تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     23-10-2021

کیا ہی اچھا ہو کہ…

سرکاری طور پر عشرہ رحمت للعالمینﷺ انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا‘ جو ایک خوش آئند اقدام اور ایک قابلِ قدر روایت ہے۔ عوام بھی اپنے محبوب حکمرانوں کی تقلید میں پیچھے نہیں رہے۔ ملک بھر میں جشن کا سماں تھا۔ جگہ جگہ برقی قمقمے روشن کیے گئے‘ رنگ برنگی آرائشی بتیاں جلائی گئیں۔ انوا ع و اقسام کے پکوان کی دعوت ہر خاص و عام کے لیے یکساں تھی۔ یہ سب کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ ایسا ہونا چاہیے اور ہر سال ہونا چاہیے، لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنی زندگیاں بھی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچیں، اور جن سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں‘ اپنی زندگیاں ان کے اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالیں‘ لیکن ایسا نظر نہیں آتا۔
حکمران بھی رول ماڈل بننے کے بجائے اکثر سیاسی ماڈلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ کردار سازی کی توقعات جن سے وابستہ تھیں وہ امیج سازی کرتے نہیں تھکتے۔ عوام نے بھی حکمرانوں کو اپنا آئیڈیل اور ماڈل بنا رکھا ہے۔ ان کی زندگیاں بھی اسی بے ڈھنگی چال پر جوں کی توں چل رہی ہیں۔ مردار مرغیوں کی تجارت سے لے کر جان بچانے والی ادویات اور دودھ جیسے نور میں ملاوٹ بدستور جاری ہے۔ ناپ تول میں ڈنڈی مارنے سے لے کر دل آزاری اور اجارہ داری کے سارے مناظر بھی جوں کے توں ہیں۔ عزیز و اقارب سے لے کر ہمسایوں تک کے حقوق غصب کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔ ناجائز قبضے بھی روایتی دیدہ دلیری سے جاری ہیں۔
اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان کوئی مقابلہ جاری ہے کہ کون کتنا لمبا ہاتھ مارتا ہے۔ غفلتوں کے مارے‘ جہالتوں میں گوڈے گوڈے غرق‘ یہ سبھی کسے دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں؟ خود کو یا اُس کو جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے‘ اور نیتوں اور دلوں کا حال بھی اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ تعجب ہے کہ ایک بابرکت دن منانے کے چند گھنٹے بعد ہی ہم اپنے معمولات اور کام دھندوں میں اس طرح اُلجھے دکھائی دیتے ہیں کہ یاد تک نہیں رہتا کہ وہ چند گھنٹے پہلے پروردگار سے کیسے کیسے وعدے کر کے معافیاں مانگی تھیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم میں سے اکثر ریاست کے معاملات سے لے کر حقوق العباد تک صفر ہی پائے گئے ہیں۔
ہم لوگ اوزان اور پیمائش میں ڈنڈی مارنے سے لے کر حقوق العباد تک پر چھری چلانے سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ کس ڈھٹائی سے وہ سارے کام کرتے نظر آتے ہیں جن کی معافیاں مانگتے نہ تھکتے تھے۔ ایک فلاحی ریاست کا استعارہ لیے اقتدار میں آنے والے عوامی فلاح کا کوئی کام نہ کر سکے۔ نہ تو آئین و قانون کی حکمرانی قائم کر سکے‘ نہ ہی جمہوریت سے فیض یاب ہو سکے۔ نہ سماجی انصاف فراہم کر سکے‘ نہ ہی اخلاقی قدریں بچا سکے۔ طرزِ حکمرانی سے طرزِ زندگانی تک سبھی کچھ تضادات‘ بے اعتدالیوں اور بد اعمالیوں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ نہ کہیں گورننس کا کوئی نشان ہے اور نہ ہی کہیں میرٹ کا امکان نظر آتا ہے۔ یہ سبھی کچھ انتہائی دیدہ دلیری‘ ڈھٹائی سے کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔
کیا حکمران کیا عوام‘ ارادوں سے لے کر نیت تک‘ بلند بانگ دعووں سے لے کر عملی اقدامات تک‘ سبھی الفاظ کا گورکھ دھندا دکھائی دیتے ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کی کوئی پروا نہیں تو عوام کو شکم سیری کے سوا کوئی کام نہیں۔ مفاد پرستی سے لے کر شخصیت پرستی تک کیسا کیسا وارداتیا اپنی دھن میں مگن دکھائی دیتا ہے۔ کبھی بنامِ وطن تو کبھی بنامِ دین‘ کہیں جھانسے تو کہیں دھونس‘ حکمرانوں نے ملک و قوم کو کب اور کہاں نہیں لوٹا۔ بوئے سلطانی کے ماروں کی طرزِ حکمرانی نے عوام کو اندھیروں اور مایوسیوں کے سوا دیا ہی کیا ہے۔ بد اعتمادی اور بے یقینی کے کیسے کیسے اندھے گڑھوں میں عوام کو جا دھکیلا ہے کہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ گنوانے کے باوجود ابھی تک انہی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور کہیں نہ کسی روشنی کا سراغ ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ ہماری منزل کیا تھی اور ہم کدھر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے‘ جس میں کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ کون کون سی اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں اور کون کون سی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔ نہیں یقین آتا تو بازار سے کوئی ایک چیز اس مکمل یقین کے ساتھ خرید کے دکھا دیجیے کہ وہ خالص اور ٹھیک معیار کی ہے۔ ماضی میں نجات دہندہ بن کر آنے والوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگنا پڑیں‘ جنہیں بے پناہ چاہا‘ انہی سے پناہ مانگتے رہے۔
عوام کی اخلاقی حالت کا عالم یہ ہے کہ کہیں تو یہ حکمرانوں کے سہولت کار ہیں اور کہیں ان کے پیروکار۔ ریڑھی والے سے لے کر آڑھتی تک‘ دکان دار سے لے کر کارخانہ دار تک‘ سبھی مال بناؤ اور مال بچاؤ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ کوئی آٹے سے مال بنا کر گھاٹا عوام کے کھاتے میں ڈال رہا ہے تو کوئی چینی سے اپنی دنیا سنوار کر عوام کی زندگیوں میں مہنگائی کا زہر گھول رہا ہے۔ کوئی انرجی سے بنائے مال پر خود کو ''انرجیٹک‘‘ بنانے میں مگن ہے‘ کوئی اربوں کے ریفنڈ لے کر چند کروڑ کسی ریلیف فنڈ میں دے کر حاتم طائی بنا پھرتا ہے۔ کوئی چیرٹی کر کے اترائے پھرتا ہے تو کوئی سرکاری وسائل پر کنبہ پروری کر کے نازاں ہے۔ یہی مناظر ہمیں نچلی سطح پر بھی نظر آتے ہیں۔ نہ تو ایک کلوگرام 'ایک کلو گرام‘ کا ہوتا ہے اور نہ ہی ایک لٹر 'ایک لٹر‘ کا ہوتا ہے۔ ہر طرف لوٹ مار ہے اور ناجائز منافع خوری۔ ہر بندہ راتوں رات امیر بننے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتا ہے اور اس کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ چند ٹکوں‘ روپوں کی خاطر اخلاقیات کو تیاگ دیا جاتا ہے۔ اخلاقی گراوٹ اور ہوسِ زر کے کیسے کیسے مناظر صبح و شام‘ جابجا ہر سو نظر آتے ہیں۔ ہم دوسروں کو بدلنے کے لیے بے چین رہتے ہیں‘ لیکن اپنے گریبان میں جھانکنا بالکل پسند نہیں کرتے۔
ہماری زندگیوں میں اگر کہیں کوئی کمی ہے تو وہ صرف اور صرف اخلاص و عمل کی ہے۔ بلند بانگ دعوے ہیں اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں۔ان دونوں کے بغیر ہر اقدام فیض کے بجائے غضب کا باعث بھی بن جایا کرتا ہے۔ تاہم قول و فعل سے لے کر اعمال تک سبھی میں مطابقت اور توازن کے بغیر‘ حکمران ہوں یا عوام‘ سبھی کی آنیاں جانیاں اور حالات دیکھ کر افتخار عارف یہ چند اشعاربے اختیار یاد آتے ہیں۔
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے
نئی مٹی کو نئے چاک سے خوف آتا ہے
کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے
ان دنوں عالم افلاک سے خوف آتا ہے
رحمت سید لولاکؐ پہ کامل ایمان
امت سید لولاکؐ سے خوف آتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved