تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     21-10-2021

کون کرے گا؟

جدید چین کے بانی ڈینگ ژیاؤ پنگ سیاسی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے گزرتے ہوئے انیس سو ستر کی دہائی میں صنعتی پیداوار کی نگرانی کے ایسے عہدے پر فائز ہوئے جہاں رہ کر وہ چین کی معاشی سمت درست کرسکتے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ کام کا آغاز کرنے سے پہلے اپنے ماتحت اداروں کے سربراہوں اور مزدوروں کا ایک کنونشن بلایا۔ اس کنونشن میں انہوں نے اپنا ہدف پچیس برس بعد سن دوہزارقرار دیا۔ اس موقع پر اپنی تقریرمیں انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تین کام کرنا ہوں گے۔ پہلا‘ چین میں ہلکی انجینئرنگ کی صنعت کو فروغ دیا جائے، دوسرا‘ بھاری انجینئرنگ (ریل کی پٹری بنانا یا لوہے کی پیداوار میں اضافہ وغیرہ) کی پیداوار میں اضافہ اور تیسرا زراعت کو مکمل طور پر مشینوں پر منتقل کردینا۔ ان کا خیال تھاکہ ان تین شعبوں میں کام کرکے 2000ء تک چین دنیا کا سب سے بڑا پیداواری مرکز بن کر ابھرے گا۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ نے اہداف مقرر کرکے آگے بڑھنا شروع کیا تو انہیں سیاسی ضروریات کے تحت عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ بحال ہوئے تو انہوں نے کام کا آغاز وہیں سے کیا جہاں چھوڑا تھا۔ اس کے بعد چین آگے بڑھتا چلا گیا۔ اس کی ترقی دنیا کے لیے مثال بننے لگی اور 2000ء کے بعد سے چین دنیا میں پیداوار کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔
ڈینگ ژیاؤ پنگ کا سہ نکاتی منصوبہ دنیا میں کوئی نئی چیز نہیں تھا۔ ان سے پہلے معاشیات کی تقریباً سبھی کتابیں بھی معاشی ترقی کا یہی راستہ تجویز کرتی ہیں۔ چین سے پہلے جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان اور ملائیشیا اسی طرح کے منصوبوں پر عمل کرکے اپنی اپنی معیشت کو مستحکم کرچکے تھے۔ ان ملکوں کے علاوہ دنیا بھر کی کسی بھی کامیاب معیشت کو دیکھ لیں، اس کی تہہ میں ڈینگ ژیاؤ پنگ جیسا ہی کوئی منصوبہ نظر آئے گا۔ اس لیے ڈینگ کا اصل کارنامہ اس منصوبے کی دریافت نہیں، بلکہ اس کی جزئیات پر غور کرکے اس پر مسلسل کام کرتے رہنا تھا۔ یکسوئی کے ساتھ کام اور مسلسل کام کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) جو 1975 میں صرف ایک سو تریسٹھ ارب ڈالر تھی آج بڑھ کر چودہ ہزار چھ سو ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے یعنی گزشتہ سنتالیس برسوں میں اس کی پیداوار میں نوے گنا اضافہ ہوا۔
چین اور پاکستان کا معاشی حوالے سے تو خیر آج کوئی موازنہ ہی نہیں بنتاکہ چین کی معیشت ہم سے پچاس گنا بڑی اور آبادی ہماری آبادی سے ساڑھے چھ گنا بڑی ہے‘ یعنی ایک چینی شہری پاکستانی شہری کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ پیداواری کام کرتا ہے‘ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ 1975 میں دونوں ملکوں کا موازنہ بالکل منطقی سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ تب چین کی آبادی پاکستان کی آبادی سے چودہ گنا زیادہ تھی اور اس کی معیشت بھی ہماری معیشت سے چودہ گنا بڑی تھی۔ ان اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ چین نے اپنا راستہ چنا اور اس پر گامزن ہوگیا لیکن پاکستان معاشی اور سیاسی بھول بھلیوں میں گم ہوکر اپنا راستہ کھو بیٹھا۔
پاکستانی معیشت کا ایک مسلسل مسئلہ کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی اور کاروبار دوست سرکاری مشینری کا فقدان رہا ہے۔ ان دونوں عوامل نے مل کر پاکستان کو معاشی طور پر اتنا بیمار کردیا ہے کہ جب تک نظام میں جوہری تبدیلیاں نہیں کی جاتیں ہماری معیشت معمولی رفتار سے تو بڑھ سکتی ہے لیکن عام آدمی کی زندگی بدل دینے کے لیے ضروری رفتار کبھی نہیں پکڑ سکتی۔ پاکستانی معیشت میں منصوبہ بندی کی کمی یا غلط منصوبہ بندی کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے سینتالیس برسوں کے دوران چین کا جی ڈی پی نوے گنا، جنوبی کوریا کا ستر گنا اور بھارت کا تیس گنا بڑھا جبکہ پاکستان کے جی ڈی پی میں صرف چھبیس گنا اضافہ ہوا ہے۔ چین، بھارت اورجنوبی کوریا تینوں ایسے ملک ہیں جوپاکستان سے کمتر درجے کی معیشت گردانے جاتے تھے لیکن بہتر منصوبہ بندی کی وجہ سے آج تینوں ہم سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی مثال لے لیجیے جس کے جی ڈی پی میں 1975 سے آج تک بیس گنا اضافہ ہوا لیکن اس کا معاشی حجم ہم سے تین فیصد بڑھ چکا ہے۔
کسی بھی ملک کی معیشت میں ایک اہم ترین عنصر اس کے لوگوں کی ہنرمندی ہوا کرتی ہے۔ قوم کی معاشی ترقی کا انحصار اس کے افراد کی انفرادی ہنرمندی پر ہوا کرتا ہے۔ اس پیمانے پر بھی دیکھا جائے تو پاکستان نے اپنی ہمسفر معیشتوں کے مقابلے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جنوبی ایشیا کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ انیس سو پچھتر میں پاکستان میں فی کس قومی پیداوار ایک سو اڑسٹھ ڈالر، بھارت میں ایک سو اٹھاون ڈالر فی کس، چین میں ایک سو اٹھتر ڈالر فی کس اور بنگلہ دیش میں دو سو ستتر ڈالر فی کس تھی۔ 2021ء میں فی کس قومی پیداوار پاکستان میں ایک ہزار ایک سو نوے ڈالر، بھارت میں دوہزار ایک سو ڈالر، بنگلہ دیش میں دو ہزار ایک سو اڑتیس ڈالر اور چین میں آٹھ ہزار آٹھ سو چالیس ڈالر ہوچکی ہے۔ اگر ہم افراط زر کو مدنظررکھ کر دیکھیں تو سنتالیس سال پہلے کے ایک سو اڑسٹھ ڈالر آج آٹھ سو تنتالیس ڈالر بنتے ہیں گویا پاکستانیوں کی ہنرمندی میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں نہ ہونے جیسا اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں آج سے سنتالیس برس پہلے تھے اور اس وقت جو ہمارے برابر کھڑے تھے‘ آج ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ یہ سوال اب پوری شدت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے یا یہیں کھڑے رہنا ہے۔
جب تک ہم معیشت اور صرف معیشت کو پاکستان کا پہلا مسئلہ نہیں سمجھیں گے اور اسے درست کرکے لوگوں کی آمدنی نہیں بڑھائیں گے توروپیہ گرتا رہے گا، تیل مہنگا ہوتا رہے گا، بجلی کے بل بڑھتے چلے جائیں گے، قیمتیں پہنچ سے باہر جاتی رہیں گے، ہم حکومتیں گراتے بناتے رہیں گے اور آخرکار سب کچھ تباہ کر بیٹھیں گے۔ اگر آپ دستیاب سیاسی و معاشی مدبرین کی بات کریں تو یہ سب آزمائے جاچکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس اسحٰق ڈار ہیں جنہوں نے اپنی وزارت خزانہ کے دور میں تجارتی خسارہ اتنا بڑھا دیاکہ اگروہ مزید چند سال رہ جاتے تو شاید ملک دیوالیہ ہوجاتا۔ ان سے پہلے اور بعد میں ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب اس منصب پر تشریف فرما رہے۔ ان کا معاشی فارمولا یہ ہے کہ سب کچھ بند کردو، لوگوں کو بھوکا مرنے دو بس سرکاری کھاتے درست رکھو۔ تحریک انصاف کے اسد عمر کو جب وزارت خزانہ ملی تو پتا چلا کہ ان کے پاس کوئی پالیسی ہے نہ منصوبہ لہٰذا بے ہنگم انداز میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے اس وزارت سے نکال دیے گئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا ہمیشہ یہ مسئلہ رہا ہے کہ اسے ملک میں معاشی توازن قائم کرنا ہی نہیں آیا۔ اس کے نزدیک سرکاری نوکریاں بانٹ دینا ہی سب سے بڑی معاشی پالیسی ہے۔ ان حالات اور دستیاب سیاسی جماعتوں کو دیکھتے ہوئے تو حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ ان میں سے کوئی اس قابل ہے جو ملکی معیشت کو نئے راستے پرڈالنا تو دور کی بات، پرانے راستے پر بھی درست انداز میں چلا سکتا ہے۔ ہمارے حالات برے ہیں، یہ معلوم ہے۔ ٹھیک کیسے ہوں گے، یہ بھی پتا ہے۔ کون کرے گا، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved