1988ء کے آغاز میں جب میں نے اپنے صحافتی کیرئیر کی شروعات لاہور کے ایک قومی اخبار سے کی تو اکثر سوچاکرتاتھاکہ کبھی دلیپ کمار،لتامنگیشکر اورپران صاحب سے انٹرویو کرسکوں گا؟ دن بھر کی اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات سرانجام دینے کے بعد میں رات گئے جب اپنی 70سی سی موٹرسائیکل پر سوار نیوکیمپس 18نمبر ہاسٹل کی جانب لوٹ رہاہوتا،تو عین وارث میر انڈر پاس کے نیچے سے گذرتے ہوئے نجانے کیوں یہ صحافتی خواہش میرے دل میں مچل جایاکرتی تھی۔وارث میر مرحوم انڈر پاس کے نیچے سے گذرتے ہوئے جب مجھے اپنی یہ خواہش یاد آتی تو پھر میں اپنے دل ہی دل میں بالی وڈ پر ’’حملہ آ ور ‘‘ ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگتا۔میرا یہ صحافتی خواب لگ بھگ تیرہ سال بعد 2001ء میں شرمندۂ تعبیر ہواجب میں پہلی بار واہگہ کے رستے جالندھر، چندی گڑھ اورپھر دلی سے ہوتا ہوا ممبئی پہنچا تھا۔مجھے تو جیسے کسی بہت بڑے اورپہنچے ہوئے ’’صحافتی پیر‘‘ کی دعا لگ گئی تھی۔بالی وڈ کے پہلے پھیرے میں ہی میری تمام ’’مرادیں‘‘ بر آئی تھیں۔ میں اپنے دوست گلوکار پرویز مہدی کے ہمراہ فن کے سمندر دلیپ کمار کے ہاں ’’لنگر انداز‘‘ ہواجہاں سے مجھ پر فن کے جہان کے تمام تر دروازے کھل گئے تھے۔ میری خو ش قسمتی تھی کہ مجھے اپنے دوست گلوکار پرویز مہدی کے ساتھ دلیپ کمارصاحب کے گھر مہمان بننے کااعزاز نصیب ہواتھا۔ممبئی میں ہماری رہائش کا بندوبست تھا مگر دلیپ کمار صاحب کے چھوٹے بھائی احسن خان جنہیںہم محبت سے ’’احسن بھائی‘‘ کہتے ہیں‘ انہوں نے ہندکو لہجے میںمجھے اور55سالہ پرویز مہدی کو بھی ’’منڈا‘‘(لڑکا) قرار دیتے ہوئے حکم دیاتھا ’’اوئے منڈیو کدھرے جان دی ضرورت نئیں چُپ کرکے اپنے گھر وچ رہو‘‘ (ارے لڑکو! تمہیںکہیںجانے کی ضرورت نہیں‘ چُپ کرکے اپنے گھرمیںرہو‘‘۔دلیپ کمار صاحب کے گھر مہمان بنتے ہی ہماری حیثیت مہمان اداکار سے سپرسٹار جیسی ہوگئی تھی۔ دلیپ کمار صاحب ایک عرصہ سے ریٹائرڈ زندگی گذار رہے تھے مگر آج تک بالی و ڈ میں ان کی اہمیت ،احترام اور گلیمر برقرار ہے۔ اس خوشگوار حقیقت کا اندازہ مجھے اس وقت ہواتھاجب بالی وڈ کے سپرسٹارز سے میری اپوائنٹمنٹس دلیپ صاحب کے ٹیلی فون آپریٹر کی صرف ایک کال سے ہورہی تھیں۔ سنیئرز فنکاروں سے اپوائنٹ منٹ کے لیے احسن بھائی خود انہیںفون کرتے تھے ۔مجھے یاد ہے پران صاحب سے اپوائنٹ منٹ کے لیے احسن بھائی نے خود انہیںفون کرکے کہاتھاکہ ’’بھائی صاحب ! آپ کے لاہور سے ایک گویّا اور ایک جرنلسٹ آئے ہیں،دونوں آپ کے پرستار بھی ہیںکل آپ کے گھر بھیج رہاہوں‘‘۔مجھے یاد ہے پرویز مہدی اورمیں جب پران صاحب کے گھر پہنچے تھے تو وہ ہم سے یونہی ملے تھے جیسے پردیس میں کوئی پردیسی اپنے ننھیال یاددھیال سے لپٹ کرملتاہے۔ اتفاق کی بات ہے لگ بھگ 12برس قبل جب میں پران صاحب سے ملنے ان کے ہاں ممبئی میں گیاتویہی دن تھے۔جولائی اوراگست میں ممبئی میں بہت بارشیں ہوتی ہیں۔اس روز بھی صبح سے رم جھم رم جھم جاری تھی۔میں بہت خوش تھا۔ شوبز جرنلزم کا ایک بہت بڑا’’سکوپ‘‘ میرے سامنے تھا۔میں نے اپنے بچپن میں پران صاحب کی فلم ’’ہلاکو‘‘دیکھی تھی جس میں ان کاتکیہ کلام ہے ’’میں ہلاکوہوں ،میری رگوں میں انسان کا نہیںبھیڑیے کا خون ہے‘‘۔ہلاکو دیکھنے کے بعد میں کئی سال تک پران صاحب سے ڈرتا اورنفرت کرتارہاتھاکہ کوئی شخص اتنا ظالم بھی ہوسکتا ہے؟ لڑکپن اور نوجوانی میں فلم اورایکٹنگ سے متعلق دلچسپی بڑھی تو یہ نفرت ،محبت اورپسندیدگی میں بدل گئی۔ ہم بھی ہزاروں اورلاکھوں لوگوں کی طرح پران صاحب کے مداحوں میں شامل ہوگئے۔پران صاحب نہایت ہی ملنسار،شفیق اورخوبصورت انسان تھے، ہم جتنی دیر بھی ان کے ہاں رہے انہیں مجسمہ ء محبت پایا۔سارا وقت ان سے محبت اور شفقت کی خوش رنگ اورخوشبودار کرنیں پھوٹتی رہیں۔وہ بار بار ہم سے پوچھتے ’’لاہور دی سنائو‘‘ (لاہور کی سنائو)۔ گوالمنڈی، لکشمی چوک ،رائل پارک اوراس میں حیدرپان والا‘ پران صاحب کو سب یاد تھا۔اس لمحے 81سالہ پران مجھے کوئی معصوم بچہ محسوس ہوا ۔ ایک ایسا بچہ جو اپنی ماںسے کھوجائے پھراچانک کوئی یہ کہے کہ میں تمہیںتمہاری ماں کے پاس لے چلتا ہوں۔پرویز مہدی اورمجھ سے مل کر پران صاحب کی کیفیت ایسے ہی کسی خوش نصیب بچے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔پران صاحب کے ہاں میں ان سے EXCLUSIVE INTERVIEWلینے گیاتھا۔ایک ایسا انٹرویو جسے شائع کرنے پر پیشہ ورانہ طور پر مجھے رسپانس اورفیڈبیک ملنے کی امیدتھی ۔لیکن اس روز انٹرویو نہیںکچھ اورہی ہواتھا۔ اس سے پہلے کہ میں سوال کرتا پران صاحب خود ہی ان کہے سوالات کے جواب دے رہے تھے ۔ وہ اپنے دل میں بسے لاہور کو شدت سے یاد کررہے تھے۔اس ملاقات میں پران صاحب مجھے ایک ایسا لاہوریادکھائی دئیے جسے لاہوریا ہونے پر فخر تھا۔پران صاحب لاہور کا نام لیتے تو یوں محسوس ہوتاجیسے ان کا منہ شہد سے بھر گیاہو۔واہ صاحب وا… جنے لاہو رنئیں ویکھیا او جمیا نئیں (جس نے لاہور نہیںدیکھاوہ پیدا نہیںہوا)یہ بہت بڑا سچ ہے۔ظہیر کاشمیری،سعادت حسن منٹو، بی آر چوپڑہ، حامد گنجا،شاہ نواز جونیئر،ناصر خان اورشیخ اقبال سمیت سبھی دوست حیدر پان والا کے ہاں ا کٹھے ہوا کرتے تھے۔حیدر پان والا رائل پارک میں اس جگہ ہوا کرتاتھاجہاں ان دنوں ایورنیو پیکچر کا ڈسٹری بیوشن آفس ہے۔پرویز مہدی نے پران صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہاکہ حیدر پان والا کی دکان اس جگہ ہوا کرتی تھی‘ جہاں ان دنوں ایورنیوپیکچر کاڈسٹری بیوشن آفس ہے۔حیدر پان والا کے پیچھے ’’محبوب فلمز‘‘ کا آفس تھا جنہوں نے ’’آن‘‘ ’’انداز‘‘ اور ’’الہلال‘‘ جیسی فلمیں پروڈیوس کی تھیں۔ پران صاحب نے بتایاکہ لاہور میں ان کا قیام رائل پارک اورگوالمنڈی میں ر ہا۔ انہوں نے از راہ ِتفنن کہاکہ میرے بعد پریم چوپڑہ بھی گوالمنڈی میں رہے۔ یوں لگتا ہے یہ سارے بیڈ بوائے، کھل نائیک اورولن گوالمنڈی میں ہی رہتے تھے۔ میں نے پران صاحب سے کہاکہ پریم چوپڑہ تو آپ سے بہت جونیئر ہیں۔پران صاحب نے کہاجی ہاںوہ جونیئر بیڈبوائے ہے لیکن کیاکریں وہ بھی لاہوریاہے ۔اسکا آبائی گھر لاہور گوالمنڈی میں رام گلی میںہوا کرتاتھا۔وہ بہت چھوٹی عمر میں ممبئی آگیاتھا۔پریم لاہور میں پیدا ضرور ہواہے لیکن اس نے لاہور انجوائے نہیںکیا۔ صاحب! ہم سے پوچھیں لاہور کیاہے ؟ایک بار دیکھاہے،دوسری بار دیکھنے کی تمناہے۔ میں نے پران صاحب سے کہاکہ آپ کی پیدائش تو دلی کے علاقہ بلی ماراں میں ہوئی تھی جو میرزا اسد اللہ خان غالب سے بھی منسوب ہے؟ میرا سوال سنتے ہی پران صاحب نے غالب کا یہ شعر ادا کیا ؎ پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ’’ہر درد کی دوا‘‘ یوں ہو تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو پران صاحب نے مسکراتے ہوئے کہاکہ اگلے جنم دلی بلی ماراں کے بجائے لاہورگوالمنڈی میں پیدا ہونے کا ارادہ کئے بیٹھا ہوں۔ پران صاحب نے کہاکہ میں بھی اسی روٹ سے ممبئی پہنچا ہوں جس سے غالب کے آبائو اجداد ترکی سے لاہور اور پھر آگرہ سے دلی آبسے تھے۔لیکن وہ تو غالب کے جد ِامجد میرزا قوقان بیگ خان تھے جو لاہور سے بھی ہجرت کرگئے ہم ہوتے تو وہیںبس جاتے۔ میں خوش ہواکہ پران صاحب کو میرزا غالب جیسے عظیم شاعر سے نہ صرف رغبت ہے بلکہ ان کے آبائو اجداد کی زندگی کے حالات بھی از بر ہیں۔ پران صاحب نے کہاکہ اٹھارویں صدی کے وسط میںجب قوقان بیگ ترکی سے پنجاب آئے تو معین الملک عرف میرمنورناظم پنجاب نے انہیںاپنے پاس لاہور میں رکھ لیا۔ بعدازاں میرزا قوقان بیگ ضلع بلند شہر سے ہوتے دلی پہنچے جہاں میرزا غالب کے والد عبداللہ بیگ خاں پیدا ہوئے تھے۔پران صاحب کے ڈرائنگ روم کا ماحول ذرا نصابی ساہواتو پرویز مہدی نے جملہ کسا…پران صاحب ! غالب کے دادا قوقان خاں صاحب بھی کہیںگوالمنڈی میں تو نہیںرہے تھے؟ اس لاہوری جگت کے جواب میں پران صاحب نے جھینپے بغیرکہاتھاوہ قوقان خان تھا، اگر مہدی خاںہوتاتو اسے چونا منڈی اور گوالمنڈی کا فرق معلوم ہوتا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved