بھگتنا ہی تھا۔
ترکی میں ایک بڑا مسئلہ زبان کا ہے۔ جو شہر اور مقامات سیاحت کیلئے مشہور ہیں، وہاں بھی انگریزی بولنے اور سمجھنے والا خال خال پایا جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ جن ہوٹلز کا روز غیرملکی سیاحوں سے واسطہ پڑتا ہے وہ کیسے کام چلاتے ہوں گے۔ اس ہوٹل میں بھی جو خوبصورت، نوجوان مگر خاصے روکھے اور بے مروت لہجے والی لڑکی ریسپشن پر تھی، اسے انگریزی سے زیادہ واسطہ نہیں تھا، سمجھنے سے بھی اور بولنے سے بھی۔ 'و من ترکی نمی دانم‘ والا مسئلہ یہاں بھی درپیش تھا۔ اسے میری بکنگ اور ان کی تاریخوں کا تو علم تھا لیکن میں جاننا چاہتا تھاکہ جو کمرہ میں نے بک کرایا تھا کیا وہی مجھے دیا جارہا ہے، اور طے شدہ ریٹس پر؟ نیز یہ کہ یہاں دو دن رک کر مجھے دو دن کیلئے آگے داتچا کا سفر کرنا تھا اور واپسی پر پھر ایک دن یہیں قیام کرنا تھا۔ واپسی پر قیام کی بکنگ موجود ہے؟ یہ سب باتیں انگریزی میں اس کے سر سے گزر گئیں اور وہ مجھے مسلسل سوالیہ نظروں سے دیکھتی رہی۔ اب میر ے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھاکہ اپنے ایک ترک دوست سے اس کی بات کرواؤں اور وہ ساری بات اس پر واضح کرے۔ کسی طرح یہ مرحلہ طے ہوا اور پورٹر میرا سامان لے کر وہ سیڑھیاں اترنے لگا جو لگتا تھا کسی تہہ خانے یا نچلی منزل کی طرف جارہی ہیں۔ ذرا سا نیچے اترے اور ایک دروازہ گزر کر مڑے تو اپنے انتخاب پر خوشی محسوس ہونے لگی۔ سامنے ہی ایسا مبہوت کن منظر تھا کہ یا تو سانس رکنے لگے ورنہ تیز تیزچلنے لگے۔ یہ ہوٹل پہاڑی چوٹی سے ڈھلان کی طرف کئی منزلوں پربنا ہوا تھا۔ ریسٹورنٹس، ٹیرس، پول بار اور دو سوئمنگ پول۔ نیلے جگمگاتے پہلے سوئمنگ پول کے اس پار کافی نیچے سرسبز ڈھلانوں کے پار نیلا سمندر تھا۔ ایساکہ ہاتھ بڑھاؤ اور چھولو۔ خنک چھاؤں والے اونچے گھنے پہاڑی درخت‘ جو شاید پائن یا دیودار کی قسم سے تھے، نچلی ڈھلان سے سربلند ہوتے ہوئے اوپر آکر منظر پر مناسب حد تک سایہ کررہے تھے۔ اس خنک چھاؤں میں سامنے سوئمنگ پول کے اس پار ایک حسین رومن محراب تھی۔ اس محراب کے اندر نیم گولائی میں ایک بالکنی تھی۔ بالکنی کی آخری حد پر ریلنگ پر ہاتھ ٹکا کر گھنٹوں سمندر کی طرف دیکھا جاسکتا تھا۔ بالکنی کے اندردو آرام کرسیوں کے درمیان ایک آتش کدہ تھا۔ یہ لوہے کا ایک بڑا سا پیالہ تھا جس میں لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑے بس ایک چنگاری، ایک شعلے کے منتظر تھے۔ نیم سرد موسم میں آگ لگتی ہوگی تو نارنجی شعلے اور سامنے سمندرکا منظر کیا طلسم پیدا کرتا ہوگا۔ رومن محراب سے باہر آکر لاجوردی سوئمنگ پول کے کنارے کنارے دھوپ سینکنے کی آرام کرسیاں بھی تھیں اور ذرا ہٹ کر چھاؤں میں بیٹھنے کیلئے سمندر کا رخ کیے صوفے پڑے تھے۔ قدم جما دینے والا حسن تھا لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی تھی۔ پورٹر ایک چھوٹی سی محراب سے گزار کراور چند سیڑھیاں چڑھ کر جن کمروں کی طرف مجھے لے گیا وہ باغیچے کی ایک لمبی‘ خوبصورت پٹی تھی۔ وہاں ایک دوسرا چھوٹا سوئمنگ پول تھا جس کے سامنے میرا کمرہ تھا۔ نیلے شفاف پانی میں جل پریاں نہا رہی تھیں۔ جہاں سوئمنگ پول ختم ہوتا ہے وہاں سے سمندر شروع ہوجاتا ہے اورایسا لگ رہا تھا جیسے یہ ایک ہی نیلے پانی کا تسلسل ہے اور دونوں کی سطح برابر ہے، درمیان میں بس ایک چھوٹی سی دیوار ہے۔ پول کے ساتھ ساتھ درختوں تلے دھوپ سینکنے کی آرام کرسیاں تھیں جن پر نیم دراز ہوکر بھی تاحد نظر کھلا سمندر سامنے تھا جس میں مرغابیوں کی طرح جہاز، کشتیاں اور بجرے تیر رہے تھے۔ ایک ایسا کھلا منظر جو پلکیں جھپکنے کی اجازت بھی نہیں دیتا تھا۔ ایک ایسی تصویر جس میں رنگ بھی بدل رہے تھے اور سہ پہرکی کرنوں کے زاویے بھی۔ ایک ایسی منجمد تصویر جس کے اندر آہستہ رو ہلچل اور غیرمحسوس حرکت تھی۔ خدایا! یہ زمین، یہ تصویر اتنی حسین ہے تو اسے بنانے والا کتنا حسین اور کتنا بڑا مصور ہوگا۔
کمرہ آرام دہ اور ضروری سہولیات سے لیس تھا۔ اب شام تک کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ آرام کیا جائے یا ٹکٹکی باندھ کر اس منظر کا حصہ بنا جائے۔ اچھی بات یہ تھی کہ کمرے سے بھی وہ منظر اوجھل نہیں ہوتا تھا، سامنے ہی رہتا تھا۔ اور یہ اس ہوٹل کی بڑی خوبی تھی۔ میں نے کافی بنائی اور مگ لے کر ڈھلتے سورج کے روبرو آکر کھڑا ہوگیا۔ ہم پہاڑی کی چوٹی پر تھے اوردائیں طرف نیچے پہاڑی سرسبز ڈھلانوں پر بودرم کا قصبہ تھا۔ میں نے نوٹ کیاکہ شہر کی تمام عمارتوں کا رنگ سفید ہے۔ یہ التزام اتفاقی نہیں تھا۔ یہ منظر اور رنگوں سے کھیلنے کی ایسی ہی پُرکشش کوشش تھی جو ان یونانی اور اطالوی پہاڑی بستیوں میں اختیار کی جاتی ہے جو بحرروم کے کھلے رخ پر واقع ہیں۔ میں نے ان محراب دار سیڑھیوں کی طرف دیکھا جن کے آخر میں نیلا سمندر ایک فریم میں جڑی تصویر کی طرح نظر آتا تھا۔ ان بوگن ولیا پھولوں کے سرخ رنگ محسوس کیے جو اس علاقے میں مزید خوبصورت لگتے ہیں۔ بحر روم کے کنارے پہاڑیوں پر چوٹی سے سمندر تک بسی بستیوں کا ایک مخصوص طرز تعمیر ہے جو اس پورے علاقے میں پایا جاتا ہے‘ خواہ وہ بحر ایجین کے کنارے بسے ترک شہر ہوں، یا ایجین اور بحرروم کے کنارے یونانی اور اطالوی بستیاں۔
میرے حافظے کے نقرئی پردے پر کئی فلمیں چلنے لگیں۔ وہ فلمیں جن میں یونانی جادوئی بستی سانتورینی (Santorini) کو فلمایا گیا تھا۔ سانتورینی بھی ایجین کنارے ہے‘ بودرم سے زیادہ فاصلے پر نہیں مگر یونان میں۔ نیلے شفاف سمندر کے کنارے سنہری دھوپ میں نہاتی پہاڑیوں پر بسا ہوا ایک طلسمی شہر جہاں تمام مکان سفید چونے سے براق تھے، کہیں کہیں ان کے سروں پر خوبصورت گہرے نیلے رنگ کے گنبد تھے۔ چھوٹے چھوٹے گھر جن کے آنگن کھلے سمندر کے رخ پر کھلتے تھے۔ بحرروم کی مخصوص طرز تعمیر۔ اونچی نیچی تنگ بل کھاتی گلیاں جس میں خوبصورت لوگ رہتے تھے۔ نیچے، بہت نیچے نیلا سمندر جو حدنظر تک پھیلا ہوا تھا۔ اس سمندر میں جیٹی جن کے کنارے کشتیاں کھڑی تھیں۔ فلموں میں دیکھے ہوئے منظر ذہن سے چپک گئے تھے اور آج میں ایسے ہی ایک منظر کے کونے میں مبہوت کھڑا تھا۔ میں نے نظر اٹھا کر بودرم کے سامنے بحرایجین میں ہیولوں کی طرح نظر آتے یونانی جزیروں کو دیکھا۔ انہی میں کہیں سانتورینی بھی تھا یا کہیں ان جزیروں کے پار چھپا ہوا تھا؟ کون جانے۔ اتنا تو پتہ ہے سمندری مسافت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان دس بارہ گھنٹے سے زیادہ کا فاصلہ نہیں تھا۔ زیادہ دیر نہیں لگی تھی کہ منظر نے رنگ بدلے۔ سورج پہلے نارنجی سے زرد ہوا اور پھر سونے کا ایک تھال بن کر سامنے پہاڑیوں اور سمندر کے بیچ ڈوبنے لگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved