اکتوبر 2021ء اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالے تین سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ اس دوران جہاں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے دیگر بہت سے وعدے ''وفا‘‘ کئے، وہیں مضبوط بلدیاتی نظام کا قیام بھی ''عمل‘‘ میں لایا جا چکا ہے۔ اب گلی میں سیوریج بند ہونے کا مسئلہ ہو یا گائوں کی دھول اڑاتی سڑک کو پختہ کرانا ہو، اہل علاقہ کو ایم این اے یا ایم پی اے کے ڈیرے کی خاک نہیں چھاننا پڑتی۔ مقامی کونسلر کے دفتر تک سب کی رسائی ہے، یونین کونسل کا چیئرمین بااختیار ہے، لوگوں کے مسائل ان کے دہلیز پر حل ہو رہے ہیں، یہی نہیں، جمہوریت گراس روٹ لیول پر اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ میئر لاہور لندن کے میئر کی طرح خود مختار ادارے کا سربراہ بن چکا ہے۔ کچھ یہی حال کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد کا بھی ہے۔ راولپنڈی، حیدر آباد، سکھر، فیصل آباد اور مردان بھی پیچھے نہیں رہے، وہاں پر بھی مقامی حکومتیں عوام کو ان کی دہلیز پر سب سہولتیں فراہم کر رہی ہیں۔
مگر ذرا ٹھہریے! پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں لکھی تحریروں اور وزیر اعظم عمران خان کی تقریروں کے مطابق دیکھا جائے تو اوپر بیان کئے گئے افسانے کو اب تک حقیقت میں بدل جانا چاہئے تھا‘ لیکن دیگر بہت سے دعووں کی طرح نئے بلدیاتی نظام کا وعدہ بھی صرف وعدہ ہی رہا۔ زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہمارے شہر پھیلتے جا رہے ہیں، کراچی اور لاہور کی آبادیاں تو بعض ممالک کے جتنی ہو چکی ہیں۔ صرف پنجاب کی بات کی جائے تو 11 کروڑ سے زائد آبادی کا یہ صوبہ اگر ملک ہوتا تو دنیا کا 13واں بڑا ملک ہوتا۔ بلدیاتی نظام اور مقامی حکومتوں کے نہ ہونے سے یہ ایک ایسا بوائلر بن چکا ہے جس پر دباؤ آخری حدوں کو چھو رہا ہے اور یہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
2018ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو ختم کر دیا تھا۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ 6 ماہ کے بعد قانون سازی کر کے نئے انتخابات کروائے جائیں گے اور پھر ایک آرڈیننس کے تحت اس مدت میں مزید سوا سال کی توسیع کر دی گئی۔ پنجاب کے عوام اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے محروم کر دئیے گئے اور اس کے لیے اصلاحات کی آڑ لی گئی لیکن نہ تو اصلاحات ہوئیں اور نہ ہی عوامی نمائندوں کو کام کرنے دیا گیا۔ نئے بلدیاتی نظام اور قانون کے نام پر پنجاب حکومت اب تک تین مختلف مسودے سامنے لا چکی ہے۔ مجوزہ قانون کو صوبائی اسمبلی سے منظور بھی کرایا گیا مگر ہر 6 ماہ بعد اس میں کوئی نہ کوئی ترمیم کر دی جاتی ہے۔ آخری بار جو ترامیم ہوئیں ان پر تو پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے بھی تحفظات کا اظہار کر دیا تھا۔ اس پر دوبارہ کمیٹی بنی اور قانون میں پھر ترمیم کرنا پڑی۔ یوں ''آئیڈیل بلدیاتی قانون‘‘ 3 سال کے دوران تختۂ مشق بنا رہا اور پنجاب کے بلدیاتی ادارے بیوروکریسی کے رحم وکرم پر چلتے رہے۔ دوسری طرف قانون سازی کا عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جب مسودہ پیش ہوا تو فاضل جج صاحبان نے ریمارکس دئیے کہ بلدیاتی ایکٹ کی شق 3 ماضی میں پاکستانی آئین کا حصہ رہنے والے قانون 58 ٹو بی کے مترداف ہے۔ اس دوران معطل کئے گئے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا کیس بھی عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔ سماعت مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا فیصلہ کیا مگر پنجاب حکومت نے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا۔ بلدیاتی نمائندے چارج سنبھالنے آتے تو سرکاری افسر، حکومتی احکامات پر اپنے دفتروں کو تالے لگا کر غائب ہو جاتے۔ بلدیاتی نمائندوں کی طرف سے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا گیا۔ عدالت نے نہ صرف بلدیاتی اداروں کی بحالی کا حکم دیا بلکہ اب تاخیر پر تحقیقات کرانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد پنجاب حکومت نے بوجھل دل کے ساتھ بلدیاتی نمائندوں کو بحال تو کردیا ہے لیکن ساتھ ہی ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ اب بلدیاتی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون بھی کیا جائے گا۔ گزشتہ 3 سالوں کے دوران سرکار کا اس حوالے سے جو طرز عمل رہا اس کے بعد کون حکومتی اقدامات پر یقین کرے گا۔
''واقفان حال‘‘ کے مطابق اب تو بلدیاتی انتخابات نہ کروانے پر تحریک انصاف کے اندر سے بھی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو تو بلدیاتی الیکشن کے نام سے ہول اٹھتے ہیں۔ انہوں نے علی الاعلان بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی غلطی کو کئی بار تسلیم کیا ہے۔ گزشتہ اتوار کو لاہور میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے فواد چودھری نے یہاں تک کہا کہ تحریک انصاف کی پوری حکومت میں صرف دو لوگ بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتے ہیں، ایک وزیر اعظم عمران خان اور دوسرے فواد چودھری۔ ظاہر ہے کہ وہ ان صوبوں کی بات کر رہے ہیں جہاں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیاستدان بلدیاتی نمائندوں سے اتنا خوف کیوں کھاتے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو یہ بلدیاتی ادارے سیاسی لحاظ سے کسی بھی سیاسی جماعت کا سب سے مضبوط بازو بن سکتے ہیں‘ اور سیاسی جماعتوں کے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات پر حد درجہ انحصار کو کم کر کے طاقت کو پھیلا سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کے اربن ازم میں جوہری تبدیلیوں کے باعث مقامی حکومتوں کے ذریعے عوامی مسائل کا حل ہی اب کسی سیاسی جماعت کو فرسودہ اور پرانے طریقوں سے نکال کر جدید زمانے سے ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ آئین پاکستان کی 18ویں ترمیم کی روح بھی یہی ہے کہ مضبوط صوبے ہی ایک مضبوط وفاق تشکیل دیتے ہیں‘ اور اسی کلیے پر مضبوط مقامی حکومتیں ہی ایک طاقتور صوبہ بناتی ہیں۔
تحریک انصاف کے لیے شاید بلدیاتی انتخابات کروانے کا وقت تیزی سے نکل رہا ہے اور سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس وقت جو عوامی صورت حال ہے اور مہنگائی، حکومتی تساہل اور وعدوں کے پورا نہ ہونے کی بنا پر جو فضا بن رہی ہے‘ ان میں انتخابات میں اترنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ فواد چودھری صاحب کی بات کو ہی لیں تو اس میں ایک سیاسی حکمت بھی پوشیدہ ہے کیونکہ جب بھی کوئی نئی حکومت اقتدار سنبھالتی ہے تو عوام سے اس کا رومانس پرانا نہیں ہوا ہوتا‘ اس لیے بہت سی غلطیاں اس رومانس کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔ شاید اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ شروع میں بلدیاتی انتخابات کروا دئیے ہوتے تو پہلے تحریک انصاف اکثریت لے جاتی اور بعد میں اس کی صوبائی حکومتوں پر جو انگلیاں اٹھیں وہ مقامی حکومتوں کی عوامی مسائل حل کرنے میں تیزی دکھانے کی بنا پر نہ اٹھتیں۔ سیاسی جماعتیں جتنا جلد بلدیاتی نمائندوں سے ایک ان کہی مخاصمت کو ختم کر کے ان کی اصل طاقت کو بروئے کار لے آئیں گی اتنی ہی جلدی وہ پرانے بیوروکریٹک نظام اور فرسودہ سیاسی روایات سے جان چھڑا کر 21ویں صدی کی جدید سیاست اور عوامی خدمت میں قدم رکھ لیں گی۔