تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     23-10-2021

ایک نئے معاشی ماڈل کی ضرورت

معیشت کا گھوڑا بے لگام ہو چکا۔ کوئی ہے جو اس کو قابو میں لا سکے؟
معیشت ایک سائنس ہے۔ تبصرے سے پہلے اس کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مجھ جیسا آدمی اس کی پیچیدگیاں نہیں سمجھتا۔ معیشت کو دیکھنے کا ایک زاویہ مگر سیاست بھی ہے۔ میدانِ سیاست میں کیے گئے بہت سے فیصلے‘ معیشت پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے اب اکانومی کے بجائے پولیٹیکل اکانومی کی بات ہوتی ہے۔ میں سیاسیات کا ایک طالب علم ہونے کے ناتے‘ اسی زاویے سے معاشی عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سیاست اور معیشت کا باہمی رشتہ کیا ہے؟ یہ ایک پرانی بحث ہے۔ اس کا تعلق نظامِ ریاست کے ساتھ سماج کی اخلاقی قدروں سے بھی ہے۔ معیشت کو فرد کے پہلو سے دیکھا جائے یا ریاست کے؟ یہ سوال اس تعلق کی تفہیم میں اہم رہاہے۔ فرد کی نمائندگی‘ بعد کے ادوار میں سرمایہ دارانہ نظام نے کی اور ریاست کی اشتراکیت نے۔ اوپن مارکیٹ اکانومی کا مطلب یہی ہے کہ معیشت کو مارکیٹ پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کے تابع کر دیا جا ئے اورطلب و رسد کے تعلق کو فطری مانتے ہوئے‘ معاشی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ ریاست صرف اس بات کو یقینی بنائے کہ اس عمل کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
دوسری طرف یہ کہا گیا کہ اگر معاشی عمل کو مارکیٹ کی قوتوں کے حوالے کر دیا گیا تو سرمایہ اپنی طاقت سے مارکیٹ کے اصول طے کرے گا اور یوں سرمایہ دار کی تجوری بھرتی اور غریب کی جیب خالی ہوتی رہے گی۔ اس لیے لازم ہے کہ سرمایے کو لگام ڈالنے کے لیے ریاست معاشی عمل کو اپنی نگرانی میں آگے بڑھائے۔ اس سے لازماً فرد کو بعض پابندیاں گوارا کرنا پڑتی ہیں جو لبرل اکانومی کے اصولوں سے متصادم ہے۔ ان دو نقطہ ہائے نظر میں کشمکش جاری ہے۔
عالمی سطح پر جو قوتیں اپنا تسلط باقی رکھنا چاہتی ہیں‘ بیسویں صدی میں‘ ان کی حکمتِ عملی میں ایک واضح تبدیلی آئی جب سلطنتوں کا عہد تمام ہوا اور بزور قبضے کے خلاف قوانین بنا ئے گئے۔ ان قوتوں نے عالمی سطح پر معیشت کو مستحکم بنانے اور انہیں اپنے قائم شدہ عالمی سیاسی نظام سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ادارے بنائے۔ ان اداروں نے کمزور معیشتوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے پیکیجز متعارف کرائے۔ یہ رضاکارانہ ہیں مگر اب کمزور معیشتوں کی ناگزیر ضرورت بن چکے ہیں۔ ان اداروں کو امیر ممالک فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ جو فنڈز دیتے ہیں‘ وہ ظاہر ہے کہ ان کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
عالمی سطح پر معیشت اورسیاست کیسے جڑے ہوئے ہیں‘ اس بات کو سمجھنے کے لیے 'فیٹف‘ ایک واضح مثال ہے۔ اس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک کے لیے لازم ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اس حکمتِ عملی سے خود کو ہم آہنگ بنائے جو عالمی قوتوں نے وضع کی ہے۔ جو ملک یہ نہیں کرے گا‘ وہ معاشی پابندیوں کے لیے تیار رہے۔ اسی طرح معاشی تعاون کو اب ایسی شرائط کے ساتھ بھی مشروط کیا جا رہا ہے جو تہذیبی ہیں۔ جیسے سزائے موت کا خاتمہ۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں پاکستان کی معیشت کو روبعمل ہونا ہے۔ حکومت نے اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا۔ چھ بلین ڈالر کے عوض پاکستان کو بعض شرائط تسلیم کرنا پڑیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تعین سٹیٹ بینک نہیں کرے گا‘ مارکیٹ کرے گی۔ یہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے اسی اصول کے مطابق ہے جس کے تحت معاشی سرگرمی پر ریاست کا کنٹرول کم سے کم ہو۔ اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ روپے کی قدر مستحکم ہو تو لازم ہے کہ معاشی سرگرمی کارخ روپے کی طرف ہو یعنی درآمدات کم ہوں اور برآمدات زیادہ۔ دوسرے الفاظ میں ہم روپے میں سرمایہ کاری کریں اور ڈالر میں کمائیں۔ جب درآمدات بڑھ جاتی ہیں تو یہ عمل معکوس ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم روپے میں کماتے ہیں اور ڈالر میں خریدتے ہیں۔ اس وقت یہی ہو رہا ہے۔
حکومت کو اب دو مسائل کا سامنا ہے۔ ایک تو یہ کہ کرپشن کے خلاف مہم نے سرمایے کو اتنا خوف زدہ کر دیا کہ وہ ملک سے باہر جانے لگایا وہ تجوریوں میں بند ہوگیا۔ اس سے سرمایے کی وہ صلاحیت ختم ہو گئی جس کے تحت وہ مزید سرمایہ پیدا کرتا تھا۔ حکومت نے جب تعمیرات میں پالیسی بدلی اور سرمایے کو خوف سے آزاد کیا تو اس شعبے میں سرمایے کی گردش صاف دکھائی دینے لگی۔ اسی طرح اب نیب کے قوانین بھی تبدیل کرنا پڑے تاکہ سرمایے کا خوف کم ہو۔ یہ کام لیکن تین سال بعد ہوا جب معیشت کے پاؤں تلے سے زمین سرکنا شروع ہو گئی ہے۔دوسری طرف وہ عالمی سیاسی قوتیں پاکستان سے خوش نہیں ہیں جو آئی ایم ایف اور فیٹف جیسے اداروں پر اپنا اثر رکھتی ہیں۔ فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے سے ایک بار پھر انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کوئی ایسی رعایت دینے پر آمادہ نہیں جس کے تحت حکومت عوام کو کوئی ریلیف دے سکے۔ شوکت ترین صاحب کو بغیر کسی معاہدے کے امریکہ سے لوٹنا پڑا۔ اس سے واضح ہے کہ سیاست کس طرح معاشی سرگرمی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہاں لوگ امریکہ سے آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں‘لیکن اس کو نظر انداز کرتے ہیں کہ اس کی ایک قیمت ہے جو ہمیں دینی ہے۔کیا ہمارے لیے یہ ممکن ہے؟یہ سوال سیاسی ہے مگر معیشت سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔
اسی طرح یہ معاملہ بھی سرا سر سیاسی ہے کہ کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کر نا ہے یا معاشی استحکام کو؟دونوں کے اپنے اپنے نتائج ہیں۔کرپشن کو سب سے بڑا مسئلہ بنانے کا نتیجہ ہم نے تین سال میں دیکھ لیا۔ اسی نے حکومت کونیب کے قوانین میں تبدیلی پر مجبور کیا۔یہ فیصلہ حکومت کوکرنا ہے کہ کون سا سیاسی فیصلہ معیشت کو مستحکم کرسکتا ہے۔کرپشن کے خلاف جنگ یا معاشی سرگرمی میں اضافہ؟اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ مہنگائی کا علاج قیمتیں کم کر نے سے نہیں ہوگا کیونکہ جب ڈالر اور روپے کا تعلق آپ کے ہاتھ میں نہیں تو آپ یہ نہیں کر سکیں گے۔اس کا علاج آمدن میں اضافہ ہے۔یہ اضافہ معاشی سرگرمی میں تیزی سے مشروط ہے۔سوال یہ ہے کہ حکومت کے پاس اس کا حل کیا ہے؟
اس سوال کا جواب معیشت کا کوئی ماہر ہی دے سکتا ہے اور وہ میں نہیں ہوں۔میں نے اس معاشی مسئلے کو سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور پر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ سیاسیات ا ورمعاشیات دومختلف علوم ہیں مگر پولیٹیکل اکانومی ایک ایسا مضمون ہے جودونوں کو یکجا کرتا ہے۔میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں معیشت کا ایک پہلو مذہبی بھی ہے۔یہ معاشرے کی اخلاقی قوت کو معاشی سرگرمی کے لیے متحرک کرنا ہے۔ 'الخدمت‘ اور 'اخوت‘ جیسے معاشی اداروں اور منصوبوں کی کامیابی کی اساس معاشرے کی یہی اخلاقی قوت ہے۔آج پاکستان کوایک نئے معاشی ماڈل (Religio-Political Economic Model) کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی فیصلہ ساز‘ معیشت‘ سیاست اور مذہب کے ماہرین کو یکجا کریں اور ان تینوں شعبوں کو باہم مربوط کرتے ہوئے‘ملک کے لیے کوئی معاشی نظام تجویز کریں۔
میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو گا لیکن کہنے میں کیا حرج ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved