حساس عہدوں پہ تعیناتیوں کے ایشو نے موجودہ صورتِ حال کو اُس مقام تک پہنچا دیا جہاں سے فریقین کے لئے واپس پلٹنا دشوار ہو گیا۔ یہ شاید غلط وقت پہ کیا جانے والا فیصلہ تھا جس نے حکومت کو سیاسی فنا و بقا کے خطِ امتیاز پہ لاکھڑا کیا جہاں صرف معمولی سی لغزش اسے ہمیشہ کیلئے میدانِ سیاست سے باہر پھینک سکتی تھی۔ ایسے وقت میں جب پورا ملک کمر توڑ مہنگائی، وسعت پذیر بے روزگاری، بڑھتی ہوئی اقتصادی کساد بازی اورگورننس کی ناکامیوں کی وجہ سے حکمران اشرافیہ کے خلاف سراپا احتجاج ہو اور حکومت کی ساکھ منفی حدوں کو چھونے لگی ہو‘ ادھرافغانستان میں ناقابلِ یقین ہزیمت کے باعث عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی پوری طرح مایوس اور نالاں ہو‘ ایسے نازک لمحات میں ادارہ جاتی کشمکش کو جنم اور فروغ دینا اُسی شاخ کو کاٹنے کے مترادف ہو گا جس شاخ پہ اقتدار کا آشیانہ دھرا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وزیراعظم آفس نے ایک سنجیدہ معاملے کو نامناسب انداز میں ہینڈل کرکے اِس قدر لاینحل بنا دیا کہ اب اگر باہمی تنازعات کو نمٹا کے اِس خود ساختہ سیاسی بحران پہ قابو پا لیا جائے تو بھی پیدا ہونے والی بداعتمادی کی خلیج پُر کرنے میں کافی وقت لگ جائے گا۔ بلاشبہ حکمرانی کی طاقت دو دھاری تلوار کی طرح دونوں جانب سے کاٹتی ہے، اگر کوئی صاحبِ اختیار اپنے اختیارات کے استعمال کا فن نہیں جانتا تو وہ مدمقابل کو نقصان پہنچانے کے بجائے خود اپنی انگلیاں بھی کاٹ بیٹھتا ہے۔ پی ٹی آئی کو لانے والے اب تک بہت خوش تھے لیکن وہ شاید طاقت کی حرکیات سے پوری طرح وقف نہیں تھے۔
جیمزسٹیفن نے کہا تھا ''سیاسی طاقت فقط شکل بدلتی ہے‘ اپنی فطرت نہیں‘‘۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کوئی چاہے یا نہ چاہے‘ بظاہر یہی کشمکش کسی نئے سیاسی تمدن کی شروعات بن کر اس ملک کے سیاسی کلچر کو بدلنے کا وسیلہ بننے والی ہے۔ موجودہ نظام کے دو مرکزی عناصر کے مابین بڑھتی ہوئی دراڑوں سے صرف اپوزیشن جماعتیں ہی مستفید نہیں ہوں گی بلکہ عالمی کھلاڑی بھی اس کھیل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ امریکی ڈپٹی سیکرٹری وینڈی شرمن کا دورہ اوردیگر امریکی ذمہ داران کی اپوزیشن لیڈرشپ سے حالیہ ملاقاتوں کو ممکنہ طور پر بدلتے ہوئے سیاسی تمدن میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر سفارتکاری کی جہت ہی سمجھا جائے گا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اقتدار کی غلام گردشوں میں اچانک ابھرنے والے اِن بے مقصد تنازعات کی اصلیت کا پورا ادراک رکھنے کے علاوہ ہر لمحہ بدلتی صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
حکومت کی سب سے بڑی مخالف جماعت مسلم لیگ کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے اس موقع پہ دائرکردہ اپنی بریت کی درخواست میں خود (مریم نواز) کو اور نوازشریف کو احتساب عدالتوں سے ملنے والی سزاوں کا محرک مخصوص حلقوں کو قرار دے کر اس کشمکش کو زیادہ گمبھیر بنا دیا۔ وہ کمال مہارت کے ساتھ ایوانِ اقتدار کے پیچھے لڑی جانے والی پاور پالیٹکس کی مہیب جنگ کو کوچہ وبازار تک کھینچ لانا چاہتی ہیں جہاں سے اس جدلیات کی بساط لپیٹنا ناممکن ہو جائے۔ فریقین کیلئے تنازعات پہ کسی قسم کی سودا بازی یا کچھ لے دے کر معاملات پہ مٹی ڈالنا دشوار ہو گا۔ ایسے ایشوز کا تصفیہ رائے عامہ کی سطح پہ ہونے کا عمل بجائے خود سویلین بالادستی کو قبول کرنے کی ایک صورت ہی سمجھاجائے گا، جہاں مملکت کے بنیادی سٹیک ہولڈرز کیلئے آئینی اصولوں سے انحراف کرنا ممکن نہیں رہتا۔
اسلام آباد میں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو اور پھر فیصل آباد دھوبی گھاٹ میں پی ڈی ایم کے جلسے میں مریم نواز کی تقریر نے سویلین بالادستی کے بیانیے کو غیر معمولی توانائی فراہم کرکے عوام میں ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی موجودگی اور پسندیدگی کا بھرپور احساس دلایا ہے۔ اس سے قبل کنٹونمنٹ کے الیکشن مسلم لیگ نواز نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے بجائے ''خدمت کو ووٹ دو‘‘ کے نعرے کے تحت لڑے تھے اور قابلِ ذکر کامیابی حاصل کر کے حکومتی ایوانوں میں لغزش برپا کر دی تھی جس کے بعد سے پارٹی میں 'ووٹ کو عزت دو‘ کے بجائے خدمت کی سیاست اور مفاہمت کی باتیں کرنے والا گروہ زیادہ حاوی نظر آ رہا تھا مگر اب مریم نواز کے اچانک فعال ہو جانے اور فیصل آباد کے جلسے میں سویلین بالادستی کے نظریے کا احیانئی سیاسی جدلیات کی خبر دے رہا ہے۔ بلاشبہ ہر پھلتے پھولتے تمدن پہ ایک زمانہ ایسا ضرور آتا ہے، جب پرانے رجحانات اور عادتیں نئے حالات پہ قابو پانے کیلئے ناکافی ثابت ہوتی ہیں لیکن ہر بدنظمی عبوری مرحلہ ہوتی ہے جو بے ترتیبی اور مطلق العنانی کا مقابلہ کرتی ہے تاکہ پرانی رکاوٹیں ہٹا کے نئی نشو ونما شروع کی جا سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں امریکی مقتدرہ کی غیرمتوقع شکست نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی خطے سے وابستہ دیرینہ توقعات کو ناقابلِ تلافی زک پہنچائی ہے۔ پچھلی سات دہائیوں میں امریکی اشرافیہ نے یہاں کے کروڑوں انسانوں کی بنیادی آزادیوں اور جمہوری حقوق کی قیمت پہ ہمارے آمروں کے ذریعے جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کی آبیاری میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی، پہلے منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان سے لے کر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، حسین شہید سہرودی، ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیربھٹو سمیت مقبول سیاسی لیڈروں کی غیرطبعی اموات، جلاوطنیوں اور جبری ناکامیوں کے اسباب ہمیں امریکی پالیسیوں کی گہرائیوں میں پنہاں ملتے ہیں۔ پڑوسی ملک انڈیا کو انگلی پکڑ کے جمہوریت کی طرف چلنا سکھانے والے مغربی استعمار نے پاکستان میں آمریتوں کی پشت پناہی کرکے پون صدی تک یہاں کے بے بس شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں سے محروم رکھنے میں کوئی حجاب محسوس نہ کیا۔ بابڑا میں سرخ پوشوں کا قتلِ عام ہو‘ لیاقت باغ پنڈی میں ولی خان کے جلسے پہ فائرنگ سے درجنوں افراد کی بہیمانہ ہلاکت ہو‘ لاہور دھرم پورہ میں مصطفی کھرکے جلسے میں خون ریزی ہو یا پھر ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران سندھ میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا قتل عام، ان تمام واقعات پہ امریکا سمیت مغربی ممالک کی مصلحت آمیزخاموشی مغرب کے دہرے معیارات کی گواہی دیتی رہی لیکن اب جب جنوبی ایشیا میں مغرب کی جنگی مہمات کی گرد میں نہایت خاموشی سے اپنی جوہری قوت کو فروغ دیا اور پھر افغانستان میں جاری آزادی کی تحریکوں نے عالمی طاقت کو چاروں شانے چت کیا تو زخم خوردہ مغربی اشرافیہ کو افغانستان میں بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی اور پاکستان میں آئینی جمہوریت کی بالادستی کی یاد ستانے لگی ہے۔ تاریخ کس طرح تقدیر کی جبریت کو بے نقاب کرتی ہے، اسے اگر دیکھنا ہو تو شکست خوردہ امریکیوں کے یوٹرن دیکھئے۔
حیرت انگیز طور پہ ان دنوں مغرب کا میڈیا ہمارے اداروں کی ساکھ کو داغدار کرنے کی خاطر پنڈورا پیپرز کی آڑ لے رہا ہے۔ دوسری طرف برطانیہ میں بیٹھ کے نوازشریف وڈیو لنک پہ نہ صرف اپوزیشن کے سیاسی اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں بلکہ پی ڈی ایم کے جلسوں سے خطاب میں براہ راست قومی قیادت کو نشانہ بنانے میں بھی آزاد ہیں۔ ایسے مواقع انہیں برطانوی ریاست کی اشیرباد کے بغیر نہیں مل سکتے۔ افغانستان میں شکست سے قبل جب پاکستانی مقتدرہ سے تعلقات خوشگوار تھے تو بے نظیراور نوازشریف سمیت کوئی بھی برگشتہ سیاستدان برطانیہ میں بیٹھ کے ریاست اور اداروں کے خلاف اس طرح کی مہم جوئی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔