دنیا بھر میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ انسان میں تخلیقی جوہر ہونا چاہیے۔ تخلیقی جوہر کیا ہے؟ یہ کہ انسان تخلیق کار کی حیثیت سے سوچے‘ کچھ نیا کرنے پر متوجہ ہو‘ اپنی سوچ میں منہمک ہو اور پھر کچھ ایسا کرے جو دوسروں سے ہٹ کر ہو۔ تخلیقی جوہر سے متعلق بہت سے مغالطے پائے جاتے ہیں۔ ہم سبھی زندگی بھر اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہماری مشکلات دور کرے۔ تخلیقی جوہر کہیں باہر سے نہیں آتا۔ یہ ہم میں ہوتا ہے اور ہمیں اسے شناخت کرکے پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں‘ بلکہ اربوں افراد کے ذہن کو تخلیقی جوہر سے متعلق چند مغالطے جکڑے رہتے ہیں۔ ڈیوڈ برکس نے اپنی کتاب ''دی مِتھز آف کریئیٹیویٹی‘‘ میں 10 بڑے مظالطے گنوائے ہیں۔ جو تخلیقی جوہر کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے رہتے ہیں۔ ڈیوڈ برکس نے بتایا ہے کہ جو لوگ تخلیقی جوہر کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہوتے ہیں وہ زیادہ کامیاب رہتے ہیں اور بھرپور زندگی بسر کرتے ہیں۔
اگر آپ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں پارہے تو یقین کیجیے کہ ڈیوڈ برکس کے بیان کردہ 10 مغالطوں میں سے کوئی ایک یا چند مغالطے آپ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے کس چیز نے روک رکھا ہے۔ کون سا مغالطہ ہے جو آپ کے ذہن کے پاؤں کی زنجیر ہوکر رہ گیا ہے؟ ہاوررڈ بزنس سکول کی پروفیسر ٹیریزا ایمابائل کا کہنا ہے کہ تخلیقی جوہر یا صلاحیت پر چار معاملات اثر انداز ہوتے ہیں : مہارتیں‘ تخلیقیت یا تخلیقی عمل کے مراحل‘ کام سے تحریک اور متعلقہ معاشرتی ماحول۔ ان چاروں معاملات میں صرف معاشرتی ماحول ہے جو متعلقہ فرد یا افراد کے وجود سے باہر کی چیز ہے۔ جب بھی کسی میں تخلیقی جوہر ابھرتا ہے تو اندر ہی سے مزاحمت بھی ابھرتی ہے۔ تخلیقی جوہر دراصل ہم سے بہت کچھ کرنے کا تقاضا کرتا ہے اس لیے تحت الشعور یا لاشعور اس کے خلاف ڈٹا رہتا ہے۔ ہر انسان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اُس کے معمولات میں کچھ خاص فرق واقع نہ ہو اور زندگی میں نمایاں فرق دکھائی دے۔ تخلیقی جوہر کے خلاف انسان کے باطن سے ابھرنے والی شدید مزاحمت کو سٹیون پریسفیلڈ نے اپنی کتاب ''دی وار آف آرٹ‘‘ میں ''دی گریٹ بُلی ریزسٹنس‘‘ کا نام دیا ہے۔ ڈیوڈ برکس کا استدلال یہ ہے کہ 10 مغالطے دراصل 10 بہانے ہیں جو ہم اپنے تخلیقی جوہر کو بروئے کار لانے سے بچنے کے لیے جواز کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
اگر ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ کچھ بننے کی تمنا ہے تو کسی بھی عظیم تصور کو کہیں باہر سے لانے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ ہمارے اندر موجود ہے۔ ہمارا ذہن بہت کچھ جانتا اور کرنا جانتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اُسے بروئے کار لانا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ آئیے‘ تخلیقیت کی طرف بڑھنے سے روکنے والے مغالطوں کا جائزہ لیں۔ پہلا مغالطہ : The Eureka Myth اگر آپ درست جگہ اور درست وقت پر ہوں تو حالات کچھ ایسی شکل اختیار کریں گے کہ آپ کی صلاحیت خود بخود ظاہر ہوجائے گی اور آپ سمجھ بھی نہ پائیں گے کہ ایسا کیسے ہوگیا۔ حقیقت : تخلیقی جوہر رکھنے والے افراد کے ذہن میں کوئی آئیڈیا جنم لیتا ہے‘ وہ اُسے پروان چڑھاتے ہیں‘ تدبر کرتے ہیں اور پھر جو کچھ سوچا ہوتا ہے اُس کی روشنی میں وہ عمل کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ تخلیقی جوہر محض تحفہ نہیں بلکہ غیر معمولی انہماک اور مشقّت کا نتیجہ ہے۔
دوسرا مغالطہ : The Breed Myth تخلیقی صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے۔ انسان تخلیقی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ یعنی یہ کہ تخلیقی جوہر توارث کا نتیجہ ہے۔ حقیقت : کسی بھی انسان کی شخصیت کی تشکیل میں پانچ عوامل بنیادی یا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بیروں بینی یعنی اپنی ذات سے نکل کر چیزوں کو دیکھنا‘ باضمیری یعنی اس دنیا کو کچھ دینے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنا‘ دوسروں سے غیر معمولی مطابقت پیدا کرنا اور اُنہیں قبول کرنا‘ دل اور دماغ کا کھلا پن یعنی اپنی ذات سے ہٹ کر جو کچھ بھی ہے اُسے قبول کرنا اور اپنے آپ کو اُس کے مطابق ڈھالنے کے لیے تیار رہنا اور کسی قدر اعصابی شدت یا عدم توازن۔ تخلیقی جوہر کا توارث سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ وصف انسان ذہن کے ارتکاز اور محنت سے سیکھتا ہے۔ تیسرا مغالطہ: The Originality Myth ہر عظیم آئیڈیا کسی کی منفرد تخلیق ہے۔ حقیقت : کوئی بھی بڑا آئیڈیا کسی ایک فرد کے ذہن میں نہیں پنپتا۔ دنیا بھر میں لوگ سوچ رہے ہوتے ہیں اور سوچے ہوئے کے مطابق محنت بھی کرتے ہیں۔ بہت سے عظیم تصورات گزرے ہوئے زمانوں کی سوچ کا نتیجہ بھی قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ ٹیلی فون‘ ٹی وی‘ ریڈیو‘ کیلکولس‘ پرسنل کمپیوٹر اور دیگر بہت سی اشیا کا آئیڈیا بیک وقت متعدد شخصیات کے ذہن میں ابھرا۔ چوتھا مغالطہ : The Expert Myth غیر معمولی مہارت کے حامل افراد کے ذہنوں میں نئے اور منفرد آئیڈیاز کے پنپنے کے امکانات زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ حقیقت : دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شعبے میں مہارت رکھنے والوں کے لیے ایک سطح ضرور آتی ہے جب وہ کچھ نیا
سوچنے کے قابل نہیں رہتے۔ غیر معمولی مہارت کے حامل افراد کی سوچ محدود ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنے فکر و عمل کے اعتبار سے خاصے سخت گیر اور تبدیلی سے انکاری ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں قدرے کم علم‘ تجربہ یا مہارت رکھنے والے زیادہ کھل کر اور ہمت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ پانچواں مغالطہ : The Incentive Myth تخلیقی جوہر کی کارکردگی کا حجم اور معیار ترغیب و تحریک کے ذریعے بڑھایا جاسکتا ہے۔ حقیقت : مطالعے‘ مشاہدے اور تحقیق سے یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ غیر معمولی ترغیب و تحریک سے تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار بڑھنے کے بجائے گھٹ جاتا ہے۔ چھٹا مغالطہ : The Lone Creator Myth تخلیقی جوہر خالص انفرادی کارکردگی کا معاملہ ہے۔ جب کوئی کسی منفرد تصور پر جنونی انداز سے کام کرتا ہے تو دنیا کو تخلیقی جوہر کی عملی شکل دیکھنے کو ملتی ہے۔ حقیقت : تھامس ایڈیسن اور مائیکل انجیلو کے پاس بڑی ٹیمیں تھیں جو اُن کے منفرد آئیڈیاز پر کام کرتی تھیں۔ دونوں عظیم شخصیات جو کچھ سوچتی تھیں اُنہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے مہارت رکھنے والوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی۔ مائیکل انجیلو کے فن کے بہت سے نمونے ٹیم ورک کا نتیجہ تھے۔ساتواں مغالطہ : The Brainstorming Myth ہر منفرد خیال سے ندرت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ منفرد خیالات پروان چڑھانے سے کامیابی کو 100 فیصد یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ حقیقت : برین سٹارمنگ یعنی زیادہ سے زیادہ آئیڈیاز کے بارے میں سوچنے سے تخلیقی عمل کو تقویت ملتی ہے مگر پورے تخلیقی عمل کا کریڈٹ محض برین سٹارمنگ کو نہیں دیا جاسکتا۔ آٹھواں مغالطہ : The Cohesive Myth عظیم تصورات اُن ٹیموں کی طرف سے آتے ہیں جو مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہی ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اِن ٹیموں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ حقیقت : مطالعے‘ مشاہدے اور تحقیق سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ ہر اعتبار سے منظم اور متوازن ٹیمیں پوری ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کی صورت میں تخلیقی عمل کو زیادہ سے زیادہ 25 فیصد کی حد تک بہتر بناتی ہیں۔نواں مغالطہ : The Constraints Myth تخلیقی جوہر کو نمو پانے کے لیے ایسی آزادی درکار ہوتی ہے جس کی راہ میں کہیں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اور یہ کہ کسی بھی طرح کی پابندی تخلیقی صلاحیت کو دبوچ لیتی ہے۔ حقیقت : چند ایک پابندیوں سے تخلیقی جوہر کو پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کی واضح ترین مثال 12 ٹون کا میوزیکل سکیل ہے جو موسیقی کے حوالے سے عظیم ترین انقلاب کا نقیب بنا۔
دسواں مغالطہ : The Mousetrap Myth اگر آپ کے پاس کوئی عظیم آئیڈیا ہو اور آپ نے اُسے پروان بھی چڑھایا ہو تو دنیا اُس کی طرف لپکے گی‘ قبول کرے گی‘ سر آنکھوں پر بٹھائے گی۔ حقیقت : بہت سے لوگوں کو کسی بھی نئے تصور‘ خیال‘ نظریے یا فلسفے میں افادیت ڈھونڈنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔