تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-10-2021

ہیں مدتوں سے کہیں لاپتا کمال کے دن

اس کے ساتھ گزارے ہوئے چھبیس سال چھ ماہ اور سترہ دن اتنے شاندار اور خوشگوار تھے کہ لمحوں میں ہی گزر گئے لیکن آخری دو سال! وہ تو ایسے تھے کہ اس نے مجھے بھی حیران کر دیا۔ لوگ بیماری میں چڑچڑے ہو جاتے ہیں، قوت برداشت کم ہو جاتی ہے، جھنجھلاہٹ طاری ہو جاتی ہے اور مزاج میں تلخی آ جاتی ہے مگر اس اللہ کی نیک بندی کے ساتھ اس کے بالکل الٹ ہوا۔ حتیٰ کہ وہ تو ان باتوں کو بھی یکسر نظر انداز کرنے لگ گئی جن پر وہ پہلے ناراض ہوتی یا غصہ کرتی تھی۔ میں نے ایک بار اس سے ہنس کر کہاکہ یہ بیماری پہلے کہاں تھی؟ کیا تم پہلے بیمار نہیں ہو سکتی تھیں؟ اس نے مجھ سے بھی زیادہ ہنس کر کہا: دراصل میں چاہتی ہوں‘ آپ میرے جانے کے بعد مجھے یاد کریں۔ خاص طور پر ان آخری دنوں کو۔ وہ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ All's well that ends well یعنی اگر اخیر اچھا ہے تو سمجھیں سب اچھا ہے۔ گزشتہ چوبیس سال تو میں نے یہ سوچ کرگزار دیئے کہ ابھی بڑی زندگی پڑی ہے مگر اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں بچا۔ پھر شرارتی انداز میں مسکراکر کہنے لگی: دراصل میں چاہتی ہوں کہ جب آپ میرا موازنہ اپنی دوسری بیوی سے کرکے مجھے یاد کریں تو مجھے اوپر مزا آئے۔ میں نے کہا: اگر تمہیں یاد کرنے کی یہی شرط ہے تو سمجھو پھر میں نے تمہیں کبھی یاد نہ کیا۔ ایک دم سنجیدہ ہو کر کہنے لگی: سب مرد ایسے ہی کہتے ہیں۔
ایک دن مجھ سے کہنے لگی: آپ کی کوئی نیکی کام آگئی ہوگی کہ آپ کے ماں باپ نے آپ کیلئے ڈھنگ کی بیوی تلاش کرلی لیکن آپ سے باقی کاموں کی طرح یہ کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہوپائے گا۔ مجھے لگتا ہے یہ کام بھی مجھے ہی کرنا پڑے گا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون کا انتخاب کیا تھا مگر اس کی تو چھ ماہ پہلے شادی ہوگئی ہے لیکن آپ مایوس نہ ہوں۔ میں نے ایک اور رشتہ دیکھ رکھا ہے۔ بات ہنسی مذاق میں آئی گئی ہوگئی۔ ہسپتال داخل ہونے سے دو چار دن پہلے کہنے لگی: مجھے پریشانی اپنے جانے کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ پر مشکل وقت آنے والا ہے‘ اللہ جانے آپ اسے کیسے نبھا پائیں گے؟ سات آٹھ دن بعد وہ چلی گئی اور مشکل وقت شروع ہوگیا۔ اور کوئی مشکل بھی ایسا ویسا؟ زندگی کی ساری آسانیاں رخصت ہوگئیں۔ شروع میں بہت مشکل پیش آئی‘ پھر یوں لگاکہ شاید ہماری زندگی سدا سے ایسی ہی تھی، بے رنگ اور بے کیف‘ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اب اس زندگی سے تعلقات خاصے بہتر ہوگئے ہیں لیکن جب اس کی یاد آئے تو یہ مستعار خوشیاں اور زندگی سے سارا تعلق بوجھ لگتا ہے۔ منظرنامے میں اس کی یاد آئے تو ہنسنا، بولنا، ملنا جلنا اور خوش ہونا باقاعدہ جرم سا لگتا ہے لیکن کیا کریں؟ مالک کائنات نے وقت اور انسان کے درمیان عجب گزارے لائق رشتہ بنا رکھا ہے۔
کبھی اس گھر میں ایسا ہنگامہ برپا رہتا تھاکہ خدا کی پناہ۔ مہمانداری، ہنسی مذاق، رونق میلہ، بھاگ دوڑ اور ہمہ وقت کی ہلچل۔ اب یہ عالم ہے کہ ایک طے شدہ روٹین کی زندگی ہے جیسے کمپیوٹر میں پروگرام ڈال کر اسے ایک ڈھب پر ڈال دیا گیا ہو۔ صبح اخبار اٹھا کر لاتا ہوں۔ کچن میں ناشتہ بناتا ہوں۔ سارا سال ایک روٹین کا ناشتہ ہے جو موسم کے حساب سے چلتا ہے۔ سولہ مارچ سے پندرہ نومبر تک میرا ناشتہ لسی ہے اور مجھے بنانا بھی یہی آتی ہے۔ سولہ نومبر سے پندرہ مارچ تک کشمیری چائے کے ساتھ لاہور سے آئی ہوئی باقرخانیاں چلتی ہیں جو آغا نثار ہر پندرہ بیس دن بعد تازہ بہ تازہ بھجواتا رہتا ہے۔ اخبار پڑھتا ہوں نہا کرتیار ہوتا ہوں اور ڈیرہ نما دفتر میں آجاتا ہوں۔ یہاں عصر کی نماز باجماعت ادا ہوتی ہے اور اس کے بعد گھر آجاتا ہوں۔ رات گئے تک انعم میرے کمرے میں ہوتی ہے۔ ہم دن بھرکی کارروائی ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ ادھر اُدھر کا حال احوال لیتے ہیں۔ مغرب کے بعد دونوں اکٹھے کھانا کھاتے ہیں اور پھر اکٹھے ٹی وی دیکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ مجھے ڈرامے دیکھنے کی عادت ہوتی جارہی ہے۔ خبرنامہ، ٹاک شوز اور حالات حاضرہ کے پروگرام دیکھے نو سال ہو چکے ہیں۔ رات انعم مجھے کافی بنا کر دیتی ہے۔ جیسے ہی کافی ختم ہوتی ہے وہ کپ اٹھاتی‘ مجھے اللہ حافظ کہتی‘ اور اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ میں سرہانے پڑی کتاب اٹھاتا ہوں۔ چند صفحات پڑھتا ہوں اور پھرسو جاتا ہوں۔ یہ گھر بھلا ایسے کب ہوتا تھا؟
اس میں تھوڑی سی گہماگہمی تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی مہمان یا اسد اسلام آباد سے آجائے۔ مجھے اندازہ تو تھاکہ اس کے بغیرگھر چلانا اور زندگی گزارنا مشکل ہوگا مگر اندازے اور حقیقت میں کتنا فرق ہے یہ صرف میں ہی جانتا ہوں۔ ایک روز مجھ سے کہنے لگی: آپ محبت کے معاملے میں بڑے کنجوس اور سخت دل ہیں۔ میں نے کہا: یہ تم کہہ رہی ہو‘ ایک تمہی توہو جس سے محبت کی ہے۔ بولی: اسی لیے تو کہہ رہی ہوں‘ بھلا محبت خرچ کرنے سے ختم ہوتی ہے جوآپ اتنے حساب کتاب اور کنجوسی سے خرچ کرتے ہیں‘ اوربھلا آپ نے محبت کب کی تھی؟ وہ تومیں نے کوشش کرکے یہ بند کھڑکی کسی طورکھول لی تھی۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ وہ ٹھیک ہی کہتی تھی۔ مجھے نہ تو ڈھنگ سے محبت کرنی آئی اور نہ ہی اس کے اظہارکا سلیقہ۔ وہ گئی اور باقی پچھتاوے رہ گئے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کی تکمیل نہ کر پانے کے پچھتاوے۔ درجنوں کام ایسے جو صرف'' کرلیں گے‘‘ کی نذر ہوگئے۔ پھر خیال آتا ہے کہ اس میں بھلا میرا کیا قصور تھا؟ مجھے کیا پتا تھاکہ چھبیس سال اتنی جلدی گزر جائیں گے۔ آج اسے گئے پورے نوسال ہوگئے ہیں۔ کیا خبر تھی کہ یہ نو سال اتنے طویل ہوں گے کہ گھر میں اب اس کی موجودگی کا شبہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ عرصہ ہوا اب میں نے کبھی باتھ روم سے سر نکال کر اس سے تولیہ نہیں مانگا۔ کبھی ڈریسنگ روم سے آواز لگا کراپنی چپل کے بارے میں دریافت نہیں کیا‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اسے بھول گیا ہوں۔ زخم بیشک خشک ہو گیا ہے مگر اس کا کھرنڈ سوکھنے میں نہیں آ رہا۔ ایسا ہی معاملہ ہے جیسا حضرت ذوق کا یہ شعر:؎
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ کبھی
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
صبح ڈریسنگ روم میں کپڑے بدلتے ہوئے دوسری کھونٹی سے اپنی پتلون اتارتا ہوں تو نظر بے اختیار پہلی کھونٹی پر نو سال سے لٹکے ہوئے اس کے ہلکے گلابی اور جامنی پرنٹ والے آف وائٹ جوڑے پر پڑتی ہے اور یہ کھرنڈ چھل جاتا ہے۔ وہ اسے خود یہاں لٹکاکر ہسپتال گئی تھی۔ صرف اس جوڑے کی خاطر گزشتہ نوسال سے ڈریسنگ روم کو پینٹ نہیں کروایا کہ ان کپڑوں کو جگہ بے جگہ کرنے پر دل راضی نہیں ہوتا۔ اپنی عادت کے مطابق وہ اس جوڑے کو بھی باقی چیزوں کی مانند سینت سانت کرکہیں رکھ سکتی تھی۔ ہسپتال جاتے ہوئے جہاں وہ گھر کی ہر چیز کو اس کی جگہ پر ترتیب سے رکھ کر گئی تھی اس جوڑے کو بھی دھلنے والے کپڑوں میں ڈال سکتی تھی۔ اللہ جانے کیا وجہ ہوئی ہو گی جو وہ جاتے ہوئے اس جوڑے کو یہاں لٹکا گئی!؎
کسی فراق میں رکھے ہوئے وصال کے دن
ہیں مدتوں سے کہیں لاپتا کمال کے دن

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved