پاکستان کو ایک بار پھر اس کھیل میں دھکیلنے کی کوشش ہورہی ہے، جو یہاں بار بار کھیلا گیا، اور جس کے نتیجے میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ ہارنے والوں نے تو خیر کچھ نہ کچھ کھونا ہی تھا، جیتنے والوں کو بھی خالی ہاتھ دیکھا، اور ہاتھ ملتے پایا گیا ہے۔ اپوزیشن سڑکوں پر نکل رہی ہے، پی ڈی ایم کی جماعتیں جگہ جگہ دھرنے دے رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی، پی ڈی ایم سے نکل چکی ہیں، لیکن احتجاجی سیاست سے نہیں نکل پا رہیں۔ اپنے اپنے وجود کا ثبوت دینے کیلئے الگ الگ احتجاجی اجتماعات کا انعقاد کر رہی ہیں۔ ایک کالعدم تحریک کے کارکن بھی اسلام آباد کی طرف مارچ پر بضد ہیں۔ لاہور میں انکی پولیس سے شدید جھڑپیں ہوئی ہیں، جن میں فریقین کو جانی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لاہور شہر کا ایک بڑا حصہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے انکے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، اُس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا‘ اب وہ اپنا حق بزورِ بازو منوانا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی اپنے طور پر احتجاج کے راستے پر گامزن ہے، اور بیروزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اسلام آباد میں جمع کرنے کے درپے ہے۔ دیکھا دیکھی مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے بھی حوصلہ پکڑ رہے اور احتجاجی گنگا میں اشنان کرنے کے ارادے کررہے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ تاجر، ڈاکٹر، کلرک، میڈیا ورکرز اور دوسرے ناراض عناصر بھی اپنا اپنا جھنڈا اٹھا کرنکل کھڑے ہوں کہ ''بازارِ احتجاج‘‘ میں انکی دکان نہ سہی چھابڑی تو نظر آئے۔ حکومت وہی کچھ کررہی ہے، جو یہاں حکومتیں کرتی آئی ہیں۔ طاقت کے نشے میں سرشار ہوں توکسی سے بات کرنے پرآمادہ نہیں ہوتیں، خمار اترنے لگتا ہے تومقابل شیر ہوچکے ہوتے ہیں۔ مذاکرات کے کسی اشارے کو کمزوری سمجھنے لگتے ہیں، اورگرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اوردو کے نعرے لگاتے سر پر کفن باندھ لیتے ہیں۔
ملکی معیشت مسلسل دبائو کا شکار ہے، ڈالر قابو میں نہیں ہے۔ روپے کی قدر گرتی جارہی ہے۔ درآمدات کا حجم کم ہونے میں نہیں آرہا۔ پٹرول درآمد کرنا مجبوری ہے، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے تو اشیائے خوردنی بھی باہر سے منگوائی جارہی ہیں، اورتو اور دالوں تک میں ہم خود کفیل نہیں۔ گندم اور چینی کی قیمتیں بھی بس میں نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات رک رک کرچلتے اور چل چل کررک جاتے ہیں۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ منہ کھولے کھڑا ہے، اوربہت کچھ نگلتا جا رہا ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار، آئی ایس آئی کے نئے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری پر نئی الجھنیں پیدا ہوگئیں۔ مطلوبہ نوٹیفکیشن ابھی تک جاری نہیں ہوا، بتایا جارہا ہے کہ یہ شبھ گھڑی کسی بھی لمحے آسکتی ہے، لیکن جو نقصان ہوچکا، اوراعتماد کو جو ٹھیس لگ چکی، اس کا ازالہ یا مداوا کیسے ہوگا۔ دیکھنے والوں کو تو کچھ نظر نہیں آ رہا، نہ دیکھنے والوں کا معاملہ البتہ مختلف ہے، ان کے اندھیروں نے تو جوں کا توں ہی رہنا ہے۔
حکومتی اتحادی طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگے ہیں۔ ایم کیو ایم کو عوام کی مشکلات کا احساس ہورہا ہے، اور سینیٹر کامل علی آغا کو بھی دانشمندانہ مشوروں پرکان نہ دھرنے کی شکایات پیدا ہورہی ہیں۔ نفسیاتی طور پر حکومت کچھ کپکپا رہی ہے، قبولیت کا گراف گرتا جارہا ہے۔ سبزباغ دیکھنے والے کالاباغ میں پڑے سسک رہے ہیں۔ حکومتی زعما کی طرف سے بین الاقوامی منڈی کے اعدادوشمار دیے جارہے ہیں کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں ہرجگہ ہے۔ لوگوں کو کھانا کم کھانے کے مشورے بھی مل رہے ہیں، اورگورنر سٹیٹ بینک نے تو اوورسیز پاکستانیوں کو یہ کہہ کر بہلانے کی کوشش کی ہے کہ ڈی ویلیوایشن میں آپ کا بڑا فائدہ ہے‘ آپ کے بھیجے ڈالروں کے عوض پاکستان میں آپ کے عزیزواقارب کو روپے زیادہ ملیں گے، لیکن روپے کی قوتِ خرید کم ہونے کی وجہ سے یہ تسلی کسی کام نہیں آرہی۔ پہلے جوچیز دس روپے میں آتی تھی، اب پندرہ میں ملنے لگی ہے، تودس کی جگہ بارہ روپے مل جائیں توبھی کس کام کے؟ پاکستان میں رہنے والے چیخ رہے کہ پچاس لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کو دلاسہ دیتے دیتے ساڑھے اکیس کروڑ لوگوں کے دِلوں پر آپ نے آرا چلادیا ہے۔ دوسرے ممالک کی فی کس آمدن سے بھی موازنہ کیا جا رہاہے۔ پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش سے پیچھے رہ گیا ہے، وہاں لوگوں کی فی کس آمدنی پاکستانیوں سے بڑھتی جارہی ہے۔ ہماری سکڑتی معیشت اور بڑھتی آبادی ہر شخص کی آمدنی میں کمی کا سبب بن رہی ہے۔ بنگلہ دیش جو قیام کے وقت پاکستان سے زیادہ پُرہجوم تھا، اب کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستانی چھ، سات کروڑ کی تعداد میں آگے نکل چکے ہیں اس طرح اوسط فی کس آمدن کم سے کم ترہو گئی ہے۔
جو کچھ ہورہا ہے، اُس کے نتیجے میں حکومت لڑکھڑائے، گرجائے، یاکھڑی ہونے میں کامیاب رہے، سُکھ کا سانس کسی کو نہیں ملنے والا، سڑکوں پر آنے، نعرے لگانے، دھرنے دینے، مارچ کرنے سے مہنگائی کم ہوتی نظر آ رہی ہے، نہ معیشت ترقی کرتی۔ سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا، تو سٹاک ایکسچینج اورگرے گی، ڈالر اور مہنگا ہوگا، بیرونی سرمایہ کار تو پہلے ہی نہیں آرہا، اندرونی سرمایہ کار بھی خود کو سمیٹ لے گا، نتیجتاً؎
ناکامیٔ عشق یا کامیابی
دونوں کا حاصل، خانہ خرابی
حفیظ جالندھری کا یہ شعر ایسے مواقع پر بے ساختہ یاد آ جاتا ہے، نئے واقعات اور حادثات میں کچھ بھی نیا نہیں ہے تونتیجہ کیسے نیا نکلے گا؟ ایٹمی قوت کہلانے والا پاکستان تاحال کشکول نہیں توڑ سکا۔ وہ سیاسی جماعتیں جو حزبِ اقتدار میں ہیں، یااختلاف میں، اوروہ ادارے جو حساس ہیں، یا وہ عناصر جواحساس سے عاری ہیں، آنکھیں کھول کر دیکھیں توسہی کہ ہمارے آگے کیا ہے؟ ہم موٹروے پر سفرکر رہے ہیں، کسی کھائی کے قریب پہنچ چکے ہیں یا کوئی گڑھا شدت سے ہمارا منتظر ہے۔ ایک دوسرے کو دھکا دینے کی خواہش، اورایک دوسرے کو زیرکرنیکے عزائم، ایک دوسرے کے سر سے آسمان اور پائوں سے زمین کھینچ لینے کی کوشش ہمیں کہاں لے آئی ہے، اورکہاں لے جائے گی؟ آپا دھاپی، اور نفسانفسی کا جو تندور ہم مل کر گرم کررہے ہیں، وہ سب کو جھلسا کررکھ دے گا۔ وزیراعظم ہوں یا قائدین حزبِ اختلاف یا دوسرے معتبر یا مقتدر کہلانے اورسمجھے جانے والے سب دوسروں کے گریبان سے کھیلنے کے بجائے اپنے اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں، اپنی اپنی غلطیوں کا حساب کریں۔ اپنے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کریں۔ ایک دوسرے کوتسلیم کریں، ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں، مسائل پرغور کریں، آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کریں۔ پاکستانی تاریخ سے کتنے حوالے دیے جائیں، ایوب خان کویاد کیا جائے یا یحییٰ خان کو، ذوالفقار علی بھٹوکو یا انکے بعد آنے والوں کو، پرویز مشرف کو یا ان کے ساتھ قوالی کرنے والوں کو، بروقت فیصلہ نہ کرنے کا نتیجہ کسی فیصلہ سازکے حق میں بھی اچھا نہیں نکلا۔ پاکستان میں کسی جماعت یا ادارے کو ویٹو حاصل نہیں۔ تحریک انصاف اور اُسکے مخالفین کے ووٹوں میں انیس بیس کا فرق ہے، ایک اور سوکا نہیں۔ احتساب کے نام پر جوکچھ تین سال سے ہوتا رہا، جس کی بھی شہ پرہوتا رہا، وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا۔ احتساب والوں کے دانت کھٹے ہو چکے، اور ہلّہ شیری کرنیوالوں کے بھی ثابت نہیں رہے۔کسی کوراستے سے ہٹانا ممکن نہیں رہا۔ بند راستوں کو ہجوم کھولنے میں لگ جائیں توپھر اقتدار بے چارہ تنہا ہوکر رہ جاتا ہے۔ فوری الیکشن اگر مسئلے کا حل ہیں توان پر اتفاق کرلیں، ضوابط طے کرلیں، اگر صبر ممکن ہے تو کچھ عرصہ صبر کرلیں۔ جن مشکلات میں سب نے ملکر اپنے آپ کوڈالا ہے، سب ملکر ہی ان سے خود کو باہر نکال سکیں گے۔ جو بھی سننے والا ہے، وہ سن لے، کان کھول کر سن لے،وگرنہ کان پکڑنے والے پکڑائی نہیں دیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)