مہنگائی نے واقعی عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت کو ہر طرف سے شدید تنقید اور طعنہ زنی کا سامنا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے۔ عوام کے لیے ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ روز افزوں مہنگائی نے سارا بجٹ تلپٹ کردیا ہے۔ کوئی کتنی ہی پلاننگ کرے، کیسا ہی بجٹ بنائے، جب قیمتیں کسی مقام پر رکنے کا نام ہی نہ لیں تو پھر کسی بھی سطح پر بہتری کی امید کیونکر رکھی جائے؟ مہنگائی کے باعث حکومت کی پوزیشن انتہائی کمزور ہوچکی ہے۔ سوال صرف مہنگائی کا نہیں‘ حکومتی نظام اور ریاستی مشینری کی ناکامی کا بھی تو ہے۔ ہر شعبے کا مافیا کھل کر اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔ بنیادی اشیائے ضرورت کا معاملہ انتہائی سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ سفید پوشوں کا بھرم بھی باقی نہیں رہا۔ کسی کا خیال ہے کہ حالات اب کنٹرول سے باہر ہوئے کہ اب ہوئے ۔ خرابی صرف اور صرف تنخواہ دار طبقے کے لیے ہیں۔ باقی سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا۔ بزرگوں سے سنتے آئے ہیں اور دیکھا بھی ہے کہ پانی خود اپنی پنسال میں آ جاتا ہے۔ بالکل اِسی طور ہمارے ہاں ہر چیز ''سیلف ایڈجسٹمنٹ‘‘ کے اصول پر کام کر رہی ہے۔ مہنگائی کسی ایک چیز کے حوالے سے نہیں ہے۔ اشیا کی قیمت بڑھتی ہے تو خدمات کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر تیل، گھی، چاول، شکر کے نرخ بڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف ہر شعبے کے لوگ اپنے اپنے کام کا معاوضہ بھی بڑھا رہے ہیں۔ کل تک راج مستری ہزار بارہ سو روپے کی یومیہ اجرت پر دستیاب ہوا کرتا تھا۔ اب وہ ایک ہیلپر اور کھانے پینے کے خرچے کے ساتھ ایک دن کے پانچ ہزار روپے وصول کرتا ہے۔ پٹرول مہنگا ہونے کو جواز بناکر ہر چیز کے دام بڑھادیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ٹھیلا لگاکر کچھ بیچ رہا ہے تو مہنگائی کی لہر آنے پر سب چیزوں کے دام بڑھا دیتا ہے یا پھر لاگت میں ڈنڈی مار کر، غیر معیاری چیز فروخت کرکے، حساب برابر کرلیتا ہے۔ رکشہ والوں نے طے کرلیا ہے کہ اب 100 روپے سے کم کا مسافر بٹھانا ہی نہیں۔ محض ایک‘ ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے کے لیے 150 روپے طلب کیے جارہے ہیں۔ یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والا ہر شخص اپنا معاوضہ بڑھاتا جارہا ہے۔ لاگت میں غیر معمولی اضافہ نہ ہوا ہو‘ تب بھی حالات کو دیکھتے ہوئے قیمت بڑھانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ جب زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہی زندگی کا مقصد بن چکا ہو تب کسی کو دنیا والوں کی فکر لاحق رہتی ہے نہ آخرت میں جواب دہی کا خوف۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اگر اُنہیں اُن کی کسی غلط حرکت کی طرف متوجہ کیجیے اور عاقبت سے ڈرنے کی بات کیجیے تو بہت مزے سے کہتے ہیں جو ہوگا‘ دیکھ لیں گے!
ہمارا معاشرہ غیر منطقی نوعیت کی مہنگائی کی زد میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں اب افلاس زدہ طبقے کے لیے جینا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ جب ہر چیز مہنگی ہوتی جارہی ہے تو معاملات ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
والی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ حکومت کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ اُس پر اب غصہ کم اور ترس زیادہ آتا ہے۔ لوگ پی ٹی آئی کی حکومت کو کوس رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب حکومت کی اتھارٹی رہی کہاں ہے؟ ہر شعبے کا مافیا اپنی مرضی کے مطابق چل رہا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے کسی بھی چیز کے دام اِس طور بڑھاتا ہے کہ لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ آخر یہ ہوا کیا ہے۔ کراچی کے معاملات اس حوالے سے بہترین مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک زمانے سے کراچی بنیادی سہولتوں کے فقدان سے دوچار ہے۔ یہاں پانی، بجلی اور گیس‘ تینوں معاملات میں انتہائی نوعیت کا بحران رہا ہے۔ اب پانی ہی کی مثال لیجیے۔ کراچی میں واٹر مافیا یا ٹینکر مافیا ایک مدت سے سرگرمِ کار ہے۔ متعدد علاقوں میں پانی کی فراہمی روک کر وہاں کے مکینوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ پانی خریدیں۔ کئی مہنگے علاقوں میں ایک زمانے سے پانی نہیں آرہا۔ وہاں چونکہ غیر معمولی آمدن والے رہتے ہیں اس لیے پانی خرید کر ضرورت پوری کرتے ہیں۔ شہر میں متوسط یا زیریں متوسط طبقے کے لاکھوں افراد پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ یا کم از کم پینے کا پانی تو خریدنا ہی پڑتا ہے۔ بالکل اِسی طور بہت سے علاقوں میں بجلی کی بندش کے ذریعے ایک مدت تک لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ کسی نہ کسی طور اپنے لیے جنریٹر کا انتظام کریں۔ بہت سے تجارتی اور صنعتی ادارے اپنی بجلی آپ پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔ مافیا کا معاملہ پانی اور بجلی تک محدود نہیں۔ ہر شعبے پر کچھ لوگ مسلط ہیں اور انہی کی مرضی سے معاملات نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، معاملات جوں کے توں رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ معاملات درست نہیں کیے جاسکتے۔ اس کے لیے محنت بہت چاہیے اور نیت کا اخلاص بھی۔ حکومتی یا ریاستی مشینری کی درستی کے بغیر ہم کسی بھی معاملے کو درست نہیں کرسکتے۔
مہنگائی کے سبب حکومت پر کی جانے والی تنقید شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب مختلف شعبوں کو مافیا نے جکڑ رکھا ہو تب ہمارے رونے دھونے سے، نالہ و شیون کرنے سے کیا ہو جانا ہے۔ واویلا مچانے سے معاملات کبھی درست نہیں ہوتے۔ ہمیں من حیث القوم اپنے لیے چند واضح راستے چننا ہیں۔ پہلی ضرورت ہے عقل پسندی کا راستا چُننے کی۔ پھر صبر و تحمل کی راہ پر بھی گامزن ہونا ہے۔ بے عقلی کے ساتھ گزاری جانے والی زندگی بالآخر اُسی بحران سے دوچار کرتی ہے جس کا فی الحال ہمیں سامنا ہے۔ پس ماندہ ترین طبقے سے زیریں متوسط طبقے اور متوسط طبقے تک بہت پیمانے پر اصلاحِ نفس کی ضرورت ہے۔ جب حکومتی مشینری سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جاسکتی ہوں اور ریاستی مشینری ہمارے لیے کچھ خاص نہ کرسکتی ہو تب ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوتا ہے۔ حالات کیسے ہی خراب کیوں نہ ہوں، ایک آپشن تو رہتا ہی ہے ... اصلاحِ نفس کا آپشن۔ جن معاملات کو آپ خود کنٹرول کرسکتے ہیں اگر انہی کو آپ کنٹرول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو سمجھ لیجیے گئی ہو چکا کام۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے بیشتر معاملات بگاڑ کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ہم خود انہیں بگاڑ کا شکار بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو اب ہمارے بس میں نہیں مگر دوسری طرف بہت کچھ اب بھی ایسا ہے جو ہمارے بس میں ہے اور ہم اپنے لیے تھوڑی بہت گنجائش ضرور پیدا کرسکتے ہیں۔ مشکل حالات سے دوچار ہونے پر انسان کا ذہن کام کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ بدحواسی کی حالت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہونے پر ہمیں بدحواس باختہ ہونے سے بچنا ہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم مایوس ہونے کے بجائے امکانات پر غور کریں، ہر اُس کام کے بارے میں سوچیں جو ہم کرسکتے ہیں۔ قدرت کا نظام ایسا ہے ہی نہیں کہ سب کچھ ہمارے اختیار یا دائرۂ کار سے باہر نکل جائے۔ ہر طرح کی صورتِ حال میں کچھ نہ کچھ تو ہمارے اختیار کی حدود میں رہتا ہی ہے۔
مہنگائی کا مقابلہ دو طریقوں سے کیا جاسکتا ہے ؛ اخراجات کم کرکے یا پھر آمدن بڑھاکر۔ کسی بھی معاشرے کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگوں نے اِن دو میں سے کوئی ایک طریقہ یا پھر دونوں ہی طریقے اپناکر اپنے حالات درست کیے۔ کسی بھی معاشرے میں کم آمدن والے طبقے کے لیے اِن دو میں کوئی ایک آپشن تو ہر حال میں کھلا رہتا ہے۔ اگر فوری طور پر آمدن بڑھانا ممکن نہ ہو تو اخراجات میں معقول حد تک کمی لاکر مہنگائی کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم پوری سنجیدگی سے اپنے معاملات اور زندگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک یا دو نہیں بلکہ کئی آئٹم ایسے ہیں جن سے مکمل چھٹکارا پایا جاسکتا ہے یا پھر متعدبہ کٹوتی کے ذریعے اُن آئٹمز کو منطقی حدود میں رکھا جاسکتا ہے۔ بادی النظر میں یہ ساری باتیں ہر اُس آدمی کو عجیب لگتی ہیں جو مہنگائی سے لڑ رہا ہو۔ سوال مہنگائی سے اندھا دُھند لڑنے کا نہیں، ذہانت سے لڑنے کا ہے۔