تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     18-10-2021

گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر …(2)

راولپنڈی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے ڈاکٹر اے کیو خان پر تعزیتی ریفرنس کی رپورٹنگ دیکھ کر مایوسانہ حیرت ہوئی۔ ڈاکٹر خان کی صاحبزادی ڈاکٹر دینا خان وکیل برادری کی طرف سے اپنے عظیم والد سے اظہارِ وابستگی کی وجہ سے آنسوئوں میں ڈوبی ہوئی روسٹرم تک آئیں۔ اُن پر اپنے عظیم والد کی وفات پر جذبات کے غلبے کا یہ عالم تھا کہ ڈاکٹر دینا مشکل سے تقریباً صرف دو منٹ ریفرنس میں بلائے جانے اور اظہارِ سپاس پر شکریہ ادا کر سکیں جس کے بعد اُن کے آنسو ہچکیوں میں بدل گئے اور وہ واپس آ کر اپنی نشست پر بیٹھ گئیں۔ اس موقع پر ساری بار اشکبار ہوگئی اور چند منٹ تک پورے ہال میں خاموشی چھا گئی۔ اس کے بالکل برعکس ایک مخصوص حلقے سے چلائی گئی رپورٹ یہ تھی ''میرے والد کو وہ کچھ نہیں دیا گیا‘ جس کے وہ مستحق تھے‘‘۔
اپنی زندگی کے آخری پانچ چھ برسوں میں ڈاکٹر اے کیو خان نے اس طرح کا بد طینت میڈیا ٹرائل کرنے اور کروانے والوں کو خود بے نقاب کیا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے ایک خاص حوالے سے سبزی بیچنے والی خاتون کا ذکر کیا‘ یہاں تفصیل میں جانا بے محل ہوگا۔ دوسرے انٹرویو میں ڈاکٹر صاحب نے گھیرا ڈال کر پوری پلاننگ سے اُنہیں کارنر کرنے والے حاسدوں کی ٹولی پہ ہجو لکھ ڈالی۔ اُن کے صرف ایک شعر سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سچے اور بھرپور تگڑے بھوپالی تھے‘ بزلہ سنج بھی اور شگفتہ زبان بھی۔ اسی تناظر میں کمال کا شعر یوں کہا:
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
ڈاکٹر اے کیو خان کے تمام انٹرویوز کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے کبھی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اشارے سے بھی مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ نہ ہی وہ کبھی مادرِ وطن اور اہلِ وطن کی محبتوں پہ سپاس کے اظہار کو بھول پائے۔ اردو ادب میں عربی زبان کے ایک محاورے کی وجہ سے کوفی اور بے وفائی تقریباً ہم معنی ہو گئے۔ محاورہ یہ ہے ''کوفی لا یوفی‘‘؛ چنانچہ اسی موضوع پر بڑ ا معنی خیز اور کمال کا ایک اور شعر یوں بھی ہے:
ہوائے کوفۂ نامہرباں کو کیا معلوم
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
اب آئیے چلتے ہیں لیفٹیننٹ رچرڈ بیلی کے الفاظ کی طرف‘ جو اُس کی اینگلو میسور جنگوں کے حوالے سے یادداشتوں اور حملہ آور فرنگی فوج کی تاریخ میں محفوظ ہیں ''ٹیپو سلطان صاحب کی تدفین کے دن کی دوپہر کے وقت نمودار ہونے والی تیز بارش اور گرج چمک کے طوفان کے اثرات بیان کرنے کے قابل ہیں۔ میں بہت زیادہ تھک کر کیمپ واپس گیا تھا۔ تقریباً پانچ بجے غیر معمولی اندھیرا چھا گیا‘ اور بہت بڑی تعداد میں بادل زمین سے کچھ گز اوپر بے حرکت چھا گئے۔ اچانک تیز ہوا‘ نہ روکے جا سکنے والی قوت کے ساتھ‘ خاک کے اہرام کو ایک حیرت انگیز اونچائی تک لے گئی‘ اور زیادہ تر خیموں اور مارکیز کو ان کے اصل مقام سے ایک خوفناک بھنور کے ساتھ اُڑا کر بہت دور لے گئی۔ میری اپنی محنت کو ملا کر 10 ہندوستانی ملازم مارکی کے بانس کے ساتھ چمٹ کر کھڑے تھے اور بہت مشکل سے اسے گرنے سے بچا رہے تھے۔ بادلوں کی گرج ہمارے کانوں کے قریب پھٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور چمکتی بجلی کی وجہ سے زمین چاروں طرف سے پھٹ گئی۔ بربادی کے ایسے منظر کو شاید ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے ملازم بجلی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے‘ اس کے علاوہ میری مارکی سے چند گز دور ایک اور مارکی میں ایک آفیسر اور اُس کی بیوی بھی مارے گئے۔ بیل‘ ہاتھی اور اونٹوں کی رسیاں ٹوٹ گئیں اور وہ میدان کی ہر سمت میں دوڑنے لگے۔ ہسپتال کا ہر خیمہ اُڑ گیا‘ جس سے زخمی کھلے آسمان کے نیچے آ گئے اور وہ بھی قدرت کے قہر کا شکار بن گئے۔ ان خیموں میں سے ایک میں 18 افراد ایسے تھے جن کے جسمانی عضو کاٹے گئے تھے‘ اُن کی پٹیاں بھیگ گئیں اور وہ اگلی صبح وہاں مردہ ملے۔
ٹیپو سلطان کو اُن کے آبائواجداد کے لال باغ میں واقع مزار‘ جہاں اُن کے جنگجو والد دفن ہیں‘ تک لے جانے والے افراد بھی اس خوفناک طوفان کی لپیٹ میں آگئے‘ مگر حیرت انگیز طور پہ وہ بچ گئے‘ اور ساتھ ساتھ ٹیپو سلطان کی جنازے کو بھی کچھ نہ ہوا... دور کے بادلوں سے گرنے والی بجلی بہت ڈرا دینے والی تھی‘ پھر زمین سے کچھ گز دور سے زوردار پانی برسنا شروع ہو گیا۔ توپوں سے بھرا کوئی میدان ان بادلوں کی گرج جتنا مسلسل نہیں گرج سکتا تھا‘ جتنے یہ ہمارے کانوں میں گرج رہے تھے۔ حیرت اور مایوسی کے ساتھ اس وقت ہمارا واحد سہارا اس طوفان کے رُکنے کی دعائیں تھیں۔ اس خوفناک طوفانی رات کے حالات کو بیان کرنا‘ قیامت کے دن کا نقشہ کھینچنے جیسا ہو سکتا ہے۔
مجھے سمندری طوفان‘ ٹائفون اور آندھیوں کا تجربہ ہے لیکن اپنی زندگی کے کسی مقام پر بھی میں نے ایسے تباہ کن طوفان کی آمد کبھی نہیں دیکھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے زمین اور آسمان آپس میں ٹکرا گئے ہوں اور تباہی کی کوئی حد نہ رہ گئی ہو۔ دھاڑتی ہوئی ہوائوں کا مقابلہ صرف اُس وقت گرجتے ہوئے بادلوں سے کیا جاسکتا تھا‘ جیسے کائنات واپس chaos کی طرف جارہی ہو۔ آندھی کے زور سے میرے ٹینٹ کا کھمبا ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس کا کینوس اُڑتا ہوا میری نظروں سے ہمیشہ کیلئے دور چلا گیا۔ میں صحیح سلامت بچ کر نکل گیا‘ میرے تھکن سے چور ملازم بھی بچ گئے۔ اذیت بھری مایوسی کے ساتھ میں ریت کے اوپر بیٹھ گیا‘ مجھے فوری فنا کی امید تھی۔ لیکن میرا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔‘‘
حضرت ٹیپو سلطانؒ کی شہادت کے فوراً بعد ایک اور واقعہ بھی ہوا تھا‘ 4 اور 5 مئی 1799ء کی درمیانی شب‘ دو ایک جیسے کرداروں میں سے ایک کے حوالے سے‘ جن پر تا ابد لعنت برستی اور ملامت یوں جھپٹنی رہے گی‘ جیسے حکیمِ اُمت حضرت علامہ اقبال کا یہ قولِ صادق:؎
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگِ ملت‘ ننگِ دیں‘ ننگِ وطن
میسور کے قلعے میں ایک طرف شیرِ میسور حضرتِ ٹیپوسلطانؒ شہادت کو گلے لگا رہے تھے‘ دوسری طرف قلعے کا دروازہ کھول کر فرنگی فوجیوں کا خریدا ہوا غدار میر صادق حملہ آور گوروں کے استقبال کیلئے قلعے سے باہر نکل رہا تھا‘ جہاں میسور کے مزاحمت کار شہریوں نے اُسے پہچان کر زخمی کرکے نیم مردہ بنا ڈالا۔ ہندوستان کی تاریخ میں دو چہرے ایسے سیاہ ہیں جنہیں صدیاں گزرنے کے بعد بھی دنیا کی کوئی طاقت سفید نہ کر سکی‘ اور ابدی ذلتیں ان کا مقدر بنیں۔ عہدے کا حریص اور حکمرانی کا بھوکا یہ بد باطن غدار اپنے فرنگی آقائوں کے راستے میں پڑا تھا۔ انگریزی فوجیوں نے اُسے بچانے کے بجائے ٹھڈے مارے اور کہا: اگر یہ غدار میسور اور ٹیپو سلطان کا نہیں ہو سکا تو ہمارا کیسے ہوگا؟ ٹیپو سلطان نے آخری دن میر صادق کو کیا پیش گوئی سنائی... (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved