پٹرول، بجلی، آٹا، چینی اور گھی کی قیمتیں تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ مہنگائی کی خوفناک لہر نے عام آدمی کی زندگی کربناک بنا رکھی ہے۔ پٹرول کیوں اتنا مہنگا ہے؟ اس پر حکومتی معاشی ترجمان کوزے میں دریا بند کرچکے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں سے لے کر ہمسایہ اور دور دراز ممالک تک میں تیل کی قیمتوں سے موازنہ پیش کیا جاچکا ہے۔ ناشکرے اور بے صبرے عوام کو چاہیے کہ جس قیمت پر پٹرول مل رہا ہے وہ لیں اور حکومت وقت کا شکریہ ضرور ادا کریں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ تو سراسر پچھلی حکومتوں کی نااہلی ہے۔ کرپٹ ٹولے نے اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے قوم کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا اور ایسے معاہدے کیے جن کی قیمت آج تحریک انصاف کو چکانا پڑرہی ہے۔ آٹا مہنگا ہونے کی وجہ سندھ حکومت ہے جو وقت پر گندم ریلیز نہیں کرتی۔ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ شوگر مافیا ہے جس کے خلاف کپتان صاحب ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ گھی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بین الاقوامی سطح پر خوردنی تیل کا مہنگا ہونا ہے۔
اب مہنگائی پر حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا تو ناانصافی ہوگی! پھر بھی اپوزیشن نے عوام کی ترجمانی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پی ڈی ایم یعنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور دیگر جماعتوں نے مظاہرے، ریلیاں اور پہیہ جام کرنے کا تہیہ کیا ہے۔ پیر کے روز پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ کی دیرینہ خواہش کا بھی اظہار کیا۔ اسی لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کی بات پر پیپلز پارٹی اور اے این پی نے اپوزیشن کے اتحاد سے راہیں جدا کی تھیں۔ خیر اب پیپلز پارٹی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا چکی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نوجوان اور متحرک سیاسی قیادت ہیں۔ انہوں نے بھی عوام کے حق میں آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو مہنگائی کے خلاف احتجاج کی کال دی ہے۔
سیاسی نقار خانے میں ویسے تو اب جماعت اسلامی محض طوطی کی آواز بن کر رہ گئی ہے اس کے باوجود وہ بین الاقوامی، قومی اور عوامی سطح کے تمام ایشوز پر اپنی الگ رائے رکھنی والی جماعت کی حیثیت سے اپنا موقف پیش کرتی رہتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی 31 اکتوبر سے اسلام آباد میں ڈی چوک پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ '31 اکتوبر ابھی کافی دور ہے اور جب جماعت اسلامی دھرنا دینے اسلام آباد کا رخ کرے گی تب دیکھیں گے‘ حکومت نے شاید کچھ ایسا سوچ کر جماعت اسلامی کو ابھی تک کوئی لفٹ نہیں کرائی‘ نہ ہی کوئی جواب دیا ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم مہنگائی سے نمٹنے کیلئے خود میدان عمل میں اترچکے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں پر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کی بھی ہدایت کردی ہے۔ ان انتہائی اقدامات کے بعد عوام کو اب گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں۔ اچھے دنوں کا انتظار کریں کبھی نہ کبھی آ ہی جائیں گے۔ شرارتی ناقدین‘ جو 1992ء کے ورلڈ کپ کی جھلکیاں دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں‘ کی باتوں پر بالکل کان نہ دھریں۔ پٹرول، بجلی، گیس اور کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہونے پر اپوزیشن دور کے وزیر اعظم کے بیانات بھی نہ دیکھیں۔ صبر، قناعت اور سختی برداشت کرنے کا جو درس دیا جا رہا ہے‘ اس پر عمل پیرا ہوں۔ پیپلز پارٹی کی احتجاجی تحریک سے بھی بظاہر حکومت کو کوئی بہت بڑی پریشانی لاحق نہیں۔ جب پیپلز پارٹی سڑکوں پر نکلے گی تو دیکھا جائے گا۔ پھر بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ضروری ہیں‘ اسی لیے وزیر مملکت فرخ حبیب نے پیپلز پارٹی کو بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کے خلاف سندھ سے تحریک شروع کرنے کا مشورہ دیاہے۔
2018ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد حکومت کے قائم ہونے سے لے کر آج تک پی ڈی ایم کی قیادت مختلف ایشوز پر اپنے تندوتیز بیانات سے سیاسی ماحول گرمائے رکھتی ہے۔ دوسری طرف تبدیلی حکومت کے ہرکارے بھی کچھ کم نہیں۔ اپوزیشن کو اگر کوئی موقع نہ ملے تو کابینہ میں شامل وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی پر مشتمل فوج ظفر موج اپنی تند و تیز بیان بازی سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کردیتی ہے۔ ایسے میں میڈیا کو سنسنی خیز ہیڈ لائنز بھی مل جاتی ہیں اور رات کو پرائم ٹائم میں کرنٹ افیئرز کے پروگراموں کے لیے اچھا خاصا اور چٹخارے دار مواد بھی دستیاب ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال سے اور کچھ ہو یا نہ ہو، مہنگائی کے ستائے عوام کو ریلیف ملے نہ ملے، عوام کا تھوڑی دیر کے لیے دل ضرور بہل جاتا ہوگا۔ ویسے موسم میں خنکی بڑھنے کے ساتھ سیاست میں پارہ ضرور بڑھتا ہے۔ پچھلے سال بھی اپوزیشن نہایت خلوص نیت کے ساتھ سڑکوں پر یہ عزم لیے ہوئے تھی کہ حکومت کو گھر بھیج کر ہی دم لے گی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا ''آر یا پار‘‘ کا تاریخی جملہ بھی انہی دنوں کی یاد ہے۔ خیر اس کے بعد پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ گیا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ آر یا پار تو نہ ہوا پی ڈی ایم کا اتحاد ضرور ٹوٹ گیا۔ بچی کھچی پی ڈی ایم ایک بار پھر خلوص نیت کے ساتھ سڑکوں پر آرہی ہے۔ اس بار پی ڈی ایم مہنگائی کے خوف ناک طوفان پر عوام کی آواز بننے کا عزم لیے ہوئے ہے‘ حکومت کو گھر بھیجنا تو خیر اپوزیشن اتحاد کی دیرینہ خواہش ہے۔ اس لیے اگلے کچھ ہفتے میں سیاسی ماحول مزید گرم ہونے کا امکان ہے۔ حکومت اب بھی پی ڈی ایم کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ مریم نواز حکومت پر تنقید کریں تو حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ لندن بیٹھے ہوئے اپنے والد محترم کو وطن واپس لائیں، قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس کریں، اپنی سزا پوری کریں۔ مولانا فضل الرحمن کو وزیر اطلاعات فواد چودھری 'رینٹ اے کراؤڈ‘ کی سروس شروع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس سارے سیاسی منظرنامے میں عوام کہیں بھی ترجیح کے طور پر فی الوقت نظر نہیں آتے۔ دوسری طرف تقرری کے حوالے سے پیدا ہونے والے قدرے تنائو کے باعث جہاں ایک طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیج پر ہونے کے تاثر کو ٹھیس پہنچی، وہیں اپوزیشن کی صفوں میں اس سے کچھ ریلیف ملنے کا تاثر بھی پایا جاتا ہے۔ ''واقفان حال‘‘ کے مطابق ملک کے اہم حلقوں کی طرف سے اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ اہم حلقوں کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف سے رابطوں کی اطلاعات کے بعد، جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے بھی رابطے قائم ہونے کی اطلاعات نے حکومتی صفوں میں اگرچہ اس طرح سے گھبراہٹ نہ بھی پیدا کی ہو‘ کم از کم پریشانی کے آثار ضرور پیدا کر دیے ہیں۔