آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کو بجا طور پر ''محسنِ پاکستان‘‘ کہا جا رہا ہے اور اس اعزاز نوازی میں مسابقت کی فضا قائم ہے، لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی میں اُن پر جو بیتی‘ اس کی ترجمانی احمد ندیم قاسمی نے اس شعر میں کی ہے:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن!
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے بڑے اعزاز کے ساتھ
ڈاکٹر صاحب مغرب کی عشرتیں چھوڑ کر وطن کا قرض چکانے کے لیے پاکستان آئے اور ایٹم بم بنانے کے خواب کی تعبیر قوم کو کامیابی کے ساتھ عطا کی، اُسی کا تصدّق ہے کہ آج پاکستان اپنے آپ کو بھارت کی یلغار سے محفوظ و مامون تصور کرتا ہے، ورنہ اہلِ نظر کو یاد ہے کہ اس وطن پر 16 دسمبر1971ء کو ایک قیامت بھی بیتی ہے، مگر اب ان شاء اللہ تعالیٰ کبھی ایسا نہیں ہو گا۔ اس کا صلہ قوم نے ڈاکٹر صاحب کو یہ عطا کیا: جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلی وژن پر آکر پوری قوم اور دنیا کے سامنے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا، ان سے لکھا ہوا بیان پڑھوایا گیا۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی منظر کی تصویر کشی اس شعر میں کی ہے:
نوائے صُبح گاہی نے، جگر خُوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!
اسی مفہوم میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اپنا شعر بھی ہے:
گزر تو خیر، گئی ہے تری حیات قدیرؔ
ستم ظریف، مگر کوفیوں میں گزری ہے
پھر جنرل پرویز مشرف نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا: ''ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پیسوں کی لالچ میں ایٹمی راز فروخت کیے‘‘، ذرا غور فرمائیے! اُس وقت پاکستان کے ایٹم بم کے خالق کے دل پر کیا گزری ہو گی۔ بھارت نے اپنے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالکلام کو ملک کا صدر بناکر اپنے محسن کی عزت افزائی اور قدر دانی کی، اس کے برعکس پاکستان نے اپنے مُحسن کو عالمی برادری کے سامنے عالمی مجرم کے طور پر پیش کیا: ''ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بہ کجُا‘‘۔ پھر ڈاکٹر صاحب کو نظر بند کر دیا گیا، ان کی نقل وحرکت پر پابندی لگا دی گئی، وہ اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہیں سکتے تھے، وہ اس پر ہمیشہ احتجاج کرتے رہے، اپنی آزادی کے لیے انہوں نے عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، لیکن کسی ''دارالعدل‘‘ سے انہیں عدل کی خیرات نہ مل سکی۔ آج وہی ناشکری قوم انہیں خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہے، لیکن میرے علم کے مطابق ریکارڈ پر ایک بھی شاہد موجود نہیں ہے کہ مراکزِ اقتدار اورسیاست دانوں میں سے کسی نے ان کے حق میں آواز بلند کی ہو، حتیٰ کہ ایم کیو ایم‘ جو کراچی اور مہاجریت کے نام پر برسوں حکومت سے لطف اندوز ہوتی رہی، جب ڈاکٹر صاحب مرحوم کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا تھا، اُس وقت وہ بھی شریکِ اقتدار تھی، مگر اس نے ڈاکٹر صاحب کے حق میں کوئی آواز بلند نہ کی، جبکہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق بنیادی طور پر بھوپال اور پھرکراچی سے تھا، ڈاکٹر صاحب نے صرف صوبۂ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی خبر گیری کا شکریہ ادا کیا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب آخری عمر میں وقیع کالم لکھتے رہے، اُن کا ادبی ذوق بھی تھا، تاریخ سے بھی شغف تھا، تصوّف اور مذہب سے بھی لگائو تھا اور یہ اُن کے کالموں سے عیاں تھا اور وہ اپنی شکایت وقتاً فوقتاً قوم کے سامنے ریکارڈ پر لاتے رہے، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ البتہ علامہ خادم حسین رضوی مرحوم نے ایک خطاب میں کہا: ''ڈاکٹر عبدالقدیرکا دل بڑا دکھی ہے، انہوں نے پاکستانیوں کے بارے میں بڑے سخت جملے کہے ہوئے ہیں کہ ان کے خلاف سازشیں کر کے انہیں منصب سے فارغ کیاگیا، حالانکہ ابھی ان کی علمی، عقلی، فکری اور جسمانی توانائیاں عروج پر تھیں، آپ کو تنخواہ بھی کبھی شایانِ شان نہیں ملی، انہوں نے مجھے خود بتایا: ''مجھے چار ہزار پنشن ملتی ہے‘‘، لبیک کی حکومت آئی تو صدرِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہوگا‘‘۔
ایک خطاب میں انہوں نے کہا: ''میں نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات میں ان کے ہاتھ چومے، وہ مجھے کہنے لگے: یار بڑے بڑے لیڈر آئے، مذہبی بھی، سیاسی بھی، سب نے مجھ سے ایک ہاتھ سے سلام کیا، آپ نے سفید داڑھی والے ہوتے ہوئے میرے ہاتھوں کو بوسا کیسے دیا، میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! ''گل وچ ہور اے‘‘، پوچھا کیا بات ہے؟، میں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے تیر بنایا، وہ بھی جنت میں جائے گا، جس نے تیر پکڑایا، وہ بھی جنت میں جائے گا، جس نے تیر چلایا، وہ بھی جنت میں جائے گا‘‘، میں نے کہا: ''شیرِ پاکستان! ایٹم کو لے کر چلنے والا تیر بنانے والے جنتی آپ ہو، یہ سن کر ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے: یہ بات تو مجھے کسی نے نہیں بتائی، میں نے کہا: یہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے، اس لیے میں نے آپ کے ہاتھوں کو بوسا دیا، پھر انہوں نے میرے ہاتھ پکڑے اور ہاتھ چھوڑ نہیں رہے تھے، میں نے کہا: میں نے دل سے آپ کے ہاتھ چومے ہیں، آپ نے رسول اللہﷺ کے فرمان پر عمل کیا ہے‘‘۔ پھر علامہ نے ان کے سامنے قرآن کی اس آیت کا ترجمہ پڑھا: ''اور (مسلمانو!) جتنا تمہارے بس میں ہے، ان (دشمنوں کے مقابل) اپنی طاقت تیار رکھو اور گھوڑے حالتِ جنگ میں رکھو تاکہ اس کے ذریعے تمہارے اور اللہ کے دشمنوں کے دلوں پر تمہاری ہیبت چھائی رہے (الانفال: 60)‘‘۔
''قوت‘‘ کی تفسیر کی بابت رسول اللہﷺ نے تین بار فرمایا: ''خبردار رہو! طاقت دشمن کے نشانے پر (مہلک ہتھیار) پھینکنے کی صلاحیت کا نام ہے‘‘ (مسلم: 1917)۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العادیات میں قسم کے ساتھ فرمایا: ''اور (میدانِ جہاد میں) ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم، جن کے سموں کی رگڑ سے چنگاریاں اٹھتی ہیں، جو علی الصبح (دشمنوں پر) حملہ آور ہوتے ہیں، جن کی دوڑ سے گَرد اٹھتی ہے اوروہ دشمن کی صفوں میں جا گھستے ہیں‘‘ (العادیات:1 تا 5)۔ علامہ صاحب کہا کرتے تھے: ''آج کے حتف، غوری، ابدالی، ابابیل، شاہین اور طرح طرح کے میزائلوں کو رسول اللہﷺ نے اُس دور کے گھوڑوں سے تعبیر فرمایا ہے‘‘۔
ایک موقع پر انہوں نے کہا: ''اگر قوم میں کوئی دم خم ہوتا تو اتنا بڑا محسنِ ملّت، محسنِ پاکستان جس نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر دفاع کی صلاحیت عطا کی اور قوم کے لیے عظیم کارنامہ اس لیے انجام دیا کہ اسے غلاموں کی طرح نظر بند کر کے رکھا جائے؟‘‘۔
ایک بار کہا: ڈاکٹر صاحب کے دو خط اِس وقت بھی میری جیب میں ہیں، اس میں انہوں نے اپنا درد بیان کیا ہے: ''میں نے ملک کے لیے کیا کِیا اور قوم نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: ''میں بھوپالی ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے کہ نہ ہمارے ہاں کبھی کوئی غدار پیدا ہوا ہے نہ کوئی قادیانی‘‘۔ ڈاکٹر صاحب اس پر ناز کرتے تھے، علامہ خادم حسین کہتے ہیں: ''میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا: آپ نے شہاب الدین محمد غوری کے نام پر میزائل کیوں بنایا، انہوں نے کہا: میرے اجداد شہاب الدین محمد غوری کی فوج میں بطورِ سپاہی لڑے اور وہ برصغیر میں اسلامی سلطنت کا بانی ہے، مجھے فخر ہے کہ اس کے لشکر میں میرے اکابر لڑتے رہے، میں شہاب الدین محمد غوری کی اولاد میں سے ہوں‘‘۔
فٹ پاتھ پر بیٹھ کر انہوں نے ممتاز صحافی سہیل وڑائچ کو جو انٹرویو دیا ہے، وہ اہلِ نظر کو رُلا دینے والا ہے۔ سہیل وڑائچ نے سوال کیا: ''کیا کبھی کسی کام پر پچھتاوا ہوا ہے‘‘، ڈاکٹر صاحب نے کہا: ''ہاں!‘‘ پھر انہوں نے حکومتی برتائو اور اس پر قوم کی بے حسی کی شکایت کی۔
ڈاکٹر صاحب نے علامہ صاحب کے متعلق اپنے کالم میں لکھا: ''سب سے بڑے مجاہد ختم نبوت، عاشق رسول، اللہ تعالیٰ کے سپاہی، علامہ حافظ خادم حسین رضوی کی وفات کا ذکر کرتا ہوں، آنکھیں آنسوئوں سے نم ہیں، ایسے مجاہد اسلام، عاشق رسول بہت کم پیدا ہوتے ہیں، آپ انسان کے بھیس میں فرشتہ تھے، ان کی نماز جنازہ میں جتنے بڑے جم غفیر نے شرکت کی، اس کی مثال ملک میں نہیں ملتی، جب ایک دوست نے اس کا ذکر کیا تو میں نے دل میں کہا: اللہ پاک! گنہگار ہوں مگر تیرا بندہ ہوں، میں نے 20 کروڑ مسلمانوں کو حفاظت میسر کی ہے، مجھے ایسی موت اور ایسا جنازہ عطا کرنا، میں خادم حسین رضوی صاحب کو ذاتی طور پر جانتا تھا، یوٹیوب پرمیرے حق میں ان کے بیانات اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ کراچی میں میری بہن کے گھر کے قریب میرے ایک مخیّر دوست حاجی رفیق پردیسی رہتے ہیں، خادم حسین صاحب وہاں تشریف لائے تو انہوں نے اُس مکان پر غیر معمولی سکیورٹی دیکھی، پوچھنے پر حاجی صاحب نے بتایا: ڈاکٹر عبدالقدیر خان آئے ہوئے ہیں اور اپنی بہن کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں، علامہ خادم حسین نے ملنے کی خواہش کی، حاجی صاحب ان کو لے کر آئے، وہ وِہیل چیئر پر تھے، چہرہ پر رعب اور عشقِ رسولﷺ نمایاں تھا، اُنہوں نے پہلے میرے گھٹنے کو ہاتھ لگائے، پھر مصافحہ کیا، دونوں ہاتھ پکڑ کر چومے، آنکھوں سے لگائے اور کہا: آپ صرف محسن پاکستان ہی نہیں، بلکہ محسنِ اُمت بھی ہیں اور قائداعظم کے بعد کوئی قیامت تک آپ کا مقابلہ نہ کر سکے گا، وہ بہت دیر ٹھہرے، میری چھوٹی مرحومہ بہن نے بھوپالی روایت کے مطابق خاطر مدارت کی، میں یہ ملاقات زندگی بھر نہیں بھول سکتا‘‘۔
اب اعلان ہوا ہے: '' ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قبر پر گنبد بنایا جائے گا‘‘، بہت بڑا گنبد تو قائد اعظم کی قبر پر بھی بنا ہوا ہے، لیکن ان کی فکر و نظر کا پیکر پاکستان سلامت نہ رہا، (خاکم بدہن) خدشہ ہے: کہیں ڈاکٹر صاحب کا بنایا ہوا بم بھی خطرے سے دوچار نہ ہوجائے اور صرف گنبد ہی رہ جائے۔