یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ پی ٹی آئی حکومت کو کسی کی نظر لگ گئی ہے یا اس پر کوئی ایسی بندش کر دی گئی ہے کہ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ کیا کرنا ہے مگر نجانے کیا بات ہے کہ حکومتی زعما، وزیر‘ مشیر بلا سوچے سمجھے ایسے ایسے بیانات دے رہے ہیں‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی باتیں ریکارڈ کی جا رہی ہیں‘ جن کا عقل و دانش یا شائستگی و متانت سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ میری نظر میں آدھی سے زیا دہ کابینہ کا یہی حال ہے۔ میرا تجزیہ ہے کہ اس وقت ایسے لوگوں کا گروہ وزیراعظم کے اردگرد جمع ہے جس نے کبھی تحریک انصاف کے کسی ورکر یا دوسرے یا تیسرے درجے کے لیڈرکے طور پر بھی کبھی کام نہیں کیا۔ یہ لوگ ہمارے جیسے لکھاریوں کو ایسے گھورتے ہیں جیسے کچا چبا جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے اصلی اور مخلص ورکرز اور عمران خان کی شخصیت کے سحر میں جکڑے ہوئے لوگ دلبرداشتہ ہو کر خاموشی سے علیحدہ ہوتے جا رہے ہیں اور اس بات کی گواہی آج کل سوشل میڈیا پر مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کیلئے دلائل تراشنے والوں‘ ان کے حکومت پر بے جا اعتراضات اور الزامات لگانے والوں کو اپنی تحریروں کی زینت بنانے والوں اور ان کے دفاع میں ہمہ وقت متحرک رہنے والوں کو رائیونڈ اور بلاول ہائوس میں اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے کہ جیسے یہ وی آئی پی مہمان ہوں جبکہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی فوج ظفر موج کا مقابلہ کرنے والوں کو وزارتِ اطلاعات اور اس کے تحت تمام ادارے اس طرح گھور کر دیکھتے ہیں جیسے موجودہ حکومت یا وزیراعظم صاحب کی حمایت کر کے انہوں نے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہو۔ جب یہ حالت ہو گی‘ جب ایسا رویہ ہو گا تو پھر وہی کچھ ہو گا جو آج سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
مہنگائی کے جن نے تحریک انصاف اور خان صاحب کے خلاف ابھرنے والے غصے اور نفرت کو ایک تنور میں بدل دیا ہے جو اس وقت پوری طرح دہک رہا ہے۔ یقین کیجئے کہ اس وقت پی ٹی آئی کی مقبولیت اس حد تک کم ہو چکی ہے کہ الیکشن کی صورت میں اس کے ووٹروں کی تعداد 1997ء سے زیادہ نہیں ہو گی۔ گھر میں بیٹھے شہریوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ عالمی سطح پر آج تیل اور پام آئل کی قیمتیں شریف برادران کی گزشتہ حکومت کے مقابلے میں دو گنا تک بڑھ چکی ہیں‘ عوام کو صرف سستی روٹی‘ گھی‘ چاول اور دال‘ سبزی چاہئے۔ پام آئل‘ جو گھی اور خوردنی تیل بنانے کے کام آتا ہے، اس کی قیمت گزشتہ دورِ حکومت میں 2 ہزار ڈالر فی ٹن تک تھی جو آج پانچ ہزار ڈالر سے بھی بڑھ چکی ہے‘ صرف اسی‘ اکتوبر کے مہینے میں اس کی قیمت میں 16 فیصد جبکہ گزشتہ ایک سال کے دوران 72 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ گھی کی قیمتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں گلیوں بازاروں کی دکانوں اور چھوٹے بڑے سٹور سے لے کر اس سے متاثر ہونے والے کروڑوں غریب گھرانوں کے باورچی خانوں سے بلند ہوتی چیخیں سننے کو مل رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے؟ اس کی وجہ کو چھپا کر ہم بھی اپنی مقبولیت بڑھانے کیلئے غصے کی لہر والوں میں شامل ہو جائیں؟ کیا سچ بولنا بند کر دیں؟ کیا حقیقت کو سیاست کے پردوں میں چھپا دیں؟ کیا اپوزیشن کی چند مراعات کی خاطر ضمیر پر پردہ ڈال کر اسے اس لیے زبردستی سلا دیں کہ عوام کمر توڑ مہنگائی سے کی وجہ سے موجودہ حکومت کے خلاف سخت غصے میں ہیں؟ کیا انہیں کوئی نہ بتائے کہ 2018ء میں جب مسلم لیگ نواز کی حکومت میں پٹرول کی قیمت فی لیٹر 92 روپے تھی، اس وقت عالمی سطح پر تیل کے ایک بیرل کی قیمت 54 ڈالر تھی، آج جب پاکستان میں تیل فی لیٹر 138 روپے کا کر دیا گیا ہے‘ عالمی سطح پر تیل کی قیمت پاکستان کو 84 ڈالر فی بیرل ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ میرا چیلنج ہے پاکستان کے تمام ا کانو مسٹ اور معاشی ماہرین کو اور اپوزیشن جماعتوں کی تمام قیا دت اور تنقید کرنے والے دانشوروں کو کہ وہ 1955ء سے2021ء تک پٹرول کی قیمتیں طے کرتے وقت درآمدکیے گئے تیل پر وزارتِ خزانہ سمیت تمام اداروں کا وہ ریکارڈ بھی سامنے لائیں کہ نواز شریف اور پی پی پی کے دورِ حکومت اور ان سے پہلے بھی‘ پٹرول پر حکومت کا وصول کیا جانے والا ٹیکس کتنا تھا اور آج عمران خان حکومت نے یہ ٹیکس کس قدر کم کیا ہوا ہے۔ عوام کو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ نواز شریف اور اس سے قبل آصف زرداری دور میں فی لیٹر تیل پر وصول کیا جانے والا ٹیکس 33 فیصد تک تھا جسے موجودہ حکومت نے بتدریج کم کر کے صرف پانچ روپے کر دیا ہے جو محض تین فیصد بنتا ہے‘ تاکہ حکومت اپنے وسائل سے عوام پر پڑنے والے بوجھ کو کم کر دے۔ اس سے حکومتی خزانے اور ترقیاتی وسائل کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے‘ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔
اس وقت ساری دنیا کا گروتھ ریٹ گزشتہ دس سالوں کی کم ترین سطح پر ہے، کینیڈا سے امریکا تک اور بھارت سے برطانیہ تک‘ پوری دنیا پٹرول کے بڑھتے نرخوں سے پریشان ہے، ایک طرف قوتِ خرید میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہے تو دوسری طرف کورونا کے سبب لگنے والے معاشی جھٹکوں کے آفٹر شاکس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ بھارت‘ جہاں کی مستحکم کرنسی، 'آئیڈیل جمہوریت‘ اور جی ڈی پی کو ہمارے ہاں ایک مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اس کا حال یہ ہے کہ اس کے قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020-21ء میں بھارت کے جی ڈی پی میں 7.3 فیصد کمی آئی ہے جو 1947ء کے بعد سب سے بدترین شرح ہے۔ امریکا کے سر پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ مسلسل منڈلا رہا ہے، عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق‘ دنیا 1930کے بعد سب سے خطرناک معاشی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ مہنگائی اس وقت صرف پاکستان کا یا موجودہ حکومت کا مسئلہ نہیں ہے، پوری دنیا شدید معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔
ان حالات میں بھی‘ کل بھی شکوہ تھا اور آج بھی ہے کہ کاش تحریک انصاف حکومتی رٹ ہی بحال کر دیتی۔ پنجاب میں تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ رشوت کی رقم اب سائل کی جیب سے زبردستی نکالی جا رہی ہے، ہسپتالوں میں ہر کوئی اپنی من مانیاں کر رہا ہے، لاہور کے کسی بھی سرکاری محکمے میں چلے جائیں‘ چند منٹ کے کام کیلئے اتنے رگڑے دیے جاتے ہیں کہ ہمارے جیسے لوگ اپنی جیبیں خالی کر کے بددعائیں دیتے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سنتے ہیں کہ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے جب مارشل لا لگایا تو قانون کا اس قدر خوف تھا کہ پاکستان بننے کے بعد قبضے میں لی گئی جائیدادیں تک واپس کی جانے لگی تھیں۔ لاہور کے ایک رکشہ ڈرائیور نے بتایا تھا کہ 1999ء میں جب پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت معزول کر کے اقتدار سنبھالا تو ٹریفک پولیس کے اہلکاروں میں اس قدر ڈر پایا جاتا تھا کہ وہ دس‘ بیس روپے لیتے ہوئے بھی ڈرتے تھے جبکہ آج سرعام چوکوں‘ چوراہوں میں ہماری جیبوں سے پیسہ اپنا حق سمجھ کر نکالا جا رہا ہے۔ اُس وقت سرکاری دفاتر میں حاضری پوری ہو گئی تھی، دفتری اوقات میں کوئی ایک شخص بھی اپنی سیٹ سے غائب نہیں پایا جاتا تھا، مہینوں سے رکی ہوئی فائلیں باہر آنے لگی تھیں‘ سائلوں کو عزت و احترام سے بلایا جاتا اور ان کے رکے ہوئے کام مکمل کیے جاتے تھے لیکن 2002ء کے انتخابات کے بعد جب جمہوریت نے اپنے پَر پھیلانا شروع کیے تو ان پروں کے سائے میں کرپشن بھی جنم لینے لگی اور نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی کہ آج کوئی بھی جائز کام ''پہیے‘‘ لگائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ہر دفتر میں‘ ہر تھانے میں‘ ہر سڑک پر اور ہر چوک میں آپ کو کرپشن اپنے جبڑے کھولے خونخوار نظروں سے بے کس عوام کو گھورتی نظر آئے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگوں کو احتساب کا خوف نہیں رہا، وہ اس قدر نڈر اور بے خوف ہو گئے ہیں؟ مانا کہ عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کو حکومت کنٹرول نہیں کر سکتی مگر حکومتی رٹ کو بحال کرنے میں کیا امر مانع ہے؟