تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     24-07-2013

تو عرب ہو یا عجم ہو‘ ترا ’لا الٰہ الاَّ‘

یہ صرف دو مزار نہیں جنہیں شہید کیا گیا۔ یہ دو علامتیں ہیں۔ ایک علامت اسلام میں ملوکیت کے آغاز کے خلاف اعلائے کلمۃ الحق بلند کرنے والے سیدنا امام حسینؓ کی مظلوم بہن سیدہ زینبؓ کا مزار اور دوسرا ایران اور روم کی شان و شوکت کو روندنے اور سرزمینِ شام پر اللہ کی توحید کا پرچم بلند کرنے والے حضرت خالد بن ولیدؓ کا مزار۔شام وہ سرزمین ہے جہاں صدیوں روم اور ایران غلبے کی جنگ لڑتے رہے۔ دنیا کی بدترین لڑائی وہ ہوتی ہے جب قبائلی‘ لسانی اور علاقائی تعصب کو مذہب کے دلکش نعرے میں لپیٹ کر لوگوں کا لہو گرمایا جائے۔ شام کی سرزمین کا مقدر بھی عجیب ہے۔ ہمیشہ یہ علاقہ دو بڑی قوتوں کی لڑائی کا مرکز رہا ہے۔ دنیا کے نقشے پر جو بھی عالمی طاقت ابھری اس نے شام کو زیرنگیں کرنے کی ضرور کوشش کی۔ 539 قبل مسیح میں اس زرخیز علاقے پر ایرانی قابض ہوئے اور پھر تقریباً دو سو سال ان کا اقتدار یہاں قائم رہا۔ اس کے بعد یونان سے سکندر طوفان کی طرح نکلا اور اس نے 332 قبل مسیح میں اسے فتح کر لیا۔ یونان کا اقتدار بھی تین سو سال رہا اور پھر روم کی طاقت اس پورے علاقے پر چھاگئی مگر اس کی بڑھتی ہوئی قوت سے مقابلہ کرنے کے لیے ایران کی افواج بھی میدان میں اترتی رہیں۔ اس پورے علاقے میں عربوں کے دو قبیلوں کا اثر و نفوذ تھا جو شام کے ارد گرد صحرائوں میں آباد ہو گئے تھے۔ ان کی بدوی زندگی انہیں شہروں میں آباد ہونے سے روکتی تھی لیکن اس صحرائی زندگی میں رہتے ہوئے بھی وہ شہری سہولیات اور آسائشوں کے گن گاتے۔ ان کے اونٹ اور بکریوں کے ریوڑ انہیں شہروں میں آباد نہ ہونے دیتے لیکن قبائلی طاقت کی وجہ سے انہوں نے ان شہروں پر اپنا غلبہ ضرورقائم کر لیا تھا۔ ان میں ایک قبیلہ غساّن تھا جو شام کی سرحد پر ایک طاقت ور حکمران کی حیثیت سے موجود تھا‘ جبکہ دوسرا قبیلہ لخمیوں کا تھا جو دریائے فرات سے اوپر شام کی جانب والے علاقے پر حاکم تھا جسے اس دور میں مملکت حیرہ کہتے تھے۔ جب کبھی روم اور ایران کی آپس میں جنگ ہوئی تو غساّن قبیلے کے افراد ایرانیوں کے خلاف روم کی مدد کرتے اور لخمی قبیلے کے افراد روم کے مقابلے میں ایرانیوں کا ساتھ دیتے۔ یہ سب کے سب عرب قبائل شام اور عراق کے درمیان صحرائے سماوہ میں آباد تھے۔ یہ تمام قبائل اسلام سے پہلے ایرانی اور رومی وفاداریوں میں بٹے ہوئے تھے‘ لیکن 25 ربیع الاول 13 ہجری یعنی 30 مئی 634 عیسوی میں جب حضرت خالدؓ بن ولید کا جیش نعرۂ تکبیر کا غلغلہ بلند کرتے یہاں پہنچا تو اس زمانے میں یہاں روم کا اقتدار قائم تھا۔ اتنے چھوٹے سے لشکر کے ساتھ ایک عالمی طاقت کی اتنی بڑی فوج کو شکست دینا انسانی تاریخ کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ جنگ یرموک میں اللہ کی اس بے نیام تلوار خالد بن ولیدؓ کی فوجی حکمتِ عملی آج بھی دنیا بھر کی فوجی درس گاہوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ شام جس سے عربوں کو بھی ایک تجارتی اور تہذیبی مرکز ہونے کی وجہ سے دلچسپی تھی اور ایرانیوں اور رومیوں کو اپنا غلبہ اور اقتدار مسلط کرنے کی دھن تھی‘ اب مسلمانوں کا مرکز نگاہ تھا۔ یوں دمشق اور حلب دو ایسے تہذیبی مرکز بن گئے جہاں بڑی طاقتوں کی کشمکش اپنے عروج پررہی۔ یہی وہ شہرتھے جہاں اسلام میں خلافت کی جگہ ملوکیت کی بنیاد رکھی گئی۔ سیدنا امام حسنؓ جب امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے امیر معاویہؓ کے حق میں دستبردار ہوئے تو مسلمانوں کا مرکز اور دارالخلافہ پہلی دفعہ حجاز سے دمشق منتقل ہوا۔ اسی دمشق میں سیدہ زینبؓ نے یزید کے دربار میں وہ تاریخی خطبہ دیا جو جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی روایت کا سنہری باب ہے۔ پیغمبروں کا مدفن‘ اصحابِ رسولؐ اور اہلِ بیتؓ کا مسکن شام آج خون آشام ہے۔ لیکن اس شام کی خونچکاں بستیوں میں آج بھی بڑی طاقتوں کی خونریزی کی روش نہیں بدلی۔ اس خطے میں صدیوں سے عرب اور عجم کا جھگڑا چلا آرہا تھا، جسے غساّنیوں اور لخمیوں نے روم اور ایران کی جنگ میں جاری رکھا‘ سو‘ یہ تعصبات ہمیشہ عروج پر رہے۔ اگرچہ سید الانبیاؐء کی دعوت نے ان تعصبات کو سرد کر دیا لیکن پھر یہ سارے تعصبات مختلف لبادے اوڑھ کر سامنے آگئے۔ ان میں سے سب سے خوفناک لبادہ شیعہ سنی اختلاف تھا۔ یوں تو یہ اختلاف مسلم امّہ میں چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے‘ لیکن صرف اس نظرییّ کی بنیاد پر کبھی بڑی جنگ نہیں ہوئی۔ دونوں مسالک کی تقسیم کے بعد امت نے دونوں کو یکساں حقوق کے ساتھ تسلیم کیا۔ اگرچہ ایران میں صفوی اور باقی مسلم دنیا میں سلطانین ترکی کی حکومت تھی لیکن کبھی بھی یوں امت کا خون بہانے کے لیے حکومتوں کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔ پھر یہ اس قدر اچانک اور اس قدر شدید شیعہ سنی فساد کس لیے۔ اس کی ایک وجہ ہے اور اسی میں اس امت کے امراض کا علاج پوشیدہ ہے۔ مسلم امہ میں دو حکومتیں ہیں جو خالصتاً سیاسی ہیں لیکن ان حکومتوں نے مذہب یا فرقے کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ ان دونوں کے سیاسی مفادات ہیں۔ مرسی کی حکومت مصر میں فوج کے ہاتھوں تہہ و بالا ہوئی تو ایک نے اُسے مبارکباد دی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت امریکہ آ کر گراتا ہے تو شمالی اتحاد کی ساری پشت پناہی ایرانی حکومت کو حاصل ہوتی ہے۔ بحرین میں حکومت شیعہ آبادی پر مظالم ڈھاتی ہے تو ایک مسلمان ملک وہاں اپنی افواج اُتارتا ہے تاکہ حکومت کی مدد ہوسکے اور اگر شام میں علوی بشار الاسد کی حکومت سنی مسلمانوں پر بم برساتی ہے تو پڑوس کی ایک شیعہ حکومت اسلحے کی ترسیل سے لے کر افراد کی کمک تک سپلائی کرتی ہے، ابھی چند دن پہلے ایران نے اپنے چار ہزار رضاکار کو شام بھیجنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ ان دونوں حکومتوں کے مفادات بھی سیاسی ہیں اور ان کی چالیں بھی سیاسی۔ دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں کا خون بہے ان دونوں حکومتوں کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ عراق اورافغانستان اس کی تازہ ترین مثال ہے جہاں 30لاکھ کے قریب مسلمان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ انہیں کوئی غرض نہیں برما میں کیا ہوتا ہے، کتنے مسلمان وہاں مر رہے ہیں۔ یہ دونوں حکومتیں سب سے پہلے مرنے والوں کے بارے میں تحقیق کرتی ہیں کہ شیعہ ہے یا سنی اورپھر اسی حساب سے اس کی مذمت کرتی ہیں اور یہی روش دنیا بھر کے مسلمانوں نے اختیار کرلی ہے۔ مارچ 2011ء میں جب شام کے شہردیرا میں چند بچوں نے دیواروں پر بشارالاسد کے خلاف نعرے لکھے تو وہاں نکلنے والے جلوس پر اندھادھند فائرنگ کرکے لوگوں کو شہید کیا گیا تب بھی مسلم دنیا میں بسنے والے لوگوں نے وہی رویہ رکھا جو بحرین میںشہید ہونے والوں کے ساتھ تھا۔ سنی ہے تو سنی احتجاج کرے گا، شیعہ ہے تو شیعہ احتجاج کرے گا۔ ہر ایک کا اپنا اپنا شہید ہے جس کی وہ نماز جنازہ پڑھاتے ہیں اور اس کے لیے ریلیاں نکالتے ہیں۔ ہر کسی کے اپنے اپنے جہنم رسید ہیں جن کو یہ لوگ گالیاں دیتے ہیں۔ ایک جانب کے شہید دوسری جانب کے جہنم رسید اور دوسری جانب کے مرحومین اس طرف کے واصلِ نار ہیں۔ یہ ہیں وہ صدیوں پرانی عصبیتیں جو عرب اور عجم کے روپ میں شام و عراق کی وادیوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اللہ کے رسولؐ نے کہا تھا کہ تمہاری جاہلیت کے غرور و نخوت اور رنگ و نسل کے بت میرے پائوں کی ٹھوکر میں ہیں لیکن ہم نے ان بتوں کو فرقوں کا لبادہ اوڑھا دیا۔ ہم نے اس بدترین نسلی جنگ کا آغاز کردیا اور اس کا مقصد ہم نے اللہ کی رضا رکھ لیا۔ ہم سے زیادہ بدقسمت کون ہوسکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved