تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     19-10-2021

بھولی بسری شخصیات … امیر خسرو

Zeitgeistجرمن زبان کا وہ لفظ ہے جس کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہو سکا‘ یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ لغت میں بھی جوں کا توں لکھا ہوا ہے۔ کالم نگار اپنے بڑھاپے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ جسارت کرے گا کہ اس کا اُردو میں ترجمہ کرے اور وہ ہے روحِ عصر۔ آپ یقینا عصر (زمانہ) کی اہمیت جانتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں عصر کی قسم کھائی ہے۔ اقبالؔ نے زمانہ کے عنوان سے کمال کی نظم لکھی‘ جس کا مطلع ہے۔
جو تھا نہیں ہے‘ جو ہے نہ ہو گا‘یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی‘ اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
ہر عہد کا اپنا مزاج‘ اپنا حدود اربعہ اور اپنی پہچان ہوتی ہے۔نئی صدی کے نئے مصور‘نئے گلوکار‘نئے سیاست دان‘نئے اُستاد۔ اللہ بخش اور عبدالرحمن چغتائی کی مصوری کا دور گزر چکا۔ اب نہ کندن لال سہگل گائیں گے اورنہ اختری بائی فیض آبادی اور نہ بڑے غلام علی۔ قائداعظم محمد علی جناح‘ علامہ اقبال‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ حسرت موہانی‘ گاندھی‘ سبھاش چندر بوس اورعلامہ مشرقی پچھلی صدی کے اُفق پر چمکنے والے ستارے تھے۔ ایک صدی گزری تو اُن کی جگہ ہمارے ہاں نوازشریف‘ شہباز شریف‘ آصف علی زرداری‘بلاول‘مریم اور حمزہ اور ہمسایہ ملک میں راہول گاندھی اور نریندر مودی نے لے لی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو حسین شہید سہروردی اور شیر بنگال فضل الحق کیلئے بچھائے گئے تخت پر حسینہ واجد اور خالدہ ضیا اس طرح براجمان ہوئیں کہ اُٹھنے کا نام نہیں لیتیں۔ پچھلی صدی کا اس صدی سے موازنہ کریں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسی بلندی ایسی پستی۔
بھولی بسری شخصیات کی تلاش میں کالم نگار نے گزرے ہوئے ہزار سالوں پر نظر ڈالی تو وہ تیرہویں صدی کے ایک نابغۂ روزگار شخص پر جا کر ٹھہر گئی۔ اس کمال کے شخص (جو مجموعۂ کمالات تھا) کا نام تھا؛ امیر خسرو۔ 1253 ء میں پٹیالی میں پیدا ہوئے۔ یہ قصبہ بھارتی ریاست یو پی کے ضلع کاس گنج میں واقع ہے۔اُن کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر ہندوستان کی تاریخ میں وہ بلند مقام حاصل کرے گا کہ صدیاں گزر جائیں گی مگر اس کی لازوال شہرت کا سورج پہلے کی طرح چمکتا رہے گا۔ اُنہوں نے 72 سال عمر پائی اور 1325 ء میں دہلی میں وفات پائی۔ اُنہیں اپنے پیرو مرشد حضرت نظام الدین اولیاؒکے مزار کے احاطہ میں دفن کیا گیا۔ کالم نگار جب بھی بھارت جائے تو پہلے دن اجمیر شریف خواجہ غریب نواز کے مزار پر حاضری دیتا ہے۔ دوسرے دن وہاں جاکر دعا مانگتا ہوں جہاں اقبال 1905 ء میں گئے تھے۔ یورپ کے سفر سے پہلے '' التجائے مسافر‘‘ کے عنوان سے سات اشعار کی دلگداز نظم لکھی۔ پہلا شعر ہے ؎
فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تری فیض عام ہے تیرا
اس نظم کے آخری تین مصرعے یوں ہیں:
تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے
یہ التجائے سفر قبول ہو جائے
مذکورہ بالا کلام کالم نگار کی زبان پر ہوتا ہے۔ میں اسے بار بار دہراتا ہوں۔ اس امید پر کہ التجائے مسافر کی قبولیت کا امکان بڑھ جائے۔ اُسی خانقاہ میں حضرت امیر خسرو ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ میں قبر کے اردگرد دبے پائوں چلتا ہوا مدہم آواز میں درودوسلام بھیجتا ہوں۔ اگر مثال دے کر سمجھانا مقصود ہو کہ کس طرح ایک بڑا شخص اپنے عہد کی پیداوار اور اُس کا نمائندہ اور عصری روایات کی تجسیم ہوتا ہے تو حضرت امیر خسرو سے بہتر مثال نہیں دی جا سکتی۔ اُن کی بدولت ہندوستان میں نشاۃاوّل‘ روشن دماغی‘ انسان دوستی‘ ہندو مسلم تہذیبوں اور نظریات کی یگانگت اور فنونِ لطیفہ خصوصاً موسیقی میں تخلیقی عمل کا چمکتا ہوا چاند ہمارے اُفق پر اُبھرا۔ آٹھ صدیاں گزر گئیں مگر نہ وہ چاند غروب ہوا اور نہ اُس کی آب و تاب میں کمی آئی۔ امیر خسرو ایک ولی اللہ کے مرید تھے اور دوسری طرف پانچ بادشاہوں کے درباری۔ انہوں نے ہندوستان کی موسیقی اور فارسی زبان میں شاعری‘ دونوں میں کمال حاصل کیا۔ اُن کے صوفیانہ نظریات ایسے تھے جس میں کئی اطراف سے آنے والے چشمے گرتے ہوں اور اس کا حصہ بن جاتے ہوں۔ وہ چھوٹی عمر میں یتیم ہوئے تو نانا نے پرورش کی۔ نانا کے گھر میں ایک بلند و مرتبت صوفی (شیخ نظام الدین اولیا) بھی رہتے تھے جس سے مرید کا اپنے پیرو مرشد سے عمر بھر کا رشتہ قائم ہو گیا۔ غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کے دربار میں امیر خسرو کا اپنے دوست اور بڑے اچھے شاعر امیر حسین کی طرح بلند مقام تھا۔ شہزادہ محمد نے 1285ء منگولوں کے خلاف لڑتے ہوئے اور کامیابی سے مزاحمت کرتے ہوئے جان کی قربانی دی تو امیر خسرو نے خون کے آنسو رلا دینے والا مرثیہ کہا۔
امیر خسرو نہ صرف ملک الشعرا تھے بلکہ سرکاری مورخ بھی تھے۔ اُنہوں نے نثر اور نظم میں چھ شاہکار کتابیں لکھیں۔اعلیٰ ادبی نقاد ممتاز حسین کے الفاظ میں امیر خسرو نے شیراز کے دو عظیم شاعروں حافظ اور سعدی کے درمیان کے اظہار کے اندازکا جو پُل بنایا وہ کسی اور کے بس کی بات نہ تھی۔ امیر خسرو نے ہندوستان میں کلاسیکی موسیقی کو پروان چڑھایا۔ بلاول کلیان اور ایمن کلیان جیسے سدا بہار راگ تخلیق کئے۔ قوالی متعارف کرائی۔ستار اور طبلہ اُن کی ایجاد ہیں۔ امیر خسرو نے عوام دشمن سلطان اور عوام دوست ولی اللہ کی بیک وقت اطاعت اور خدمت زندگی بھر کی اور اس کا حق بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا جو تنی ہوئی رسی پر چلنے سے بھی زیادہ مشکل کام تھا۔ 1315 ء میں امیر خسرو نے کمال کی ایک اور کتاب مثنوی نہہ سپہر لکھی تو اسے شاہی سرپرست قطب الدین مبارک شاہ کے نام کر دیا حالانکہ اس کتاب میں اُن کے پیرو مرشد حضرت نظام الدین اولیاؒ کی تعریف اور اعزاز میں لکھی گئی نظمیں شامل تھیں جو شاہی پیشانی پر ناراضی کی کئی لکیریں پیدا کرنے کا موجب بنیں۔ انجمن ترقی اُردو دہلی ہمارے شکریہ کی مستحق ہے کہ اُس نے انصاری کی امیر خسرو پر بہت عمدہ کتاب شائع کی جس کا نام ہے ''امیر خسرو کا ذہنی سفر‘‘۔ اگر یہ کتاب بدقسمتی سے ابھی تک پاکستان میں نہیں چھپی تو اس کا اہتمام جلد از جلد کرنا چاہئے۔
1975 ء میں امیر خسرو کی وفات کے 650 برس گزرے تو نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ وسط ایشیائی ملک ازبکستان کے شہر سمرقند میں بھی امیر خسرو کی یاد میں تقریبات منعقد کی گئیں۔ وہ اُس تہذیب اور ثقافت کی جیتی جاگتی‘ رخشندہ و تابندہ علامت تھے جس میں ایک طرف دریائے برہم پُتر‘ گنگا اور جمنا اور دوسری طرف دریائے سندھ بہتا ہے۔ ماضی قریب یا ماضی بعید سے نہیں ہزاروں صدیوں سے۔ امیر خسرو سفر کر رہے تھے کہ یہ دل و جگر چیر دینے والی خبر ملی کہ اُن کے پیر و مرشداُن سے دور جا چکے ہیں۔ وہ اپنے پیا سے ملنے کی آس لے کر گھر لوٹے اور اُس مٹی کوچوما جس میں اُن کا محبوب محو خواب تھا۔ آنکھیں جھک کر اُس مٹی کے ڈھیر پر جمی ہوئی تھیں۔ آج تک کسی کو یہ مجال نہیں ہوئی کہ وہ اُن آنکھوں کی طرف بری نظر سے دیکھے۔ امیر خسرو کا محبوب اُن کے پہلو میں اپنے مبارک چہرہ پر اپنی زلفیں بکھیرے ہوئے سو رہا ہے۔ تو کانوں میں راگ کھماج کی آواز آئی جو اُستاد ولایت خان ستار پر بجا رہے تھے۔ اُستاد بسم اللہ خان اُن کا شہنائی پر ساتھ دے رہے تھے اور طبلے پر دنیا کے سب سے بڑے طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کا بیٹا ذاکر حسین تھا۔ راگ بھی امیر خسروکا‘ ستار اور طبلہ بھی اُنہی کے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved