تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-10-2021

مقبوضہ کشمیر، سرجیکل سٹرائیک اور مہنگائی

گزشتہ دو ہفتوں سے مقبوضہ کشمیر کے حالات کافی کشیدہ ہیں، سکیورٹی کی آڑ میں جگہ جگہ ناکے لوگوں کو بلاوجہ اذیتیں دینے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ گزشتہ چند روز کے دوران تیس سے زائد کشمیریوں کو صرف پلوامہ میں ماورائے عدالت شہید کیا جا چکا ہے جبکہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی مزید 25 کمپنیاں بھیجنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ نام نہاد تلاشی آپریشن کے دوران گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے، نوجوانوں کو گرفتار کر کے جعلی مقابلوں میں شہید کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان بھی قابض افواج کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارتی فورسز نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی کارکن اور بین الاقوامی فورم برائے انصاف ہیومن رائٹس جموں و کشمیر کے چیئرمین محمد احسن اونتو کو ضلع بارہمولہ میں تشدد کر کے شدید زخمی کر دیا۔ بھارتی فوج کے بڑھتے ظلم و ستم کے باعث کشمیریوں کا غصہ بھی حدیں پار کرتا نظر آ رہا ہے اور بھارتی فوج پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جنہیاں میرے تن تے لگیاں‘ تیرے اک وی لگے تاں تُو جانیں۔ بھارتی فوج کے کرنل سمیت سات بھارتی فوجیوں کو جیسے ہی مجاہدین کشمیر نے جہنم واصل کیا تو بھارت کے وزیر دفاع یہ بیانات داغنا شروع ہو گئے کہ پاکستان کو اس حرکت کا مزا چکھانے کیلئے بھارت کسی بھی وقت‘ کسی بھی جگہ سرجیکل سٹرائیک کر سکتا ہے۔ ایک کرنل اور سات فوجیوں کی ہلاکت کا بھارت کو اس قدر دکھ اور غصہ ہے کہ سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دینے لگ پڑا جبکہ اسے ابھی تک ہمارے صبر اور عالمی امن کیلئے ہماری قربانیوں کا اندازہ ہی نہیں۔ ہمارے دس ہزار کے قریب جوان اور افسر بھارتی ایجنٹوں کی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اپنے ایک کرنل اور سات فوجیوں کی ہلاکت پر بھارتی وزیر دفاع نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ وہ پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کریں گے۔ غالباً اسی تناظر میں آرمی چیف نے گزشتہ روز بہاولپور کا دورہ کیا اور جنگی مشقوں کا معائنہ کیا۔ فوجی دستوں کے ساتھ گفتگو میں آرمی چیف نے دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کیلئے حقیقت پسندی پر مبنی تربیت پر زور دیا اور کہا ''پاک فوج ملکی سالمیت اور خودمختاری کیلئے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار ہے‘‘۔ اللہ کے فضل سے ہم پہلے سے بھی زیادہ تیار ہیں‘ بھارت ہمت تو کرے۔
دوسری طرف اندرونِ ملک اپوزیشن نے مہنگائی کے نام پر عوام کو سڑکوں پر لانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں، مسلم لیگ نون کی جانب سے پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔ اندرونِ ملک نون لیگ کے لیڈروں اور بیرونِ ملک بیٹھے قائدِ محترم کی اشتعال انگیزی میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم ان سب کو خبر دے رہے ہیں کہ مہنگائی کا مدعا ضرور اٹھائیں مگر مہنگائی کا نام لے کر ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کرنے یا مہنگائی کے عفریت سے بلبلاتے عوام کا غصہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے کیش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ مت سمجھئے گا کہ چند غیر ملکی عہدیداروں سے ملاقاتوں یا پھر بے تحاشا فنڈز کی برسات کے سبب آپ سب کچھ تہ و بالا کر دیں گے۔
پاکستان کی باشعور عوام مہنگی روٹی ملنے پرغصے سے بپھرے ہوئے ضرور ہیں اور وہ اس وقت ٹی وی کیمروں کے سامنے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس بھی نکال رہے ہیں لیکن پاکستانی عوام کو عالمی مارکیٹ یا حکومتی کمزوریوں سے ہونے والی مہنگائی کے سبب پہنچنے والے دکھوں اور تکالیف کی آڑ لینے والے اس مہنگائی کی لہر کو جب سیاسی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہوئے خوش کن نعرے لگائیں گے تو سب سے پہلے ان سے پوچھا جائے گا کہ حضور آج پی ٹی آئی حکومت کی مہنگائی نے ہمیں رُلا دیا ہے، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حکومت نااہل ہے‘ لیکن یہ بھی تو بتائیے کہ پرویز مشرف کی حکومت میں گندم جو سات سو روپے فی من تھی‘ آپ کی لائق اور تجربہ کار حکومت میں بارہ سو روپے من تک کس نے پہنچائی؟ چاول کو 1100 روپے تک کس نے پہنچایا؟ بجلی جو پانچ روپے فی یونٹ تھی‘ آپ جیسے سمجھ داروں اور جہاندیدہ افراد نے بارہ روپے فی یونٹ تک کیوں پہنچا دی؟ غریب کی خوراک دال چنا‘ جو مشرف دور میں32 روپے فی کلو تھی، کس نے یکدم110 روپے تک پہنچا دی؟ آٹا جس کی قیمت مشرف حکومت نے بائیس روپے فی کلو مقرر کی تھی، آپ جیسے تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے نے کس کے کہنے پر 42 روپے کر دیا؟ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں وہ چینی جو ہم 25 روپے فی کلو خریدتے رہے‘ وہ آپ جیسے تجربہ کار تاجروں کے دور میں55سے 60روپے فی کلو تک بکتی رہی؟ سونا جو مشرف حکومت میں 10سے بارہ ہزار روپے تولہ تھا، 2008ء میں اچانک بڑھ کر 18ہزار اور پھر 22ہزار روپے تولہ ہو گیا، 2018ء میں جب آپ کی حکومت ختم ہوئی سونے کی قیمت ڈبل سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔ آپ کے دور میں آنے والے آٹے ، چینی اور پٹرول کے بحران کسے یاد نہیں ہوں گے؟ پنجاب میں دو روپے کی روٹی فراہم کرنے اور اس مد میں اربوں روپے کی سبسڈی دینے کے واقعات کون بھول سکتا ہے؟ وہی روٹی جو آپ کی حکومت سے پہلے ایک روپے میں مل رہی تھی پہلے اسے اربوں روپے سبسڈی دے کر دو روپے پر قائم رکھنے کی کوشش کی گئی اور جب حکومت ختم ہوئی تو روٹی کی قیمت چھ روپے ہو چکی تھی اور ساتھ ہی قوم کے اربوں روپے بھی ڈوب چکے تھے، پنجاب جیسا صوبہ جو سرپلس بجٹ میں آپ کو ملا تھا، آپ کی جہاندیدہ حکومت ختم ہونے پر بدترین خسارے کو چھو رہا تھا۔ ڈالر جو پرویز مشرف نے ساٹھ روپے پر باندھ کر رکھا ہوا تھا‘ اسے 112روپے تک کس حکومت نے پہنچایا تھا؟اور ڈالر کی یہ قیمت بھی عارضی تھی‘ جیسے ہی آپ کی تجربہ کار حکومت ختم ہوئی‘ ڈالر اپنے اصل ریٹ پر آنے لگا اور پھر معلوم ہوا کہ زمینی حقیقت کیا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے اپنی حکومت کے آخری دن پنجاب کے ''دبنگ‘‘ وزیراعلیٰ نے اعلان کیا تھا کہ آج ہماری حکومت ختم ہو رہی اور آج کے بعد سے لوڈ شیڈنگ کے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ حقیقتِ حال سے واقف افراد جانتے تھے کہ یہ سب عارضی اقدامات تھے اور ایسی بارودی سرنگیں بچھائی جا رہی تھیں جن کا خمیازہ نئے آنے والوں کو بھگتنا پڑا۔ آپ احتجاج کریں گے تو یہ سوال بھی اٹھے گا کہ 2018ء میں جب مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی تو پٹرول کی قیمت فی لیٹر 92 روپے تھی، اس وقت عالمی سطح پر تیل کے ایک بیرل کی قیمت 54 ڈالر تھی جبکہ فی لیٹر تیس روپے تک لیوی ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا۔
یہ تو نواز لیگ کی خوش قسمتی ہے کہ پی ٹی آئی کا میڈیا سیل ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جنہیں اپنی ذات کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا، جو اپنے پرانے میڈیا سیل کے پی ٹی آئی مخالف ساتھیوں کی رات گئے لگنے والی محفلوں میں حکومت کا مذاق اڑانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ان کا کام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید انہیں یہی ٹارگٹ دیا گیا ہے کہ تم نے ایک ایک کر کے پی ٹی آئی اور عمران خان سے ہمدردی رکھنے والوں کو اس طرح پی ٹی آئی سے دور بھگانا ہے کہ کل کو چند مراعات یافتہ لوگوں کے سوا کوئی بے لوث ہو کر ان کیلئے کلمہ خیر کہنے والا باقی نہ رہے اور میرے نزدیک یہی اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے کہ اسے دکھاوے اور حقیقت کی پہچان ہی نہیں ہو پا رہی، اسے پتا ہی نہیں چل رہا کہ اسے منظم انداز میں اس کے مخلص ساتھیوں، ورکرز اور حمایتیوں سے دور کیا جا رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved