کیا بات کی جائے اس ہستی کی جس کے نام سے ہم پہچانے جاتے ہیں اور جس کے وسیلے سے ہمیں رزق ملتا ہے۔ فقر و فاقہ سے گزر رہے ہوں، یا شکست و ریخت سے۔ فتح کا جشن منا رہے ہوں یا کوئی اور خوشی۔ بے حضور ہوں یا پیشانی زمین پر ٹکائی ہوئی ہو۔ چوٹی پر کھڑے ہوں یا پاتال میں پہنچے ہوئے ہوں۔ بہم دست و گریبان ہوں یا معانقوں میں مصروف ہوں۔ عربی ہوں یا عجمی۔ کھڑے ناک نقش والوں ہوں یا چپٹے خدوخال والے۔ گندمی ہوں یا سیاہ۔ لمبے دراز گیسو ہوں یا چھوہارے اورکشمش جیسا سر۔ حالت کوئی بھی ہو لیکن اس حال سے خالی نہیں۔ خطہ کوئی بھی ہو، اربوں نام وہ ہیں جن کے ساتھ محمد کا سابقہ یا لاحقہ لگتا ہے۔ چودہ صدیوں سے ایک تسلسل کے ساتھ یہ نام ہمارے اربوں ناموں کا حصہ ہے۔ ان چودہ صدیوں میں جو نام آئے ان کی گنتی، ان کا شمار کون کرسکتا ہے۔ یہ سب نام آئے اور فنا ہوگئے لیکن یہ سابقہ، یہ لاحقہ اسی طرح ہے۔ ہر نسل کے ساتھ، ہر صدی کے ساتھ ہر زمانے کے ساتھ۔ اور جن ناموں کے ساتھ یہ سابقہ لاحقہ نہیں لگتا، وہ کسی اور طرح اسی ایک نام سے جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں دیکھے گا۔ ایک زنجیری تسلسل کے ساتھ ہر نام کی آخری منزل یہی ایک نام ہے‘ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)۔اس فنا پذیر زندگی میں، اس تغیر زدہ وقت میں ہے اور کوئی نام؟ کوئی ایسی مثال جو اس طرح زندہ ہو؟
ہجرت کا سفر پڑھتا ہوں اور دل کسی آنچ سے پگھلتا جاتا ہے۔ یاد کرو وہ وقت جب دشمنوں کے کڑے محاصرے میں ایک نورانی چہرے والے نے اپنے عم زاد سے کہا ''علی! آج رات تم میرے بستر پر میری حضرمی چادر اوڑھ کر سو جاؤ، تمہیں گزند نہ پہنچے گا‘ اور امانتیں ان کے مالکوں کے سپرد کردینا‘‘۔ پھر وہ شخص گھر سے نکلا اور اپنے دشمنوں کے سروں میں خاک ڈالتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
اور وہ وقت جب غار میں دو افراد میں سے دوسرے نے کہا! ''اے اللہ کے رسول‘ اگر یہ لوگ اپنے پیروں کی طرف دیکھ بھی لیں گے تو ہمیں پا لیں گے‘‘۔ اور اللہ کے رسول نے جواب دیا ''ما ظنک یا ابا بکر باثنین اللہ ثالثھما‘‘
''اے ابو بکر! ایسے دو آدمیوں کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:3653)
اوروہ وقت جو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ''جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہوگیا، راستہ خالی ہوگیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہاتو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی جس کے سائے پر دھوپ نہیں آئی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چٹان کی طرف چلا آرہا ہے۔ وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جو ہم نے چاہا تھا (یعنی سایہ)۔ پھراس نے ایک قاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا‘ اور میر ے پاس ایک چرمی لوٹا تھا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا لیکن گوارا نہ کیا کہ آپ کو بیدار کروں چنانچہ جب آپ بیدار ہوئے تو میں آپ کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ پھر میں نے کہا ''اللہ کے رسول! پی لیجیے۔ آپ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا‘‘۔ (صحیح بخاری:3917)
اور جب نبیﷺ نے ام معبد سے اس بکری کے بارے میں پوچھا جو دودھ نہ ہونے اور کمزوری کی وجہ سے ریوڑ سے پیچھے خیمے میں رہ گئی تھی۔ فرمایا ''اجازت ہو تو میں اس بکری کو دوہ لوں‘‘؟ ام معبد نے کہا ''میرے ماں باپ آپ پر قربان‘ اگر (اس کمزور بکری میں) آپ کو دودھ دکھائی دے رہا ہو تو ضرور دوہ لیں‘‘۔ (یہ قحط کا زمانہ تھا) پھر آپ نے بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا۔ اللہ کا نام لیا اور دعا کی۔ بکری نے پاؤں پھیلا دیے۔ بھرپور دودھ اتر آیا۔ آپ نے ام معبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کرسکتا تھااور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آگئی۔ پھر ام معبد کو پلایا۔ وہ پی کر شکم سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا۔ وہ بھی شکم سیر ہوگئے تو خود پیا۔ پھر اسی برتن میں اتنا دوہا کہ وہ دودھ سے بھر گیا‘ اور اسے ام معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے۔ (زادالمعاد)
اللہ اللہ۔ ہم صرف سیرت کے وہ واقعات ہی پڑھ لیں جو دل کو گداز کرتے ہیں، مصائب میں حوصلہ دیتے ہیں تواسی کی برکت سے شاید ہمارے دن بدل جائیں۔ ہمارے دل بدل جائیں۔ یہ شعر ایسے ہی لمحات تو ہیں۔ آئیے انہیں میرے ساتھ بسر کریں۔
ہے تصور میں عہدِ نبی سامنے، اس زمانے کے پل جگمگاتے ہوئے
آنکھ کے سامنے ہیں مناظر بہت، چلتے پھرتے ہوئے، آتے جاتے ہوئے
ایک چادر کو تھامے ہوئے ہیں سبھی، چاہتے ہیں سبھی آپ سے منصفی
آپ کے دستِ فیصل میں سنگِ سیہ سب قبیلوں کا جھگڑا مٹاتے ہوئے
عتبہ ابن ربیعہ ہے بیٹھا ہوا، صحنِ کعبہ میں ہاتھوں کو ٹیکے ہوئے
اور نبی اس کو ترغیب و ترھیب کی چند آیاتِ قرآں سناتے ہوئے
مشرکوں کی غلامی ہے دشوار تر، کیسی تعذیب میں ہے سمیہ کا گھر
اور یہ پہلی شہادت ہے اسلام میں، ایک باندی یہ اعزاز پاتے ہوئے
ان میں ام عبیس اور زنیرہ بھی ہیں، نہدیہ بھی ہیں ابن فہیرہ بھی ہیں
سخت تکلیف میں دیکھتے ہیں انہیں پھر ابوبکر گردن چھڑاتے ہوئے
امِ معبد کا خیمہ ہے اک مستقر ہے، یہ مکہ سے یثرب کی جانب سفر
دودھ سے بھر گئے اس کی بکری کے تھن، میزبانوں کی قسمت جگاتے ہوئے
خوف سے ہیں سراقہ کے اوسان گم، دھنس گئے ریت میں اس کے گھوڑے کے سم
اس کو کسریٰ کے دو کنگنوں کی خبر دے رہے ہیں نبی مسکراتے ہوئے
دور سے ایک ناقہ ابھرتا ہوا، اک سوار آپ پر سایا کرتا ہوا
حد یثرب پہ انصار کی لڑکیاں، گیت گاتے ہوئے، دف بجاتے ہوئے
آنے والا جب اس شہر میں آئے گا، تاابد یہ مدینہ ہی کہلائے گا
ایک چھوٹی سی بستی ہے یثرب ابھی، راہ ہجرت میں آنکھیں بچھاتے ہوئے
دن نکلنے لگا، شام ڈھلنے لگی، منجمد تھی جو ظلمت پگھلنے لگی
اوس و خزرج کی قسمت بدلنے لگی، علم کی روشنی میں نہاتے ہوئے
اک کھجوروں کا باغ اور کچھ مال و زر، ہے یہ سلمانِ فارس کا بخت دگر
چومتی ہے زمیں آپ کی انگلیاں کچھ کھجوروں کے پودے لگاتے ہوئے
دور ہجرت کی تشنہ دہانی ہے یہ، بئر رومہ ہے اور میٹھا پانی ہے یہ
اور عثمان اسے وقف کرتے ہوئے، پیاس شہر نبی کی بجھاتے ہوئے
تین افراد کو سنبلہ کی تپش اور کھجوروں کا موسم ہے روکے ہوئے
ایک غزوے کی خاطر نکلتے ہوئے قافلے دور سے دور جاتے ہوئے
ایک تسمے کی صورت تھا پانی یہاں، چھو رہی ہیں جسے آپ کی انگلیاں
دیکھتی ہے تحیر سے تشنہ زمیں، ایک صحرا کو گلشن بناتے ہوئے