تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     22-10-2021

کورونا سے بھی خطرناک ہے مہنگائی

بھارت میں کورونا کی وبا کے بعد اب مہنگائی کی وبا سے لوگوں کو نمٹنا پڑ رہا ہے۔ کورونا کم ہوا ہے تو لوگ گھروں کی چاردیواری سے نکل کر باہر جانا چاہتے ہیں لیکن جائیں کیسے‘ پٹرول کے دام 100 روپے لٹر اور ڈیزل کے 90 روپے کو پار کرگئے ہیں۔ کار مالکوں کو سوچنا پڑرہا ہے کہ کیا کریں؟ کاریں بیچ دیں اور بس‘ میٹرو یا آٹو رکشہ سے جایا کریں لیکن ان کے کرائے بھی کود کود کر آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی مار صرف درمیانے طبقے پر ہی نہیں پڑرہی ہے غریب طبقہ بھی پریشان ہے۔ تیل کی قیمت بڑھی تو کھانے پینے کی روزمرہ کی چیزوں کے دام بھی آسمان چھونے لگے ہیں۔ سبزیاں تو پھلوں کے دام بک رہی ہیں اور پھل گاہکوں کی پہنچ سے باہر ہو رہے ہیں۔ دکاندار ہاتھ مل رہے ہیں کہ ان کے پھل اب بہت کم بکتے ہیں اور پڑے پڑے سڑ جاتے ہیں۔ لوگوں نے سبزیاں اور پھل کھانا کم کردیا لیکن دالوں کی قیمتیں بھی دم گھوٹو ہوگئی ہیں۔ عام آدمی کی زندگی پہلے ہی دوبھر تھی لیکن کورونا نے اسے اور دردناک بنا دیا ہے۔ سرکاری نوکروں‘ ایم پیز اور منتریوں کی تنخواہیں چاہے جوں کی توں رہی ہوں لیکن غیر سرکاری ملازموں‘ مزدوروں‘ گھریلو نوکروں کی آمدنی توتقریباً آدھی ہو گئی۔ ان کے مالکوں نے کورونا کے دنوں میں ہاتھ کھڑے کردیے۔ بیچارے درزیوں اور دھوبیوں کی بھی شامت آگئی۔ جب لوگ اپنے گھروں میں گھرے رہے تو انہیں دھوبی سے کپڑے دھلانے اور درزی سے نئے کپڑے سلانے کی ضرورت ہی کہاں رہ گئی؟ کنسٹرکشن انڈسٹری کا دھندہ ٹھپ ہونے کی وجہ سے لاکھوں مزدور اپنے گاؤں میں جاکر پڑے رہے۔ یہی حال ڈرائیوروں کا ہوا۔ بس موج کسی کی رہی تو ڈاکٹروں اور ہسپتال مالکوں کی۔ انہوں نے نوٹوں کی برسات جھیلی اور مالا مال ہوگئے لیکن وہ ڈاکٹر‘ وہ نرسیں اور وہ ملازم دادِ تحسین کے حقدار بنے رہیں گے جنہوں نے اس وبا کے دوران مریضوں کی لگن سے سیوا کی‘ لیکن یہ نہ بھولیں کہ مہنگائی کے اس دور میں لاکھوں ایسے مریض بھی رہے جنہیں ٹھیک سے دوا بھی نصیب نہیں ہوئی۔ ہزاروں کی جان علاج کی کمی کی وجہ سے چلی گئی۔ مرکزی اور ریاستی سرکاروں نے کورونا کو قابو کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے‘ لیکن اگر وہ اس مہنگائی پر قابو نہیں پاسکے تو یہ منافع خور لوگ لے ڈوبیں گے۔ مہنگائی کی مار کورونا کی مار سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔ کورونا کو تولوگوں نے کسی طرح برداشت کرلیا لیکن مہنگائی کا غصہ منافع خوروں پر تو اترے گا ہی جنتا سرکار کو بھی نہیں بخشے گی۔
بھاجپا اور کسان: خون خرابہ
لکھیم پور کھیری میں جو کچھ ہوا وہ دردناک تو ہے ہی شرمناک بھی ہے۔ پرامن مظاہرہ کررہے کسانوں پر کوئی موٹر گاڑیاں چڑھا دے‘ ان کی جان لے لے اور انہیں زخمی کردے ایسی گھناؤنی حرکت تو کوئی دہشت گرد ہی کرے گا لیکن یہ ایک وزیر کے قافلے نے کیا۔ وہ قاتل کار تو وزیر داخلہ کی ہی تھی۔ وزیر داخلہ کاکہنا ہے کہ ان کاروں میں نہ تو وہ خود تھے اور نہ ہی ان کا بیٹا تھا لیکن چشم دیدلوگوں کا کہنا ہے کہ منتری کا بیٹا ہی وہ کار چلا رہا تھا اور لوگوں پر کار چڑھانے کے بعد وہ بھاگ نکلا۔ یہ تو جانچ سے پتہ چلے گا کہ کسانوں پر کاروں سے جان لیوا حملہ کن لوگوں نے کیا تھا یا کن کے اشارے پر کیا گیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کوئی معمولی ڈرائیور اس طرح خوفناک حملہ کیوں کرے گا؟ اس کی ہمت کیسے پڑے گی؟ لیکن دیکھئے قسمت کا کھیل کہ ان کاروں کے دو ڈرائیور تو فوری طور پر مارے گئے اور کسانوں کی بھیڑ نے بھاجپا کے دو دیگر کارکنان کو فوراً موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اسے یوں بھی کہا جا رہا ہے کہ جیسے کو تیسا ہوگیا۔ چار لوگ منتری کے مارے گئے کیونکہ منتری کے لوگوں نے کسانوں کے چار لوگ ماردیے تھے لیکن دونوں فریقوں نے خون خرابے کا جو راستہ چنا‘ یہ دونوں فریقوں کی کمتری کی علامت ہے۔ حیرانی ہے کہ مقامی پولیس یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتی رہی اور کچھ نہ کر سکی۔ ظاہر ہے اس کارروائی سے صرف اتر پردیش میں ہی نہیں سارے ملک میں لوگوں نے گہرا دھچکا محسوس کیا ہے۔ زرعی قوانین کو ڈیڑھ سال تک تاک پر رکھنے کے باوجود حکومت مسئلے کا حل نہیں نکال سکی اور انتقامی کارروائیوں پر اتارو ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسانوں کے اس بڑے احتجاج کو اہمیت دینی چاہئے تھی‘ مگر نہیں مل رہی۔ پھر بھی ان کی ہمت کی داد دینا پڑے گی کہ وہ اتنے لمبے عرصے تک اپنے موقف پر قائم ہیں۔ یہ ان کا جمہوری حق ضرور ہے لیکن راستے روکنے سے عام لوگوں کو مشکلات بھی ہورہی ہیں۔ اس وجہ سے سپریم کورٹ کو اس پر سخت ریمارکس بھی دینا پڑے ہیں۔ ادھر اتر پردیش سرکار کے کردار پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس نے کئی اپوزیشن کے رہنماوں کو بھی لکھیم پور جانے سے روکا گیا اور کچھ کو گرفتار کرلیا گیا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنے مرکزی وزیر اور پارٹی کارکنان کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ انہیں کچھ ماہ بعد ہی ووٹ مانگنے کیلئے جنتا کے سامنے اپنی جھولی پسارنی ہے۔
آمدنی ہو ٹیکس فری اور خرچ ٹیکس سمیت
کالا دھن چھپانے اور ٹیکس چوری کرنے کے کئی طریقے ہیں لیکن جب آپ کے ہاتھوں اربوں کھربوں آجائیں تو آپ کچھ ایسے طریقے اپناتے ہیں کہ سرکار کی پکڑ سے باہر ہو جائیں۔ ان میں آج کل سب سے پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنا سارا پیسہ کچھ ایسے چھوٹے موٹے دیشوں جیسے پاناما‘ برمودا ‘ لکسمبرگ اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ کے بینکوں میں چھپا کر رکھ دیں۔ یہ بینک رازداری بنائے رکھتے ہیں اور بہت کم فیس لیتے ہیں۔ 2016ء میں جب پاناما پیپرز نے پول کھولا تھا تو دنیا میں اس سے کافی تہلکہ مچا تھا۔ کچھ بھارتیوں کے نام بھی اس میں تھے۔ بھارت سرکار نے انہی دنوں اس طرح کے کالے دھن کو پکڑنے اور سزا دینے کا سخت قانون بھی بنایا تھا لیکن اب پنڈورا پیپرز نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ کئی ممالک کے صدر‘ وزیر اعظم اور بادشاہوں کے نام بھی اجاگر ہورہے ہیں۔ تحقیقی صحافیوں کے ایک گروپ نے 14 کمپنیوں کے تقریباً سوا کروڑ دستاویزوں میں سے کھوج بین کرکے 2900 کھاتوں کو پکڑا ہے جن میں 130 بلین ڈالر جمع ہیں۔ ان میں 300 بھارتی اور 700 پاکستانی کھاتہ داروں کے نام بھی ہیں۔ ان لوگوں میں سے زیادہ تر صنعتکار اور بیوپاری ہیں لیکن سیاستدانوں‘ جرائم پیشہ عناصر اور سمگلروں کے ناموں کی بھی بھرمار ہے۔ صنعتکار اور تاجر تو اکثر اپنی محنت کا پیسہ وہاں چھپاتے ہیں صرف ٹیکس بچانے کیلئے لیکن سیاستدانوں‘ افسروں اور سمگلروں کا پیسہ مکمل طور پر غیر قانونی کاموں سے پیدا ہوتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ جہاں سیاستدان اور افسر پھنستے ہیں وہاں جھٹ سے پردہ ڈال دیا جاتا ہے کیونکہ ہر پارٹی کے نیتا یہی دھندہ کرتے ہیں۔ سرکار کسی بھی پارٹی کی ہو وہ سیاستدانوں پر ہاتھ کیسے ڈال سکتی ہے؟ اسی لئے بھارت کے 300 کھاتہ داروں کے نام ابھی تک بتانے میں سرکار ہچکچا رہی ہے۔ سرکار چاہے تو اس کا رویہ دو ٹوک ہو سکتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنا پیسہ غیر ملکی بینکوں میں جمع کرتے وقت قانون پر عمل کیا ہے انہیں کس بات کا ڈر ہے؟ اصلی سوال یہ ہے کہ سرکار انکم ٹیکس قوانین ایسے کیوں نہیں بناتی کہ لوگ کم سے کم ٹیکس چوری کریں۔ میں تو سوچتا ہوں کہ سرکار کو آمدنی کے بجائے خرچ پر ٹیکس لگانا چاہئے۔ اگر ہر آدمی کی آمدنی ٹیکس فری ہو جائے تو جو بھی پیسہ بچے گا وہ کسی اچھے کام میں لگے گا۔ اگر خرچ کو قابلِ ٹیکس بنایا جائے تو ملک میں زبردست بچت کی مہم چل پڑے گی۔ ملک کی ترقی کیلئے پونجی دستیاب ہوسکے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved