پاکستان اس وقت مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری ہے‘ جہاں پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کیا جانا ہے، تین روزہ اجلاس کے بعد آج (جمعرات) ایک پریس کانفرنس میں اس اجلاس کے فیصلوں کا اعلان کیا جائے گا۔ دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات ابھی تک بے نتیجہ دکھائی دے رہے ہیں اورشوکت ترین صاحب کی بطور وزیر خزانہ آئینی مدت ختم ہو چکی ہے‘ انہیں وزیراعظم کا مشیر برائے فنانس اور ریونیو تعینات کر دیا گیا ہے۔
اگر ایف اے ٹی ایف معاملات پر نظر ڈالی جائے توجون 2021ء میں منعقد ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی کارکردگی حوصلہ افزا تھی۔ 27 میں سے 26 پوائنٹس پر عمل درآمد مکمل ہو چکا تھا‘ اس کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق 27 ویں پوائنٹ کے حوالے سے بھی کافی اہداف حاصل کر لیے گئے ہیں۔ موجودہ اجلاس میں پاکستانی ٹیم فیٹف کو مطمئن کر پاتی ہے یا نہیں‘ اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر حکومتی اور عوامی حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال اور پاکستان کی عالمی فورم پر افغانستان کی نمائندگی ایسے معاملات ہیں جو پاکستان کواپریل 2022ء تک کے لیے گرے لسٹ میں رکھنے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے امکانات نہایت کم ہیں لیکن اتنی کاوشوں کے باوجود گرے لسٹ میں برقرار رہنا بھی مناسب نہیں ہے۔
دوسری طرف آئی ایم ایف اور حکومت کے مابین معاملات ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ شوکت ترین صاحب اسے معمول کی تاخیر قرار دے رہے ہیں لیکن حالات اتنے سادہ دکھائی نہیں دے رہے جتنے حکومت کی جانب سے بتائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کی تاخیر جون 2021ء میں بھی دیکھنے میں آئی تھی اور اس کے بعد بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ موجودہ مبینہ ڈیڈ لاک بھی کوئی اچھی خبر لاتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پہلے ہی16 اکتوبر کو تیل کی قیمتوں میں اضافے کے عوامل میں بین الاقومی مارکیٹ کے علاوہ آئی ایم ایف کے دبائو کا اثر بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اوگرا کی تجاویز کے برعکس پٹرول کی مد میں 5 روپے 19 پیسے اور ڈیزل کی مد میں 3 روپے 44 پیسے زیادہ اضافہ مبینہ طور پر آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا گیا۔ یہ اضافہ اس موقع پر کیا گیا جب شوکت ترین صاحب مذاکرات کے فائنل راؤنڈ کے لیے امریکا تشریف لے جا چکے تھے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف یہ مذاکرات ورچوئلی کرنا چاہتا تھا لیکن ترین صاحب فیس ٹو فیس مذاکرات کے لیے امریکا جانے پر بضد تھے، ان کا ماننا تھا کہ اس سے بہتر نتائج حاصل ہو سکیں گے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیراعظم صاحب کو یقین دلایا گیا تھا کہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا تو آئی ایم ایف کو منانا آسان ہو گا لیکن ابھی تک ترین صاحب کا امریکا جانا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ جیسے اقدامات بے سود دکھائی دے رہے ہیں۔اس حکمتِ عملی کو وزارتِ خزانہ کی ناقص تیاری اور کمزوری سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔
عوام جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں لیکن سرکار مکمل خبر دینے کے لیے تیار نہیں۔ حکومتی حلقوں سے بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن ان کے علاوہ دیگر معاملات بھی ہیں جو مبینہ طور پر رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذرائع کے مطابق‘ قرض کی بحالی میں رکاوٹ کی ایک وجہ آئی ایم ایف کا مارچ کے مہینے میں کووڈ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دیے گئے قرض میں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہے۔ آئی ایم ایف نے مارچ 2020ء میں Rapid Financing Instrument کے تحت 1 ارب 49 کروڑ ڈالرز کی امداد دی تھی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اس کے استعمال کو صاف اور شفاف قرار دینے سے معذرت کر لی ہے اور نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس حوالے سے بھی رپورٹ میں پیراگراف شامل کیے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف اس حوالے سے تحقیقات کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ ٹریسا ڈبن نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے ہنگامی ملاقات بھی کی ہے۔ فنڈز کے استعمال کی ریکارڈنگ، اکائونٹنگ پروسیجرز، اندرونی کنٹرولز اور سامان کی خریداری سمیت کئی معاملات میں کمزوریاں سامنے آئی ہیں۔ مبینہ طور پر حکومت پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط اس وقت تک جاری نہیں کی جائے گی جب تک ان اعتراضات کے تسلی بخش جوابات نہیں دیے جاتے۔
ان معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط وزیرخزانہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن بدقسمتی سے اب ترین صاحب وزیر خزانہ نہیں رہے ۔ گو کہ ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے لیکن بہت سے اہم حکومتی فیصلوں میں وہ فائنل اتھارٹی نہیں رہے‘ ان میں سب سے اہم سمجھے جانے والے ای سی سی اور این ایف سی کے اجلاس بھی شامل ہیں۔ ان معاملات پر حکومتی موقف جاننے کے لیے جب ڈاکٹر سلمان شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ترین صاحب ان اجلاسوں کی صدارت نہیں کر سکیں گے؛ تاہم وہ ان کا حصہ ہوں گے۔ صدارت وزیراعظم صاحب کریں گے اور ترین صاحب ان کی آنکھ اور کان ہوں گے اور تمام فیصلے ان کی مشاورت سے ہوں گے۔ اسی طرح ممبر اسمبلی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بجٹ پیش نہیں کر سکتے؛ تاہم اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ انہیں جلد ہی سینیٹر منتخب کروا لیا جائے گا۔ اگر کوئی ناگزیر صورتحال بنتی ہے تو حماداظہر صاحب کو وقتی طور پر وزارتِ خزانہ کا اضافی چارج دیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جلد کامیاب ہو جائیں گے، ان کا مطالبہ گردشی قرضوں کو کم کرنا ہے۔ وہ یا تو بجلی چوری روک کر کم کیے جا سکتے ہیں یا ٹیرف بڑھا کر انہیں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں کئی اور راستے بھی ہیں جن پر کام کر کے آئی ایم ایف کے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ بڑا مسئلہ نہیں ہے‘ اعتراضات کے جوابات دے کر معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ اب اس پر کوئی شک نہیں رہا کہ یہ معاملہ سیاسی ہو چکا ہے‘ اگر امریکا پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے تو وہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں لے آئے گا۔
ڈاکٹر سلمان شاہ صاحب کی رائے محترم ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم صاحب کتنے اجلاسوں کی صدارت کریں گے اور اگر شوکت ترین صاحب کو سینٹر منتخب نہ کرایا جا سکا تو اجلاس میں ان کی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکے گی۔ ماضی میں بھی یہی دیکھنے میں آتا رہا۔ دوسری طرف امریکا پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں نظر نہیں آ رہا۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال اور اس میں پاکستان کے نمایاں کردار کے بعد بھی امریکی صدر نے وزیراعظم پاکستان کو فون نہیں کیا جس پر حکومتی حلقے اظہارِ افسوس بھی کر چکے ہیں۔ اب کوئی ایسا معاملہ نظر نہیں آ رہا کہ امریکا کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہو‘ لہٰذافیٹف کے حوالے سے حالات پاکستان کے حق میں دکھائی نہیں دے رہے۔ آڈیٹر جنرل کے اعتراضات پر ڈاکٹر صاحب کے موقف سے اتفاق کرنا مشکل ہے کیونکہ میری نظر میں یہ الزامات سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور حکومت کئی پلیٹ فارمز پر کووڈ فنڈز میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا اعتراف بھی کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ اگر بجلی چوری روکنے کی بنیاد پر ہی آئی ایم ایف اور حکومت کے مذاکرات کامیاب ہونے ہیں تو شاید ناکامی ہی حکومت کا مقدر ٹھہرے۔ دوسری صورت میں اس کا نتیجہ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے جو عوام کے لیے یقینا اچھی خبر نہیں ہو گی۔