تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     17-10-2021

ناگزیر مصنوعی بارش

1960ء کی دہائی میں دنیا میں مصنوعی اشیا کے بغیر انسانی بقا تقریباً خطرے میں پڑ گئی تھی ۔ یہ دشواری ا نسانی آبادی میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے تھی کیونکہ دنیا کی کل آبادی چار ارب کی طرف بڑھ رہی تھی۔ 1930ء کے مقابلے میں دوگنا اضافے کے ساتھ 1975ء میں دنیا کی آبادی چار ارب ہو گئی ۔اس مرحلے پر قدرتی طریقوں سے پیدا کردہ غذا سے دنیا کی بھوک مٹانا نا ممکن ہو گیا تھا ؛چنانچہ بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے غذائی فصلوں کے ایسے بیج بنائے گئے جو فی ایکڑ ڈبل یا اس سے بھی زیادہ پیداوار دیتے تھے ۔اس میں چاول اور گندم کی فصلوں کے بیج سب سے پہلے ایجاد کئے گئے۔ اسی طرح مکھن اور دیسی گھی کے ساتھ بناسپتی گھی بنانا شروع کیا گیا ۔ اسی طرح مصنوعی کھادیں بنائی گئیں تا کہ پیداوار بڑھائی جا سکے۔اس کڑی کی ایک بڑی انسانی ایجاد برائلر مرغی ہے جو انڈوں اور گوشت کی ضرورت پوری کرتی ہے ۔اب ذکر ایک ایسی مصنوعی طریقے سے پیدا کردہ تخلیق کا جو ساٹھ سال پرانی ہے مگر ہم اس سے زیادہ واقف نہیں اور اس سے استفادہ ہر گز نہیں کر سکے ۔جی ہاں ! یہ ہے مصنوعی بارش ‘جس کا ذکر آپ نے کسی تحریر میں یا پھر کسی سوشل میڈیا کی ویڈیومیں دیکھا یا پڑھا ہو گا ‘لیکن ہم اس انسانی تخلیق سے بالکل دور ہیں جبکہ ضرورت ہمیں سب سے زیادہ ہے۔
یہ بارش صرف نام کی مصنوعی ہے کیونکہ اس کا طریقہ اور اس سے حاصل ہونے والے اثرات مکمل قدرتی ہوتے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں پورے جنوبی ایشیا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے اس بارش کا ذکر اور اس کو حقیقت کا روپ دینے کا وقت آ چکا ہے۔ اکتوبر کے مہینے کے آخر میں سموگ نام کی زہریلی دھند کا راج ہمارے پورے علاقے میں شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس دھند سے پیدا ہونے والی مشکلات کی وجہ سے نفسیاتی دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس زہریلی دھند کی وجہ سے سانس لینے میں دقت ہوتی ہے اوردمہ اور دل کے مریضوں کی جان کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔لوگ ورزش تو درکنار سیر کرنے کیلئے بھی گرائونڈ کا رخ نہیں کر سکتے ۔اس دھند کے دنوں میں سورج کی روشنی زمین تک پوری طرح نہیں پہنچ سکتی جس کی وجہ سے فصلوں اور دیگر نباتات کو اپنی خوراک پیدا کرنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے کیونکہ تمام قسم کے پودے سورج کی روشنی کے مرہون منت ہیں اور اپنی غذا اسی سے پیدا کرتے ہیں۔اس زہریلی دھند کی وجہ سے سورج کی روشنی میں نہ صرف خلل پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ آلودہ بھی ہو جاتی ہے جو ہر جاندار کیلئے پر خطر ہو جاتی ہے ۔
اس دھند نما آفت سے بچنے کیلئے ہم بہت کم درجے کے اقدامات کرتے ہیں ‘جیسا کی اینٹیں بنانے والے بھٹے بند کرنا ‘ چاول کی فصل کی باقیات کو نہ جلانے کی ہدایات جاری کرنا اور لوگوں کو حفاظتی تدابیرسے آگاہ کرنا وغیرہ۔ حد تو یہ ہے کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں تک بند نہیں کی جاتیں۔اس دھند کے چھٹنے کیلئے ہم ایک چیز کا انتظار کرتے ہیں اور وہ ہے بارش ‘ جس کی وجہ سے اس دھند کو پیدا کرنے والے ذرات زمین پر واپس آجاتے ہیں اور اس آفت سے جان چھوٹتی ہے لیکن نومبر کے مہینے میں اوسط بارش بمشکل ایک ہی ہوتی ہے اور وہ بھی زیادہ بھاری نہیں ہوتی اس لئے ملک گیر سطح پر اور بالخصوص میدانی علاقوں اور اس سے بھی بڑھ کر شہری علاقوں میں بارش برسانے کا مصنوعی انتظام کیا جانا چاہیے اور یہ کام پورے جنوبی ایشیا میں ہونا ضروری ہے ۔
اب آتے ہیں اس مصنوعی بارش کو ممکن کرنے کے طریقے کی طرف ‘ تو پتا چلتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں متحدہ عرب امارات اور کچھ دوسری ریاستیں اسی کے سہارے اپنی پانی کی ضروریات پوری کر رہی ہیں۔قصہ کچھ یوں ہے کہ بارش کا سلسلہ ہوا میں موجود آبی بخارات پر منحصر ہوتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہوا کسی بھی طرح ٹھنڈی ہو جائے تو اس میں ان بخارات کو اپنے اندر اٹھانے کی سکت ختم ہو جاتی ہے اور بارش ہو جاتی ہے ۔اسی طرح بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بادل آتے ہیں ‘بارش کا امکان پیدا ہوتا ہے حتیٰ کہ بعض دفعہ ہلکی بوندا باندی ہوکر معاملہ ختم ہو جاتا ہے ۔اصل میں ایسی موسمی کیفیت میں بارش برسانے کا مصنوعی طریقہ سب سے زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ اس کیلئے جہاز کی مدد سے فضا میں بادلوں کے اوپر نمک یا خشک برف کا چھڑکائو کیا جاتا ہے۔یہ دونوں چیزیں بادلوں کو بارش برسانے پر مجبور کر دیتی ہیں اور بہت آسانی کے ساتھ بارش ہو جاتی ہے۔یہ ٹیکنالوجی اس قدر مؤثرہے کہ اگر آپ کسی خاص دن یا تقریب کو بارش سے بچانا چاہتے ہیں تو آپ قدرتی طور پر پیدا ہونے والے بادلوں کو وقت سے پہلے برسنے پر مجبور کر سکتے ہیں حتیٰ کہ آپ اس کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں۔چین نے 2008ء میں اپنے ہاں ہونے والے اولمپکس کی افتتاحی تقریب والے دن سو فیصد ممکنہ بارش کو مقررہ دن سے پہلے برسنے پر مجبور کر کے افتتاحی تقریب کی رونق کو ماند پڑنے سے بچا لیا تھا ۔چلیں ہم بات کرتے ہیں اپنی‘ ہم نہ تو رخ موڑتے ہیں اور نہ ہی کچھ اور مگر کم از کم اس زہریلی دھند سے چھٹکارے کیلئے اس سے ضرور استفادہ کرنے کی جستجو شروع کرتے ہیں۔اس کیلئے محکمہ موسمیات ‘سپارکوا ور اس سے متعلقہ دیگر اداروں کی توجہ اس طرف مائل کرنے کی بھر پور استدعا ایک مطالبے کے طور کرتے ہیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ اگر اس سلسلے میں انتظامات مستقل بنیادوں پر کر لئے جائیں اور ایک شعبہ قائم کر دیا جائے تو اس طرح کی بارش کی مدد سے سردیوں میں دھند کی وجہ سے ٹریفک اور فضائی رابطوں میں پیش آنے والی مشکلات پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر ہم اپنے شمالی علاقوں کے پہاڑی سلسلوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں تقریباً پورا سال بادل موجود ہوتے ہیں جن کو برسنے پر مجبور کر کے ہم اپنی پانی کی کمی پر قابو پا سکتے ہیں۔یہ کوئی بہت دور کی بات نہیں ہے دبئی نے اس کام کیلئے اپنے ہاں پہاڑوں میں ایک ایسا ڈیم بنا رکھا ہے جس کو وہ مصنوعی بارش کے ذریعے بھر لیتے ہیں اور اپنا پانی کا مسئلہ حل کرتے ہیں ۔یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دبئی میں بادل نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اس لئے ان کو ڈبل سے بھی زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے ۔اس بارش کیلئے وہ پہلے بادل پیدا کرتے ہیں اور پھر بارش کو برسنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اب بات نصیحت ‘مشورہ اور بحث سے آگے کی ۔پوری دنیا میں یہ کام یونیورسٹیاں کرتی ہیں‘مگر اس کیلئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ۔مغربی دنیا میں یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو یہ وسائل فرہم کر دیے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں تو پروفیسر صاحبان ابھی تک اپنی تنخواہ میں ایسے الاؤنس کیلئے مطالبات کر رہے ہیں جو دیگر محکموں کو دیے جا رہے ہیں ‘اس کا مشہور عام نام Disparity Allowanceہے ۔پھر بھی ایک پروفیسر صاحب اپنے طور پر کوشاں ہیں اور اس بات کو ممکن کرنے کیلئے یا یوں کہہ لیں کہ حکومت اور اس کے محکموں کی توجہ اس طرف لانے کیلئے بہت چھوٹے پیمانے پر مصنوعی بارش برسانے کا تجربہ نومبر میں کرنے جارہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی ایک چھوٹے پیمانے پر تجربے سے اس عملی شکل کی طرف بڑھے گی لیکن قومی سطح پر اس کو ممکن کر کے ایک نئی نیم انقلابی صورت پیدا کرنا ضروری ہی نہیں ناگزیر ہو چکا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved