تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-10-2021

ترسیلاتِ زر اور ملکی ترقی

ایک دور تھا کہ بہت سے ممالک بیرونی دنیا سے زیادہ روابط رکھے بغیر بھی جی لیتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے! مواصلاتی ذرائع کے بلند معیار نے دنیا کے ہر انسان کو دوسرے تمام انسانوں سے جوڑنے کا اہتمام کردیا ہے۔ اس پیشرفت نے بہت سی مشکلات بھی پیدا کی ہیں۔ خواہشات نے انسان کو مالِ تجارت میں تبدیل کردیا ہے۔ آج کون ہے جو اپنی صلاحیتوں کو بازار میں زیادہ سے زیادہ بلند نرخ پر فروخت کرنے کیلئے بیتاب نہیں؟ پسماندہ ممالک کے لوگ بہتر معاشی امکانات کیلئے ترقی یافتہ دنیا کا رخ کرتے ہیں۔ یہ رجحان اس خواہش کے تحت ہے کہ دنیا بھر کی سہولتیں میسر ہوں، زندگی آسان ہو۔ بہتر زندگی کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے ترقی پذیر اور پسماندہ دنیا کے لوگ کئی عشروں سے ترقی یافتہ خطوں کا رخ کر رہے ہیں۔ غیر ترقی یافتہ دنیا میں جو لوگ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے‘ وہ ترقی یافتہ دنیا میں مواقع حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں، مگر کیا ان کے تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا انہیں قبول کرلے؟ دکھائی تو یہی دیتا ہے مگر دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ پسماندہ ممالک کے باصلاحیت افراد کو بہت حد تک صرف انفرادی نوعیت کا فائدہ پہنچتا ہے۔ ان ممالک کی معیشتیں مجموعی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے قاصر رہتی ہیں۔ بیرونِ ملک بہتر زندگی کی تلاش میں مصروف افراد اپنی آمدنی کا بڑا حصہ وطن روانہ کرتے ہیں۔ اس عمل سے ان کے وطن میں بھی معیارِ زندگی بلند ہوتا ہے؛ تاہم حالات میں کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار نہیں ہوتی۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ ایجنٹس کی مدد سے‘ غیر قانونی طور پر‘ بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ ریاستی سطح پر کوئی واضح میکنزم نہ ہونے کے باعث ایسے لوگوں کو بیرونِ ملک بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کیا باصلاحیت افراد کے بیرونِ ملک جانے اور ان کی جانب سے ترسیلاتِ زر پانے کی صورت میں کوئی ترقی پذیر ملک پنپ سکتا ہے؟ اب تک اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ حقیقت پسندانہ پالیسی اپنائے بغیر اور واضح منصوبہ سازی نہ کرنے کی صورت میں کوئی بھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی گھر کا کوئی ایک فرد اگر بہت اچھا کمانے لگے تو لازم نہیں کہ منظم سوچ اپنائے بغیر اس کے تمام اہلِ خانہ بھی اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے میں کامیاب ہوں۔ بالکل یہی معاملہ اقوام کا ہے۔ چند ہزار یا چند لاکھ افراد کے بیرونِ ملک کام کرنے سے ملک کی تقدیر نہیں بدلتی۔ حقیقت پسندانہ انداز سے سوچئے تو ترسیلاتِ زر کسی بھی ترقی پذیر ملک کیلئے ''مفت کی کمائی‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔ افرادی قوت کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بیشتر ترقی پذیر ممالک یہی سلوک روا رکھتے آئے ہیں۔ ''ذہانت کا انخلا‘‘ تیسری دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد روشن مستقبل کے خواب پلکوں پہ سجائے ترقی یافتہ دنیا کا رخ کرتے ہیں اور پھر وہیں کے ہو رہتے ہیں۔ ان میں 90 فیصد وہ ہیں جو صرف اپنی محنت اور کاوش سے بیرونِ ملک نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ پاکستان میں افرادی قوت کی برآمد کے شعبے کو قومی تعمیر و ترقی کیلئے بروئے کار لانے کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ افرادی قوت کی برآمد سے معیشت کو کسی حد تک بڑھاوا ضرور دیا جاسکتا ہے مگر اس پر کامل انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ چند ترقی پذیر ممالک نے افرادی قوت بہتر طریقے سے برآمد کرکے معیشت کو مستحکم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے مگر دوسری طرف بیشتر ممالک اب تک اس معاملے کو اپنے حق میں کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد کے بیرونِ ملک چلے جانے سے ہمیشہ ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے سرکاری ادارے پانچ سال کی محنت سے نوجوانوں کو پروفیشنلز میں تبدیل کرتے ہیں اور پھر وہ اپنی خدمات سے وطن کو مستفیض کرنے کے بجائے بیرونِ ملک جاکر وہاں کی معیشت کو مضبوط کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ روشن اور محفوظ مستقبل کیلئے قومی مفاد کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔ ترقی پذیر ممالک اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے جب چاہتے ہیں‘ ترقی پذیر ممالک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت بٹورنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ محنت کی حرکت پذیری کا یہ کھیل اب تک ان کے حق میں رہا ہے۔ ترقی پذیر دنیا قدرے خسارے سے دوچار رہی ہے۔ ترسیلاتِ زر کی مدد سے معیارِ زندگی بلند کرنے میں مدد ضرور ملی ہے مگر بہتر زندگی کے لوازم ترقی یافتہ دنیا ہی سے درآمد کرنا پڑتے ہیں۔
کئی ممالک کو افرادی قوت کی حرکت پذیری نے غیر معمولی معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیوں سے دوچار کیا ہے۔ چند ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک افرادی قوت کی سمگلنگ کیلئے راہداری بنے ہوئے ہیں۔ ہنرمند افرادی قوت کی برآمد اور سمگلنگ کے منطقی نتیجے کے طور پر کئی ترقی پذیر ممالک میں اعلیٰ معیار کی افرادی قوت کی قلت پائی جاتی ہے۔ ایشیا کے کئی ممالک اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں مگر مطلوب افرادی قوت میسر نہیں۔ پاکستان کے باصلاحیت اور اعلیٰ مہارت کے حامل بیشتر نوجوان روشن مستقبل بیرونِ ملک تلاش کرتے ہیں۔ یہ مجبوری کی حالت ہے۔ حکومت انہیں بہتر مواقع فراہم نہیں کر رہی۔ پاکستان کو بھی اعلیٰ درجے کی ہنرمند افرادی قوت درکار ہے۔ جو ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کچھ مدد دے سکتے ہیں‘ وہی ملک چھوڑ کر باہر چلے جاتے ہیں۔ یہ رجحان متعلقہ شعبوں میں سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔ چند برس پہلے فلپائن میں تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی اتنی زیادہ ہوگئی کہ 200 سے زائد ہسپتال بند کرنا پڑے! ترقی پذیر ممالک خطیر سرمایہ کاری سے جن پروفیشنلز کو تیار کرتے ہیں‘ وہ تیار ہوتے ہی بیرونِ ملک چل دیتے ہیں۔ اس حوالے سے سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی منڈی میں معیاری افرادی قوت کی طلب ہمیشہ رہتی ہے۔ مغربی دنیا نے بہت سے شعبوں کی ملازمتیں آؤٹ سورس کردی ہیں۔ پس ماندہ ممالک میں بہت سے لوگ مغربی اداروں کے لیے کام کر رہے ہیں مگر وسیع تر تناظر میں دیکھئے تو یہ لوگ اپنے وطن کے لیے کام کے نہیں رہے۔ ترقی پذیر ممالک میں افرادی قوت کی برآمد سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب نہیں اور معیاری مانیٹرنگ سسٹم بھی موجود نہیں۔ ایسے میں افرادی قوت کی اصل کمی کا اندازہ کس طور لگایا جاسکتا ہے؟ ترسیلاتِ زر میں اضافے سے ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کا عزم کمزور پڑتا جاتا ہے۔ وہ محسوس کرنے لگتی ہیں کہ جب کام چل ہی رہا ہے تو زیادہ محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
بھارت ایک واضح مثال ہے۔ پوری دنیا میں بھارت کے نالج ورکرز کام کر رہے ہیں۔ 50 لاکھ سے زائد بھارتی باشندے بیرونِ ملک سے ہر سال قومی خزانے میں 25 ارب ڈالر کا اضافہ کرتے ہیں۔ اتنی خطیر رقم بھی بھارتی عوام کا مقدر بدلنے میں ناکام رہی ہے۔ ساٹھ کروڑ سے زائد بھارتی باشندے آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بھارت، میکسیکو، برازیل، فلپائن، سری لنکا اور پاکستان جیسے افرادی قوت برآمد کرنے والے ممالک کی مثال سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ترسیلاتِ زر پر منحصر ممالک میں آجرانہ رجحانات کمزور پڑتے جاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد ملک سے باہر چلے جائیں تو قومی تعمیرِ نو کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آباد ہونے والے صرف زر کے حصول پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ سمیٹنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ملک و قوم کے لیے کون سوچے؟ ایسے لوگ خال خال ہی ملیں گے جو کسی ترقی یافتہ ملک میں بہت کچھ کماکر وطن واپس آنے کو ترجیح دیں اور یہاں دوسروں کو بھی بہتر زندگی کیلئے تیار کرنے میں مدد دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved