بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف ''ناراض اراکین‘‘ نے عدم اعتماد کی تحریک چلا رکھی ہے۔ دیکھیں اگلے ہفتے رائے شماری کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ ناراض اراکین ان کی اپنی جماعت میں سے ہی ہیں۔ واضح تو انہوں نے نہیں کیا، یا ہو سکتا ہے ان کی بات دور کا فاصلہ طے کرکے ہم تک پہنچ نہ سکی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم بات سمجھ نہیں رہے۔ بار بار سنا ہے کہ ان پر اعتماد نہیں رہا۔ سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ آخر وقتاً فوقتاً اراکین کیوں ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ فقط بلوچستان کا مسئلہ نہیں‘ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے اراکین دھواں دھار پریس کانفرسیں کرکے راستہ جدا کرنے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ کراچی کی ایک جماعت، جو وقت کے ساتھ سکڑتی جا رہی ہے، ہمیشہ سے‘ اتحادی جو بھی ہوں کہیں سے ہوں‘ کچھ وقت گزرنے کے بعد حزب اختلاف کی صفوں میں جا بیٹھنے کا ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ مجھے نہیں معلوم اپنی تشکیل سے لے کر آج تک کسی حکومت کے ساتھ وعدہ نبھانے کی قسمیں اٹھانے، وزارتیں لینے، جیبیں گرم کرنے اور مقامی اداروں میں لٹھ بردار کارکنوں کو بھرتی کرانے کے بعد داغ مفارقت نہ دیا ہو۔ اراکین کی ناراضی کا نہ کوئی موسم ہے نہ کوئی نظریاتی اختلاف اور نہ ہی منشور کی تکمیل یا قومی مفاد کے تحفظ کے تقاضے ہیں۔ ناراضی کی رگ صرف اسی صورت پھڑک اٹھتی ہے، جب حکومت ان کے سہارے زندہ ہو۔ اراکین ساتھ دینے سے انکار کر دیں تو حکومت گر سکتی ہو۔ اب یہ بات بھی تھوڑی تھوڑی ہمارے فہم و ادراک کے بند دروازے اور کھڑکیاں توڑ کر داخل ہو رہی ہے کہ آخر حزب اختلاف کی کچھ جماعتیں ملک کے کونے کونے میں جلسے، جلوس اور لانگ مارچ کرنے کے بعد کیوں کہتی ہیں کہ 'ہم تبدیلی اندر سے لے کر آئیں گے‘؟ مقصد یہ ہے کہ ناراض اراکین کی ناراضی کی وجوہات کو اچھی طرح سمجھو اور انہیں خریدنے کیلئے جو کچھ بھی ضروری ہو کر لو، کہ کام ہو جائے۔
ماضی میں ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں کہ ناراض اراکین کی خرید و فروخت سے حکومتیں بنی ہیں اور ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں بھی چلی ہیں۔ دوسری بات جو ہم کہنے کی ہلکی سی جرأت کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں نہ نظریاتی ہیں نہ منشوری، زیادہ تر شخصی اور خاندانی ہیں۔ اس لیے ہماری سیاست، لاڑکانہ، لاہور، میانوالی سے لے کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ہر ضلع تک ''اچھے‘‘ ''قابل‘‘ اور ''خاندانی‘‘ لوگوں کے گرد گھومتی ہے۔ سیاسی جماعتیں بس نام ہیں، محض ایک لیبل اور زیادہ سے زیادہ سیاسی گروہ جو اکٹھے رہتے ہیں۔ یہ جماعتیں مطلوبہ تعداد میں اراکین جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ سب سے زیادہ تعریف تو اس سلسلے میں لاڑکانہ والوں کی کرنی چاہیے کہ سندھ میں انہوں نے ہر با صلاحیت خاندان کو سر سے پیروں تک انعام و اکرام سے صرف نوازا نہیں، سکھر بیراج کے سب دروازے ہمیشہ کے لیے کھول رکھے ہیں۔ یہ ہوتی ہے خاندانی سیاست کہ دہائیوں کی حکمرانی میں کبھی ایسا ہوا نہیں کہ اراکین ناراض ہو کر حکومت گرانے کی دھمکیاں دے سکیں۔ لاڑکانہ تو ویسے علامتاً ہے، طاقت کا مرکز پہلے نواب شاہ اور اب کہیں اور ہے، مگر سب کچھ لاڑکانہ کی برکتوں کی وجہ سے ہے۔ لوگ تو ویسے ہی باتیں بناتے ہیں کہ کچھ اور عوامل بھی کار فرما ہیں، مگر ہم تو افواہوں پہ غور نہیں کرتے۔ صرف مصدقہ خبروں کی جانب ہی توجہ مبذول کرتے ہیں۔ ہاں یاد آیا‘ محترم ذوالفقار مرزا ناراض ہوئے تھے۔ شاید انہوں نے کچھ پنجابی فلمیں ضرور دیکھی ہوں گی کہ مجھے ان کی بڑھکوں میں مظہر شاہ کا رنگ غالب نظر آیا۔ ناراضی ان کی میرے نزدیک بنتی نہیں تھی کہ ان کے بنانے میں یا بننے میں لاڑکانہ اور محترم زرداری صاحب کا ہاتھ تھا۔ سب کچھ سمیٹنے کے بعد ناراض ہونا، بات بنتی نہیں اور پھر ہمارے دیہاتی کلچر میں ''بے وفائی‘‘ (غداری کا لفظ مجھے اچھا نہیں لگتا) کی کچھ قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔ عرصہ ہو چکا ہے ، ان کے بارے میں نہ کوئی خبر آئی ہے، اور نہ کوئی بیان پڑھنے کو ملا ہے۔ جب حریف طاقت ور ہو ، تو ایسے اراکین چپ سادھ لیتے ہیں اور وقت آنے پر پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
ضیاء الحق صاحب بھی کمال کی سیاسی سمجھ بوجھ رکھتے تھے، وردی میں بھی گھاگ سیاسی معلوم ہوتے تھے۔ جانے انہیں یہ کیسے خیال آیا کہ طاقت ور اور اس وقت مقبول‘ پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنا ہے، تو اس کے خلاف کئی محاذ کھول دو۔ اندر کی دھڑے بندی کے علاوہ سب سے بڑی چال غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد تھا۔ اگرچہ تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں نے 1985ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی ہر حلقے میں تعداد تاریخی تھی۔ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد اتنی تعداد میں انہوں نے حصہ لیا۔ ایسے لگا کہ مفت میں ریوڑیاں بانٹی جا رہی تھیں اور ہماری اسمبلیوں کے مستقبل کے اراکین یہ ریوڑیاں حاصل کرنے کے لیے بے چین تھے۔ اراکین کی اہمیت کا اندازہ تو اس وقت ہوتا ہے جب کسی سیاسی جماعت کے وجود کے بغیر آپ صوبوں اور وفاق میں حکومت تشکیل دیں۔ مطلوبہ تعداد کرنے کے لیے بہتوں کو خوش کرنا اور رکھنا پڑتا ہے۔ جنرل صاحب بہت سیانے تھے۔ انہوں نے مستقبل کے وزیر اعظم کو نامزد کرنے کی پاور اپنے ہاتھ میں رکھ لی تھی اور ان کے نامزد امیدوار کے مقابلے میں کوئی اور شخص امیدوار نہیں بن سکتا تھا۔ اسمبلیوں نے نامزدوں کے حق میں صرف اعتماد کا ووٹ دینا تھا اور وہ سب کو مل گیا۔ جو کچھ سیاسی جماعتیں تب تک بن چکی تھیں، صرف ایک حربے‘ جس کے پیچھے پیپلز پارٹی کا خوف تھا‘ نے سب کچھ زمین بوس کر دیا۔ روایت بن گئی کہ بس حلقے میں زور لگائیں اپنے زور پر چہیتے کی استعداد بڑھ جائے گی، تو ٹکٹ دینے والے آپ کے گھر خود آ جائیں گے۔
عجیب بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر سے بھی اراکین ناراض ہو جاتے ہیں۔ ہماری سائنس کے میدان میں تو ایجادات نہیں، لیکن سیاسی لغت میں ہم نے جو اضافہ کیا ہے، شاید ہی دنیا کا کوئی اور ملک ہمارا مقابلہ کر سکے۔ جماعتی اراکین کو اگر دور کہیں سر سبز کھلیان دکھائے جاتے ہیں تو وہ ''فارورڈ بلاک‘‘ بناتے ہیں، ہراول دستہ جو حکومت کو آنکھ دکھاتا ہے اور مقابلے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ بلوچستان میں اگر ہراول دستہ فتح سے سرفراز ہو تا ہے تو ناراضی کی یہ لہر کراچی، لودھراں اور گجرات کے راستے اسلام آباد بھی آ سکتی ہے۔ ابھی تک تو نادیدہ ہاتھوں یا شاید خان صاحب کی پُر کشش شخصیت نے سب زود رنج دھڑوں کو اکٹھا کر کے حکومت کو تین سال تک دوام دیا ہے۔ وہی گھسا پٹا پرانا نسخہ نیا پاکستان بنانے کے لیے آزمایا گیا ہے۔ ادھر سے کسی نے حکومت کو اپنے کئے ہوئے وعدے پورے نہ کرنے کا الزام لگا کر علم بغاوت بلند کرنے کی دھمکی دی، ادھر چند روز میں ایوان صدر میں خصوصی تقریب میں نئے وزراء نے حلف اٹھا لیا۔ کیا منافع بخش ناراضیاں ہیں۔